اللہ کے فضل و کرم سے 14 اگست 2017ء کو ہم 70 واں یوم آزادی منانے جا رہے ہیں جس کیلئے انفرادی اور حکومتی سطح پر بھی پاکستان کو رنگ برنگی جھنڈیوں اور سبز ہلالی پرچم سے سجانے کا اہتمام ہورہا ہے۔ یہ سب خوش آئند ہے مگر ایک اہم سوال یہ ہے کہ باتیان پاکستان علامہ محمد اقبال اور قائداعظم نے جن عظیم مقاصد کے حصول کیلئے کلمے کی بنیاد پر اس ملک کو حاصل کیا تھا کیا وہ مقاصد ہم نے پورے کئے یا کم از کم 70 سال میں اس منزل کی جانب ہم جارہے ہیں یا نہیں؟ دوسری اہم بات یہ ہے فرض کریں ایک شخص پانچ کمروں پر مشتمل بڑی جدوجہد اور محنت سے ایک گھر بناتا ہے اور اس گھر کے دو کمرے کسی دشمن نے غاصبانہ قبضے میں لے رکھے ہوں تو ان دو کمروں کے بغیر اس گھر کی خوشی منانا ادھورا نہیں ہوگا۔ بات یہ ہے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا گیا ہے‘ شہ رگ تو انسانی جسم میں اہم ترین اور بنیادی حیثیت رکھتی ہے اور شہ رگ کے بغیر جسم کی بھی تکمیل نہیں ہوتی۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ قیام پاکستان کے صرف تیرہ ماہ بعد تک رب تعالیٰ نے قائداعظم کو مہلت دی اور وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔ ہندوئوں سے علیحدہ اسلامی ریاست بنانے کا ہمارے اسلاف کا مقصد ہی یہ تھا کہ یہاں رہنے والے مسلمان قرآن و سنت کے مطابق اپنی زندگی آزادی کے ساتھ بسر کرسکیں گے اور یہاں کی اقلیتیں بھی آزادانہ اپنے عقائد کے مطابق رہیں گی۔ قیام پاکستان کے وقت ایک شخص نے قائداعظم سے سوال کیا تھا کہ اس نوزائیدہ مملکت کا آئین وہ ہی ہوگا جو آج سے تیرہ سو سال قبل خاتم النبین ؐ نے ہمیں دیا جوکہ قرآن پاک کی صورت میں عملی طور پر ہمارے پاس موجود ہے۔کیا 70 سال میں آمرانہ یا جمہوری جو بھی حکومتیں آئیں انہوں نے آئین کو اسلامی بنانے کی کوئی جدوجہد کی یقیناً اس کا جواب نفی میں ہے۔ ذرا سوچئے بانی پاکستان نے تو ہمیں خاتم النبینؐ کی پوری شریعت کو نافذ کرنے کا حکم دیا تھا۔ مطلب پاکستان بنانے کا مقصد واحد ہی یہ تھا کہ اسے اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بنایا جائے گا جہاں صرف قرآن و سنت کا نفاذ ہوگا‘ قانون کا بول بالا ہوگا‘ عدل و انصاف کی حکمرانی ہوگی۔ باعث صد افسوس 70 سال میں وطن عزیز کو ایک بھی محب وطن لیڈر نصیب نہیں ہوسکا‘ لوٹ کھسوٹ کے سوا آج تک کسی نے کچھ بھی نہیں کیا۔ کشمیر کے حصول کیلئے مخلصانہ جدوہد کا اگر 70 سال میں جائزہ لیا جائے تو سوائے 5 فروری کو تعطیل کرنے کے منفی صفر ہے یا بھر ایک ہی جملہ ’’ہم کشمیریوں کی اخلاقی، سفارتی حمایت جاری رکھیں گے‘‘ بس 70 سال میں آج تک کشمیر اور کشمیری بہن بھائیوں کیلئے یہ ہم کرپائے ہیں۔ بجائے اس کے ہمارے حکمران ہندوستان جوکہ ہمارا ازلی و ابدی دشمن ہے سے ذاتی دوستیاں نبھا رہے ہیں۔ 70 سال میں ہمارے حکمرانوں کو کشمیر کا مقدمہ عالمی عدالت انصاف میں لے کر جانا نصیب نہیں ہوا۔ مقاصد قیام پاکستان کا شاید انہیں علم بھی نہ ہو۔ ایٹمی قوت ہونے کے باوجود ہم ایمانی قوت سے محروم ہیں۔ 70 سال میں ہزاروں ہمارے کشمیری بہن بھائی شہید کردیئے گئے اور ہنوز یہ سلسلہ شدت سے جاری ہے۔ کلبھوشن جوکہ بھارتی جاسوس پکڑا گیا‘ دہشت گردی پاکستان میں کرانے کا وہ ببانگ دھل اعتراف کر رہا ہے۔ ہماری فوجی عدالت اسے پھانسی کی سزا بھی سنا چکی ہے مگر سوچی سمجھی سکیم کے تحت اس معاملے کو ہی پس پشت ڈال دیا گیا ہے‘ اسے ہم پھانسی کیوں نہیں دے پارہے؟ آخر کیا وجہ ہے؟ درجنوں ہمارے کشمیری وہ روزانہ کی بنیاد پر بے گناہ شہید کررہا ہے‘ ہم کلبھوشن دہشت گرد کو پھانسی دینے سے کیوں ڈرتے ہیں؟ ہم تو کشمیر کے بارے 70 سال سے خاموش ہیں۔ دوسری طرف عرصے سے فضل الرحمن صاحب کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیںآج تک کشمیر کیلئے انہوں نے کشمیر کیلئے جو ’’خدمات‘‘ سرانجام دی ہیں آپ بھی ان سے بخوبی واقف ہیں۔ مولانا کے والد صاحب نے فرمایا تھا کہ ’’شکر ہے ہم پاکستان بنانے کے جرم میں شریک نہیں تھے‘‘ انہی کے فرزند ارجمند ہماری کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں 70 سال میں یہ ہماری حکومتوں کی کشمیر کے حصول کیلئے جدوجہد ہے۔ یوم آزادی ضرور منایئے مگر ساتھ کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ ہونے والے اندھادھند مظالم کو بھی یاد رکھئے۔ حقیقی خوشی تب ہی ہوگی جب کشمیر ہمارا ہوگا پھر ہمارے گھر کی تکمیل ہوگی۔ یوم آزادی منایئے مگر یہ بھی سوچئے کہ 70 سال میں قیام پاکستان کے مقاصد میں سے کیا ایک بھی ہم حاصل کرچکے ہیں ہم تو آج تک قومی زبان اردو کا نفاذ ہی نہیں کر سکے جسکا سپریم کورٹ فیصلہ بھی دے چکی ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024