ایک زمانہ تھا بچے حصول تعلیم کیلئے سکول جاتے تو انہیں تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے قابل اور شفیق اساتذہ وہاں موجود ہوتے تھے جو بچوںکو صرف پڑھاتے ہی نہیں تھے۔ ان کی کردار سازی بھی کرتے تھے‘ ان کو اچھا انسان بنانے کیلئے اپنی پوری صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے‘ بچوں کو کمرے کی چار دیواری میں بند کرکے انہیں صرف حصول تعلیم تک محدود نہیں رکھا جاتا تھا ان کی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کو ابھارنے کیلئے کھیل کود اور اس طرح کی دیگر سرگرمیوں کا بھی اہتمام کیا جاتا جس کے لئے ہر سکول میں لائبریریاں کھیل کے وسیع میدان موجود ہوا کرتے تھے۔ فٹ بال‘ ہاکی‘ کرکٹ یا دیگر کھیلوں میں سے ہر طالب علم اپنی مرضی کے کھیل کا انتخاب کرنا۔ علاوہ ازیں ”اتھلیٹکس“ کا الگ سے اہتمام کیا جاتا‘ سکول کے اندر مختلف ٹیمیں بناکر انکے درمیان مقابلے کرائے جاتے‘ کھیل یا دوڑ میں حصہ لینے والے طالب علم اپنی ٹیم کی جیت کے لئے جان لڑاتے تو دیگر طالب علم میدان سے باہر بیٹھ کر اپنی پسندیدہ ٹیم کی حوصلہ افزائی کرتے‘ نہ تو کھیلوں میں حصہ لینے کے لئے سفارش چلتی نہ ہی کسی خاص ٹیم کو جتوانے کی سکول انتظامیہ کو خواہش ہوتی‘ اور اس سے ہی کردار سازی کی ابتدا ہوتی‘ ہارنے والے رنجیدہ ضرور ہوتے لیکن اپنی شکست کو اپنی کمزور کارکردگی کی بنا پر تسلیم کرتے ہوئے آئندہ جیتنے کا عزم لے کر اپنی کوتاہیوں پر قابو پانے کی کوشش کرتے‘ جیتنے والے اپنی جیت میں سب کو شامل کرتے‘ ہارنے والوں کا وقتی طور پر مذاق ضرور اڑاتے لیکن ان کی توہین ہرگز نہ کرتے کیونکہ وہ سب پھر سے ایک ہو کر پڑھتے مل جل کر شرارتیں کرتے‘ یہی کردار سازی کے بنیادی عوامل تھے کہ سب کچھ میرٹ پر ہو‘ جیتنے کے بعد خوشی کا اظہار کیسے اور کس طرف ہار کو قبول کرنا ہے۔ درگزر‘ رواداری یا ”ٹالرنس“ بچے یہیں سے سیکھ کر بڑے ہوتے۔ امتحانات میں بچوں کو اپنے اساتذہ پر اعتماد ہو تاکہ وہ کسی کی حق تلفی نہیں کریں گے نہ ہی کسی پر مہربان ہونگے۔ طالب علم پاس ہوتے‘ نئی کلاسیں ‘ کھیلوں کے لئے نیا جذبہ‘ پرائمری‘ مڈل‘ میٹرک اور پھرکالج طالب علموں کے پڑھنے‘ سیکھنے اور کردار سازی کا عمل یونیورسٹیوں تک جاری رہتا۔
کھیلوں کے باہمی مقابلوں کا یہ سلسلہ اپنے سکول سے نکل کر دیگر سکولوں و کالجوں تک پھیلتا ہوا ضلع سے باہر دیگر شہروں کی ٹیموں سے مقابلوں تک چلا جاتا۔ اعلیٰ تعلیم سے فراغت کے بعد کوئی ڈاکٹر بنتا‘ کوئی انجینئر‘ کوئی مقابلے کے امتحان میں شریک ہو کر اپنے مستقبل کا تعین کرتا‘ تو کوئی تدریس کے شعبے سے منسلک ہو جاتا۔ غرض بے روزگار رہ جانے والے یا ملازمت کے حصول میں ناکامی کا شکار ہونے والے کو بھی نظام‘ معاشرہ یا کسی فرد سے کوئی شکایت نہ ہوتی۔ وہ مایوس ہو کر منفی سرگرمیوں میںملوث ہونے کی بجائے حصول روزگار کا جتن جاری رکھتا کیونکہ اقربا پروری‘ سفارش‘ یا رشوت دے کر ملازمتیں حاصل کرنے کا وائرس کا وجود نہیں تھا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیںکہ ہر طرح فرشتے براجمان تھے۔ اگر کہیں حق تلفی ہو بھی رہی تھی تو وہ ڈنکے کی چوٹ پر نہیں بلکہ سات پردوں میں چھپ کر سرانجام دی جا رہی تھی۔
پھر کیا ہوا دیکھتے ہی دیکھتے دنیا نئے رنگ ڈھنگ میں بدلنے لگی‘ ملک پر ایسے حکمران مسلط ہوئے جنہوں نے تعلیم کو غیر ضروری شعبہ سمجھ کر اسے تنہا چھوڑ دیا۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے بنیادی تعلیمی اداروں کی تعمیر و قیام حکومتی سالانہ بجٹ کی فہرست سے خارج ہو گیا‘ اپنے بچوں کو تعلیم کیلئے انہوں نے ملک سے باہر بھیجنا شروع کردیا۔ پہلے سے موجود سکولوں میںبچوں کی تعداد بڑھی جس سے تعلیم کا معیار گرتا چلا گیا قابل اساتذہ کی جگہ حکمرانوں کی طرف سے تعینات یا بھرتی کرائے جانے والے ان لوگوں نے لے لی جو بچوں کو تعلیم دینے کےلئے نہیں بلکہ مال بنانے کیلئے سفارش یا رشوت کے ذریعے وہاں پہنچتے تھے۔ کھیل کود اور سالانہ سپورٹس کا فنڈ خرد برد ہونے لگا اچھے نمبروں سے پاس ہونے کے لئے ”لفافے“ کی موٹائی یا اس کا وزن معیار بن گیا۔ سکولوں کے فقدان اور بچوں کی تعلیم کیلئے بڑھتی ہوئی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے ناجائز منافع خوروں کا مافیا میدان میں کود پڑا کرائے کے گھروں‘بنگلوں اور کوٹھیوں کے باہر لندن و امریکہ کی مصروف یونیورسٹیوں سے ملتے جلتے نام سجا دیئے گئے ملک میںدو قومی نظریے اور اسلامی اساس کے خلاف سرگرم بیرونی امداد پر پلنے والی این جی اوز بھی میدان میں کود پڑیں اور نجی تعلیمی اداروں کا ایک سیلاب پورے معاشرے میں ہر جگہ امڈ آیا جہاں بچوں کو منہ ٹیڑھا کر کے انگریزی بولنے‘ مشرقی اقدار و اسلامی تعلیمات سے دور کرنے مادر پدر آزاد مغربب طرز مغربی طرز معاشرت کو ترقی کا بنیادی زینہ قرار دے کر شرم و حیا کی نفی کرنے کے علاوہ کچھ نہیں پڑھایا جارہا تھا۔ گھروں و بنگلوں میں قائم سکولوں کی دیواروں پر اقوال زریں لکھ کر اسے کردار سازی کا عمل قرا دے دیا گیا۔ سپورٹس‘ سالانہ اتھلٹیکس ‘ تقریری مقابلوں ادب و شاعری کا دور ختم ہو گیا۔ تعلیم ”برائے فروخت“ بنا دی گئی۔ والدین اپنے بچوں کے لئے تعلیم خریدنے پر مجبور ہو گئے اس مال کی طرح جس میں قیمت کا تعین مال کی درجہ بندی کے حساب سے ہوتا ہے۔ سفید پوش طبقہ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر مہنگی تعلیم خرید کرنے کے لئے مجبور ہو گیا۔ انہوں نے معاشی دبا¶ کا حل رشوت‘ بدعنوانی‘ ناجائز منافع خوری میں تلاش کیا‘ معاشرے میں رشوت خوری اور ناجائز ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدن نے قومی معیشت کے مقابل الگ سے جگہ بنانی شروع کر دی۔
نجی تعلیم اداروں میں ماہانہ ہزاروں روپے فیس کی مد میں ادا کرنا ہی بڑے عذاب سے کم نہیں تھا ہر سال نصابی کتاب میں تبدیلی۔ ان کی ہوشربا قیمتیں ‘ مہنگے بستوں و یونیفارم کی خریداری کے علاوہ جدید سکولوں میں آئے روز منعقد ہونے والی تقریبات کے اخراجات الگ سے والدین پر بوجھ بن گئے یونیورسٹیاں بے روزگار تیار کرنے والی فیکٹریاں بن گئیں اوپر سے حکمرانوں نے یونیورسٹیوں میں طالب علموں کو ”لیپ ٹاپ“ سے آراستہ کرنا شروع کر دیا یہ سوچے بغیر کہ اس جدید سائنس ایجاد کے ذریعے جب وہ دنیا کو دیکھیں گے اور اس کا موازنا اپنے ملک کے حالات کے علاوہ اپنی حالت زار سے کریں گے تو مایوس ان پر حملہ آور ہو گی ان میں منفی سوچ اور غصہ جنم لے گا۔ آنکھوں پر پٹی باندھے چوڑی سڑکوں ‘ بلند و بالا عمارتوں‘ نمائشی اداروں کے قیام کو ترقی سمجھ کر اس کے پیچھے دوڑنے والے ہمارے حکمرانوں کو احسا س ہی نہیں کہ تعلیم جیسے بنیادی اور اہم شعبہ کو منافع خور تاجروں کے ہاتھ دے کر انہوں نے کتنا بڑا ظلم کیا ہے۔ اب اگر پاکستان میں یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل یا وہاں زیر تعلیم چند نوجوان دہشت گردی میں ملوث پائے گئے ہیں تو اسے خطرے کا الارم سمجھا جائے درجن بھر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان پکڑے گئے ان سے حاصل شدہ معلومات سے مزید بھی گرفت میں آئیں گے اور انہیں کیفر کردار تک بھی پہنچایا جائے گا تو کیا اس کے بعد کوئی انتہا پسندی کی اس طرف مائل ہونے کی جرا¿ت نہیں کرے گا؟ ہمارے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چایئں ان کے بچے باہر تعلیم حاصل کرتے ہیں‘ وہ علاج کرانے کے لئے باہر چلے جاتے ہیں وہ ملک میں ہوں تو سکیورٹی کا پورا نظام ان کے تحفظ پر مامور کر دیا جاتا ہے‘ انہیں یاد رکھنا چاہئے۔ جب تک سماجی ناانصافی کا خاتمہ نہیں ہوتا ‘ مساوات پر مبنی معاشی نظام قائم نہیں ہوتا‘ ریاستی وسائل پر ناجائز منافع خوروں کا غلبہ رہتا ہے تعلیمی نظام کو تاجروں کے چنگل سے آزاد نہیں کرایا جاتا دہشت گردی کی کونپلیں کبھی کہیں تو کبھی کہیں سے پھوٹتی رہیں گی۔ ملک دشمن معاشرتی ناانصافیوں سے ناراض نوجوانوں کو پھانس کر انہیں پاکستان کا سلامتی کے خلاف استعمال جاری رکھیں گے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024