غیر جانبدار مبصرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ بھارتی حکمران نہ صرف کشمیریوں کے خلاف بھیانک انسانی جرائم میں ملوث ہیں بلکہ تمام عالمی ضابطوں اور بین الاقوامی قوانین اور روایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہمسایہ ممالک میں مسلح مداخلت کے بھی مرتکب ہیں۔ اس امر کی سنگین ترین مثال 16دسمبر 1971 کو پاکستان کو قوت اور سازشوں کے بل پر دولخت کرنا ہے۔یہ بات کسی سے بھی غالباً مخفی نہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں سولہ دسمبر سیاہ ترین دن کی حیثیت اختیار کر چکا ہے کیونکہ 46 برس قبل بھارت کی کھلی جارحیت کے نتیجے میں وطن عزیز کو دو لخت کر دیا گیا تھا ۔ اور اس سانحے کے 43 برس بعد سولہ دسمبر 2014ء کو اس دن کی سیاہی میں اس وقت مزید اضافہ ہو گیا جب پشاور میں 150 سے زائد معصوم روحیں سفاک دہشتگردوں کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ یہ امر انتہائی توجہ کا حامل ہے کہ حالیہ دنوں میں ہندوستان کی پاکستان کے خلاف جاری دیرینہ سازشوں میں سرعت کے ساتھ اضافہ ہو ا ہے جس کا ثبوت اس امر سے ملتا ہے کہ گذشتہ برس بھارت کے یومِ آزادی کے موقع پر مودی نے لال قلعے میں خطاب کرتے ہوئے واضح الفاظ میں اس بات کا اظہار کیا کہ دہلی سرکار پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے کسی بھی حد تک جائے گی۔ اس بابت ایک جانب موصوف نے ’’برہمداغ بگٹی‘‘ جیسے نام نہاد بلوچ رہنمائوں کے بارے میں قصیدہ گوئی کرتے ہوئے زمین آسمان کے قلابے ملا دیئے اور کہا کہ وہ ان جیسے افراد کی ہرممکن مدد کریں گے تو دوسری جانب پاکستان اور اس کے ریاستی اداروں پر ہر قسم کے جھوٹے اور مکروہ الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔ اس کے علاوہ موصوف فخریہ طور پر اس بات کا کریڈٹ لیتے نظر آئے کہ بھارتی فوج اور مکتی باہنی نے پاکستان کو دو لخت کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا اور اس روش کو آگے بھی جاری رکھا جائے گا۔ علاوہ ازیں مودی نے چار روز قبل یہ گوہر افشانی کی کہ منموہن سنگھ، منی شنکر آئر، سابق انڈین آرمی چیف جنرل دیپک کپور اور خورشید قصوری پاکستان کی شہہ پر بھارت کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ مودی نے یہ ہرزہ سرائی بھی کی کہ پاکستان کی کوشش ہے کہ کانگرسی رہنما احمد پٹیل گجرات کے وزیراعلیٰ بنیں۔ ماہرین نے ان بھارتی الزامات کو لغواور شرانگیزی پر مبنی قرار دیا ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ16دسمبر 1971 کو پاکستان کے مشرقی با زو کا الگ ہو جانا یقیناً ملکی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ ہے اور اس پر جتنا بھی افسوس اور غور و فکر کیا جائے وہ کم ہے تاکہ آنے والے ادوار میںدشمن کی ان ریشہ دوانیوںکا خاطر خواہ ڈھنگ سے جواب دیا جا سکے۔ دوسری جانب امن پسند حلقے اس بات پر متفق ہیں کہ سرحد پار دہشت گردی کی اس سے بڑی مثال گذشتہ نصف صدی میں شائد ہی کوئی دوسری ملے گی۔
یوں بلا جھجھک کہا جاسکتا ہے کہ ایک جانب بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے ایک کروڑ سے زائد نہتے انسانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے اور اس کے ساتھ بھارت میں بسنے والے کروڑوں مسلمان، سکھ، عیسائی اور نچلی ذات کے ہندو دہلی کی ریاستی دہشت گردی کا عذاب مسلسل بھگت رہے ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان سمیت بھارت کے سبھی ہمسائے مختلف اوقات میں دہلی کی مسلح مداخلت اور سازشی روش کا نشانہ بنتے آئے ہیں اور یہ قابل مذمت سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔یہ بات انتہائی توجہ کی حامل ہے کہ وطن عزیز کے خلاف جاری ان سازشوں کے پس پردہ قوتوں میں ’’را‘‘ اور ’’این ڈی ایس‘‘ پیش پیش ہیں اور اسی تناظر میں پاک دھرتی کے فرزندوں کی شہادتوں کا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے جس کی تازہ ترین کڑی کے طور پر چند روز قبل وزیرستان میں سیکنڈ لیفٹیننٹ عبدالمعید اور سپاہی بشارت نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ بہرحال یہ طے ہے کہ بدی کی ان قوتوں اور ان کے سرپرستوں کے مقدر میں شکست فاش لکھی جا چکی ہے جسے کوئی بھی نہیں ٹال سکتا۔ انشاء اللہ! گویا…
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا