منطق پڑھانے والے پروفیسر لوئیس کیرول نے ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام ”ایلس ان ونڈرلینڈ“ تھا۔ پروفسر لوئیس نے منطق پڑھانے کے باوجود غیر منطقی باتیں لکھی تھیں۔ مصنف نے دراصل اپنا اور اپنے ارد گرد معاشرے میں موجود بہت سے کرداروں کا تمسخر اڑایا تھا کیونکہ انسان اپنی غرض کی خاطر عجیب و غریب کام کرتا ہے اور ان عجیب و غریب کاموں کے نتیجہ میں نتائج بھی عجیب و غریب ملتے ہیں۔ ہمارے معاشرے پر اس طرح کا طنز صادق آتا ہے۔ ہاں اپنی اپنی غرض میں لپٹ کر عجیب و غریب کام کئے جاتے ہیں مگر جن بنیادی کاموں کے کرنے کی ضرورت ہے وہی نہیں کئے جاتے اور پھر ساری قوم ان کاموں کا خمیازہ بھگت رہی ہوتی ہے۔ دو دن قبل راج بیگ مجھے ایسی میٹنگ میں لے گئے جہاں بچوں کی تعلیم کے بارے میں نہایت منطقی باتیں ہو رہی تھیں اور یہ باتیں نہ صرف غریب بچوں کی تعلیم کے حوالے سے تھیں بلکہ ”سٹریٹ بچوں“ کے مستقبل کے حوالے سے بھی تھیں اور بتایا جا رہا تھا کہ اس وقت تین کروڑ بچے سڑک پر ہیں اور یہ باتیں چیئرمین سلطانہ فاﺅنڈیشن ڈاکٹر نعیم غنی بتا رہے تھے جو اس وقت ڈائریکٹرز کے ساتھ میٹنگ میں تھے ڈاکٹر نعیم کچھ اہم باتیں ایسی کر رہے تھے جن کا ذکر کرنا ضروری ہے وہ کہہ رہے تھے کہ ہیومن ڈویلومپنٹ یعنی ان بچوں کی ترقی کے نام پر بھی غلط استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ انہیں ترقی کے دھارے میں لانے کے نام پر انہیں اپنے باپ کے ہنر کو سیکھنے سے بھی محروم کردیا جاتا ہے اور پھر اپنے مفادات اور اغراض کے حصول کے بعد بیچ منجدھار میں چھوڑ دیا جاتا ہے ورنہ بچہ کم از کم باپ سے ہل چلانا، زراعت کرنا یا جوتے بنانا تو سیکھ رہا ہوتا ہے لہٰذا اس کام کو نہایت خلوص کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر نعیم ”سلطانہ فاﺅنڈیشن“ کے چیئرمین ہیں جہاں ہزاروں بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جا رہا ہے اور انہیں ایسی ایسی تربیت اور پھر جدید ٹیکنالوجی سے لیس تربیت دی جا رہی ہے تاکہ بچے روشن مستقبل کی طرف آگے بڑھ سکیں۔ میں ڈاکٹر نعیم کی گفتگو سن رہی تھی جس میں سچائی اور خلوص ہی خلوص تھا اور یہ تمام تر جذبات پاکستان اور پاکستانیت کے احساس کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں دراصل ایسی آرگنائزیشن اور ایسے افراد کو ہی کام کرنا چاہئے جن کا تعلق پاکستانی معاشرے اور افراد سے ہو ورنہ بیرونی ممالک سے آئی ہوئی این جی اوز اور باہر کے ممالک میں رہنے والے افراد جو پاکستانی بچوں کے نصاب کو تبدیل کرکے ان کی سوچ کو بدلنے کا ایجنڈا لے کر آتے ہیں ان کا تعلق ہمارے زمینی حقائق سے کم ہوتا ہے۔ ڈاکٹر نعیم جیسی شخصیات قائداعظم اور علامہ اقبال کے افکار کی روشنی میں کام کر رہے ہیں تو ان کے قول و فعل میں کسی قسم کا تضاد بھی نہیں ہے۔ ڈاکٹر نعیم انتہائی ہمدردی اور سادہ دلی سے پاکستانی بچوں کے تعلیمی مسائل پر بات کر رہے تھے جس میں کوئی رویہ بھی فیشن زدہ نہیں تھا۔ایک اور اہم بات پر یہ نقطہ بھی سامنے آیا کہ مغرب میں بچوں کی کلچرل تربیت اور کردار سازی پر توجہ نہیں دی جاتی بلکہ انہیں معلومات کی بنیاد پر ”روبوٹ“ بنا دیا جاتا ہے۔ہم”سلطانہ فاﺅنڈیشن“ کی عمارت میں داخل ہو کر ان کے انتظامات سے بھی متاثر ہو چکے تھے مگر اب ڈاکٹر نعیم غنی اور ان کی ٹیم سے ملاقات نے ہمیں مزید متاثر کیا۔ ہمارے ذہن میں یہ سوال ابھر رہا تھا کہ جس جگہ پر آج چھ ہزار سے زائد بچے اور نوجوان تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور جہاں سکول، کالج اور پھر ایم اے ایم ایس کے علاوہ ووکیشنل ٹریننگ کا بھی اہتمام ہے تو مشرقی روایات اور تہذیبی ورثہ کو سمجھنے والے ان اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد نے اس کی ابتداءکب کی تو معلوم ہوا کہ ڈاکٹر نعیم غنی نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی تھی اور سرکاری طور پر سعودیہ کی ڈیفنس منسٹری میں تعینات ہوئے تھے جہاں انہوں نے تیس سال تک خدمات سرانجام دیں۔ سعودی عرب قیام کے دوران ہی ڈاکٹر نعیم غنی نے اپنے چند دوستوں کا گروپ تشکیل دے دیا تھا جس میں سفارتکار اور انڈسٹری سے وابستہ لوگ تھے ان سب نے مل کر کچھ رقم جمع کی اور ترامڑلی چوک سے آگے جگہ حاصل کی گئی تاکہ پاکستانی بچوں اور نوجوانوں کیلئے تعلیمی ادارہ بنایا جائے۔ ڈاکٹر نعیم غنی سعودی عرب میں شاہ سلمان کی بیٹی سلطانہ کے معالج بھی رہے تھے لہٰذا جب سعودیہ سے واپس آنے لگے تو شاہ کی طرف سے پوچھا گیا کہ آپ کی یہاں بہت ساری خدمات ہیں اب آپ بتایئے کہ آپ کیلئے کیا کیا جائے۔ ڈاکٹر نعیم غنی نے ذاتی مفادات حاصل کئے بغیر ان پاکستانی بچوں کے بارے میں سوچا جنہیں تعلیم کی اشد ضرورت ہے۔ ڈاکٹر نعیم غنی نے اس زمین کا ذکر کیا جو انہوں نے چند دوستوں سے مل کر تعلیمی ادارہ کے قیام کی نیت سے خرید رکھی تھی اور جس پر عمارت بننا باقی تھا۔ شاہ سلمان نے یہ تفصیل سن کر ڈاکٹر نعیم غنی کو یہ عمارت تعمیر کروا دی جو شاہ سلمان کی بیٹی کے نام پر”سلطانہ فاﺅنڈیشن“ کے نام سے موجود ہے۔ ڈاکٹر نعیم غنی چونکہ محب وطن نظریاتی شخصیت ہیں لہٰذا ان کی گفتگو کا دوسرا نقطہ مثبت سوچ تھا۔ وہ خود بھی نہایت مثبت سوچ کی حامل شخصیت ہیں اور اس بات کی اہمیت سے ہمیں بھی انکار نہیں کہ ہمارے معاشرے میں منفی پراپیگنڈا اتنا زیادہ ہے کہ ہمیں سچ مچ مثبت سوچ کی ترویج کرنے کی ضرورت ہے اس حوالے سے میڈیا کی ذمہ داری پر بھی بات ہوئی اور پھر گورنمنٹ سکولزکالجز اور پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے والے اداروں کا تجزیہ ہی ہماری گفتگو کا حصہ بنا رہا۔ ہم نے اپنے تجربات کی روشنی میں شدید گلہ کیا کہ وفاقی دارالحکومت میں گورنمنٹ کے چند سکولوں کے علاوہ باقی کا برا حال ہے اور بڑی بڑی عمارات میں تمام تر سہولیات تو موجود ہیں مگر اساتذہ پڑھانے کی بجائے گپ شپ کرکے چلے جاتے ہیں اور ساری محنت ٹیوشنز پر صرف کرتے ہیں بالکل اسی طرح جیسا کہ ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اپنی پرائیویٹ پریکٹس کو ترجیح دیتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس ملک کا مستقبل ہمارے بچے اور نوجوان ہیں اور ہمارے مسائل کا حل تعلیم کے شعبے کی ترقی و ترویج میں ہے اور پڑھا لکھا پاکستان ہی دنیا کے نقشے پر اپنا مضبوط تصور قائم کروا سکتا ہے لیکن موجودہ حالات میں یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اداروں کے سربراہان ایسی شخصیات ہوں کہ جو بچوں کے سامنے رول ماڈل بن سکیں۔ نظریاتی پختگی اور تہذیبی ورثہ سے آگاہی دراصل بچوں کی کردار سازی کا ہی حصہ ہے جو اچھی تعلیم کے ساتھ کسی بچے کی شخصیت کی تعمیر کو بہترین انداز میں سنوار سکتی ہے۔ ڈاکٹر نعیم غنی نے اس حوالے سے کچھ لکھ کر کتابی شکل میں لانے کا ارادہ بھی کیا ہوا ہے جو کہ قابل تحسین ہے۔ میں خاص طور پر ”سلطانہ فاﺅنڈیشن“ کی ووکیشنل ٹریننگ کے اداروں اور Moqua schoolsسے متاثر ہوئی۔ یہ ایسے سکول ہیں جو جگہ جگہ سٹریٹ چلڈرن کیلئے ہیں جب میں سلطانہ فاﺅنڈیشن سے باہر آئی تو پروفیسر لوئیس کی کتاب ”ایلس ان ونڈر لینڈ“ کی یاد آ گئی مگر ”سلطانہ فاﺅنڈیشن“ کی دنیا اس مصنف کی دنیا سے مختلف تھی کیونکہ یہاں ایسا کام کیا جا رہا ہے جس کے نتائج شاندار ہیں!!!
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024