انسانی کی زندگی خواہشات، تصورات، اعتقادات، نظریات، واقعات، حالات اور جذبات کا حسین گلدستہ ہے۔ جیسے چمن میں طرح طرح کے پھول ہوتے ہیں‘ اسی طرح گلشن زیست میں مختلف طبائع اور مزاج کے لوگ ہوتے ہیں۔ تصوراتی لوگ، عملی لوگ، اوہامی لوگ، مذہبی لوگ، روشن فکر لوگ، رجعت پرست لوگ، عقلیت پسند لوگ اور روحانی لوگ ۔گویا ہر’’گلے را رنگ و بوئے دیگر است‘‘ والا معاملہ ہے۔ حکماء کے نزدیک طبائع کے اختلاف کی وجہ انسان کے جسم میں عناصر کی کمی بیشی کا معاملہ ہے۔ آب و بادو آتش و خاک۔ یہ چار بنیادی عناصر ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی اجزائے ترکیبی جزو بدن ہیں۔ جس کے جسم میں آتش کا مادہ زیادہ ہوگا وہ غصیلا اور جلالی ہوگا۔ آبی مادہ کی کثرت والا نرم رو اور نرم خو ہوگا۔ باد کی کثرت والا شخص’’ہوائی‘‘مزاج کا ہوگا۔ باتیں زیادہ اور کام کم۔ ہوائی قلع بنانے کا معمار یکتا۔ خاکی عنصر کی زیادتی انسان کو سست اور بے عمل بنادیتی ہے بقول منیر نیازی ہر کام میں دیر کردیتا ہوں۔ مرد آہن کیلئے چاروں عناصر میں اعتدال ضروری ہے۔اگر یہ اعتدال نہ ہو تو انسان جسمانی اور نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یونانی طب میں مریض کے مزاج کو مدنظر رکھ کر ادویات تجویز کی جاتی ہیں۔ ریشہ و ریح عمومی امراض ہیں جوکئی امراض کو جنم دیتی ہیں۔ بلغمی مزاج اور دائمی نزلہ کئی امراض کا شاخسانہ ہیں۔ جرثومہ کیلئے مغربی طرز طب نے قابل ستائش ترقی کی ہے۔ جراثیمی امراض کا کافی و شافی علاج مغربی طب و جراحت میں ہے۔ نفسیاتی و مزاجی امراض کا علاج طب یونانی و طب ہندی اور روحانی اور ادو وظائف میں ہیں۔ حالات بھی انسانی کورجائی یا قنوطی بنادیتے ہیں ۔تفکرات ذہن و جسم پر اثرات چھوڑتے ہیں۔بقول شاعر؎
اے شمع تیری عمر طبعیی ہے ایک رات
ہنس کر گزار یا اسے روکر گزار دے
تو ہمات زدہ اقوام سائنس اور عقلیت سے کوسوں دور دام ہمرنگ زمیں میں اسیر ہیں۔ انسانی جسم اور روح کا امتزاج ہے لہٰذا اس کا جسمانی و روحانی مزاج و علاج ہے۔ جسمانی بیماریوں کا علاج ادویات سے ہوتا ہے جڑی بوٹیوں سے ادویات تیار کی جاتی ہیں۔ جراثیم کش علاج کیلئے اینٹی بایوٹیک ادویات دی جاتی ہیں۔ سائنس نے ایکسرے ،خون کا ٹیسٹ اور کئی دیگر طریقوں سے بیماری کی تشخیص میں آسانیاں پیدا کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی طریقہ علاج دنیا میں زیادہ مقبول ہوا ہے‘ لیکن مغربی طریقہ علاج میں اکثر ادویات کے مضر اثرات کی بدولت کئی لوگ ہومیو پیتھی اور طب یونانی کے علاج کو ترجیح دیتے ہیں۔ مغربی طریقہ علاج میں بعض ناگزیر حالات میں آپریشن کرنا پڑتا ہے جو ہومیو میتھ اور حکیموں کے طریقہ علاج میں ممکن نہیں ۔بہر حال ہر بیماری کا علاج ادویات کا مرہون منت ہے۔ چین میں کئی بیماریوں کا علاج سوئیوں کو انسانی جسم میں چبھا کرکیا جاتا ہے۔ روحانی طریقہ علاج کا تعلق دراصل ذہنی امراض و کیفیات سے ہے۔آجکل عصر جدید میں اسے’’علم نفسیات‘‘قرار دیا گیا ہے۔گویا یہ’’علاج روحانیت‘‘ کا متبادل ہے۔ روحانی لوگ عام دعاؤں اور وظائف سے ذہنی امراض کا علاج کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر مسلمان شیوخ اور عاملین مختلف روحانی یا ذہنی مسائل کے لئے قرآن مجید کی مختلف آیات یا اوراد کے ذریعے علاج تجویز کرتے ہیں۔الہامی الفاظ کی تاثیر مسلمہ ہے لیکن کچھ شعبدہ بازوںنے روحانی طریقہ علاج کو کاروبار بنالیا ہے اور فریب کاری میں مبتلا ہیں۔ حضرت عیسیٰؑ نے الفاظ کی طاقت و تاثیر سے جذامی کو صحت اور اندھے کو روشنی عطا کی مگر یہ کار انبیاء و اولیاء ہے۔ہر کس و ناکس یہ معجزہ یا کرامت دکھانے کا اہل نہیں۔ روحانی طریقہ علاج کا بھی دراصل تعلق نفسیات سے ہے۔ جب آدمی صاحب ایمان ہو اور ذہنی دباؤ یا پریشانیوں کا شکار ہو تو اس کا الہامی الفاظ کا ورد کرنا اس کیلئے ایک نفسیاتی مثبت علاج ہے۔اطمینان قلب سے کئی ذہنی بیماریاں اور ذہنی انتشار دور ہوتا ہے۔ نماز اور وظائف طبیعت میں سکون اور توازن پیدا کرتے ہیں اور یہی ’’روحانی علاج‘‘ہے۔ شعبدہ باز روحانی عاملوں سے دور رہیں اور دین کو بدنام ہونے سے بچائیں ماہرین نفسیات کی بھی دواقسام ہیں۔اول سائیکالوجسٹ،یہ صرف مشورہ دیتا ہے اور نفسیاتی مریض کے حالات سن کر اس کی ذہنی کیفیت کے مطابق عمل مشاورت سے علاج کرتا ہے۔صبر و تحمل کی تلقین کرنا اور حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی تلقین کرتا ہے اور خوشگوار زندگی کے لئے بہتر تجاوزیر دیتا ہے جبکہ سائیکٹریسٹ مشاورت کے ساتھ ساتھ مریض کی ذہنی کیفیت کو مدنظر رکھ کر ادویات بھی تجویز کرتا ہے گویا آج ’’روحانی طریقہ علاج‘‘دراصل ذہنی طریقہ علاج کی جدید صورت اختیار کرچکا ہے جسے علم نفسیات کی مختلف شاخیں زیر بحث لاتی ہیں۔تحلیل نفسی بھی ایک صورت ہے۔لہٰذا لوگوں کو روحانی یا نفسیانی مسائل کے حل اور علاج کے لئے ماہرین نفسیات سے رجوع کرنا چاہیے۔اکثر بیماریاں جسمانی او رذہنی ہوتی ہیں۔کئی نوجوان لڑکیاں ذہنی دباؤ یا دیر سے شادی ہونے کی بدولت ذہنی مرض ہسٹیریا کا شکار ہوجاتی ہیں۔ جعلی پیرو عامل ہسٹیریا کو جنات اور جادو کااثر قرار دے کر تعویذ اور چلہ کا چکر چلا کر مریض سے رقم بٹورتے ہیں۔جسمانی بیماریوں کا علاج حکیموں، طبیبوں اور ڈاکٹروں کے پاس ہے۔ذہنی و نفسیاتی بیماریوں کا علاج ماہرین نفسیات کے پاس ہے۔البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ جادو جسے قرآن مجید میں ’’سحر‘‘کہا گیا ہے انسانوں پر اثرات رکھتا ہے۔جادو یا کالا علم ایک شیطانی عمل ہے۔ جیسے معاشرے میں جعلی ڈاکٹر ہوتے ہیں اسی طرح جعلی عامل بصورت پیر بھی ہیں۔جادو ٹونہ اور تعویذ گنڈے صدیوں سے عمل پذیر ہیں۔پاکستان کی سینٹ نے جعلی پیروں اور روحانی فریب کاروں کے خلاف سزا کا بل منظور کیا ہے جو نہایت ہی قابل تعریف ہے۔ معاشرے کو استحصالی طبقات سے صاف کرنا از حد ضروری ہے۔ان جادو گروں اور سفلی علوم کے کار پر دازوں کو عبرت ناک سزائیں دی جائیں اور ان ’’روحانی دوکانوں‘‘کو بند کیا جائے۔ اولیاء اﷲ کے ’’آستانے ‘‘سر آنکھوں پر لیکن اکثریت جعل سازوں اور دین فروشوں کے ’’آشیانے ‘‘ہیں۔ یہ ’’آستانے‘‘ نہیں ہے۔میں ذاتی طور پر اوراد، وظائف و تسبیحات کے اثرات کا قائل ہوں۔میرے کالموں میں مضامین کا مجموعہ بعنوان ’’چراغ افکار‘‘ شائع ہوچکا ہے جس میں ایک کالم’’الفاظ کی تاثیر‘‘کے عنوان سے ہے۔جب ہم کسی کی تعریف کرتے ہیں تو اس شخص پر خوشی کے اثرات نمودار ہوتے ہیں اور کسی کی مذمت و تذلیل کرنے سے غم و غصہ کے آثار نمودار ہوتے ہیں۔صرف خیر خیریت اور صرف شر شرارت کا نمائندہ ہے۔قرآن مجید کا ہر حرف حرف خیر ہے۔اس کے اثرات ہیں۔ یہ کتاب حکمت و ہدایت و موعظت کے علاوہ بقول علامہ اقبال ’’دیں کتابے نیست چیزے دیگر است‘‘۔ وہ چیزے دیگر کیا ہے۔وہ کتاب اﷲ کے ہر لفظ کی روحانی تاثیر ہے۔جب ہم ’’لہموں‘‘کا لفظ بیان کرتے ہیں تو لہموں کے تصور سے زبان کے نیچے پانی آجاتا ہے جو تاثیر حرگ کی زندہ و روشن مثال و دلیل ہے۔ ’’اعوذبااللہ‘‘پڑھنے سے ہم شیطانی اثرات سے محفوظ رہتے ہیں۔ تعویذ کا لفظ ’’عاذو یعوذ‘‘ سے مشتق ہے جس کے معنی پناہ لینا یا حصار حفاظت میں آنا ہے۔قرآنی تعویذ سفلی علم اور جادو سے نجات کا ذریعہ ہے۔حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرمؐ جب بیمار ہوتے تو معوذ تین یعنی سورۃ الفلق و الناس پڑھ کر اپنے اوپر دم کرتے، سورۃ البقرہ میں جادو کا ذکر ہے۔یہودیوں کا جادوگری میں طاق ہونا۔دو فرشتوں ہاروت و ماروت کا ذکر۔قرآن مجید نے جادو گروں کی شدید مذمت کی ہے۔ روزانہ چاروں’’قل‘‘پڑھ کر اپنے اوپر دم کرنا ہر قسم کے جادو سے محفوظ رکھتا ہے۔جعلی ڈاکٹروں ،جعلی حکیموں اور جعلی پیروں سے بچئے اور ہر شعبہ میں حقیقی افراد سے فیضیاب ہوں۔ اولیاء اﷲ تزکیہ نفس کرتے ہیں۔ دعا دیتے ہیں جبکہ جعلی پیر اور عامل پیسے بٹورتے ہیں دغابازی اور فریب کاری سے روحانیت کو بدنام کرتے ہیں۔