70ء میں پاکستان کے پہلے عام انتخابات ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر منعقد ہوئے ۔اس کیلئے کم و بیش دو سال انتخابی مہم کیلئے دیئے گئے۔جو کسی بھی ملک کا ایک ریکارڈ ہے ۔پاکستان عوامی لیگ۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی دیگر سیاسی جماعتوں کی نسبت زیادہ سرگرم عمل تھے۔ عوامی لیگ نے مغربی پاکستان میں صرف ملک حامد سرفراز کو اپنا امیدوار بنایا جبکہ پیپلز پارٹی کی طرف سے مشرقی پاکستان میں کوئی امیدوار نہیں تھا۔ البتہ جماعت اسلامی نے دونوں صوبوں میں اپنے امیدوار میدان میں اتارے۔پاکستان عوامی لیگ کو مغربی سے کوئی نشست حاصل نہ ہوسکی مگر مشرقی پاکستان سے اس نے 181 نشستیں حاصل کرلیں ۔ایسے ہی مغربی پاکستان سے پیپلز پارٹی نے تقریبا 62 نشستیں حاصل کرلیں۔رہی جماعت اسلامی تو انتخابات میںوہ صرف چار نشستیں حاصل کر سکی۔ اگرچہ جمعیتہ علماء پاکستان ،پاکستان مسلم لیگ (دولتانہ)۔ نیشنل عوامی پارٹی۔ جمیعتہ علماء اسلام بھی اوسطا سات سات نشستوں پر کامیاب ہوئیں۔ مگر فیصلہ کن اکثریت اور سیاسی طاقت صرف عوامی لیگ کو حاصل ہوئی اور ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر اسے تاحکم ثانی ملتوی کر دیا گیا۔ یہ اجلاس کس وجہ سے نہ ہو سکا۔ سیاسی قیادت نے کیا کردار ادا کیا۔فوجی قیادت کس انداز میں سوچتی رہی ۔ہمارے سینئر قلمکار "محبت کا زمزم بہہ رہا ہے" جیسے مضامین لکھ کر ہمیں کس طرح گمراہ کرتے رہے۔ جماعت اسلامی کی "البدر" اور "الشمس" کا کیا کردار رہا۔ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کی "مکتی باہنی" نے کیا کیا خون ریزیاںکیں اور اقلیت کی مرضی کو کس طرح اکثریت پر تھویا گیا یہ ایک مکمل طور پر الگ موضوع ہے۔ اس پر کئی ایک کتابیں، کالم، ناول اور سچی جھوٹی کہانیاں بھی لکھیں گیئں۔ اکثریتی جماعت کا سربراہ ہونے کی بنا پر شیخ مجیب الرحمان جلد از جلد انتقال اقتدار کا مطالبہ کرتا رہا۔ اور پہلی بار لاہور کے موچیدروازہ کی تاریخی جلسہ گاہ میں اس نے کہا کہ اگر ہمیں اقتدار نہ دیا گیا تو پاکستان "حادثے" کا شکار ہوجائے گا۔ اس سے قبل اس کی تقاریر صرف ایک مطالبہ ہوتی تھیں پھر پہلی بار لاہور میںیہ مطالبہ دھمکی کی شکل میںسامنے آگیا۔ مولانا عبدالحمید خاں بھاشانی نے تو لاہور میں یہ تک کہہ دیا کہ "مغربی پاکستان کو ہمارسلام اب ہم ادھر نہیں آئیں گے کیونکہ پاکستان جس حادثے کا شکار ہونے جارہا ہے ہم اس میں شامل نہیں ہوں گے"۔ یہ "حادثہ" کیا تھا، یہی کہ مشرقی پاکستان کو ہم الگ ملک بنا لیں گے۔ انہیں دنوں مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کے نائب صدرمشتاق خوند کرکی قیادت میں بھارت میں ایک جلاوطن حکومت بھی قائم کردی گئی ایک بھارتی ریڈیو "آکاش وانی" بھی میڈیا کا زہر پاکستان کے خلاف اگلتا رہا۔ اب صورت حال کچھ اس طرح بنی کہ مشرقی پاکستان میں پاکستانی مسلح افواج جگر داری سے لڑرہی تھیں۔مقامی آبادی میں بھی ایک اکثریت پاکستان کے قائم رہنے کے حق میں تھی مگر ایک مسلح اقلیت ان پر حاوی ہو کران کی آواز کو دبانے میں کامیاب ہوگئی۔ ہندوستانی میڈیا چوبیس گھنٹے پاکستان کے خلاف پروپگنڈہ کرتا اور ہندوستان میں موجود "مشتاق خوندکر" اینڈ کمپنی ہندوستان کی مدد سے پاکستان کے خلاف منصوبے بنانے میں مصروف ہوگئی۔ پھر بھی جب کچھ بس نہ چلا تو آخری وار کے طو رپر ہندوستانی افواج مشرقی پاکستان میں داخل ہوگئیں اور وہ "حادثہ" بالآخر پیش آگیا جس کا خدشہ تھا۔ مگر اس حادثے کو بپا کرنے کیلئے ہندوستان کو اپنی لاکھوں افواج مشرقی پاکستان میں داخل کرنا پڑیں۔ سانحہ مشرقی پاکستان کو گذرے بھی اب 47 سال ہونے کو آرہے ہیں۔ مغربی پاکستان کے لوگ اس سانحے کو بھول کر ایک نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 5000 مربع میل علاقہ ہندوستان سے بغیر لڑے صرف مذاکرات کی میز پر حاصل کرلیا۔ بانوے ہزار جنگی قیدی بھی بغیر کسی جنگی جرائم کا سامنا کئے بازیاب کروائے اور عزت سے انہیں گھروں کو روانہ کیا۔ ایک مضبوط فوج قائم کی۔ "آئین" نامی جس مقدس دستاویزکے لئے پاکستان 26 سال سے ترس رہا تھا وہ اس قوم کو ملا جسے متفقہ طور پر پارلیمنٹ نے منظور کیا۔ بھارت کے ایٹم بم کے جواب میں پاکستان نے بھی ایٹم بم بنایا اور زیادہ مضبوط میزائل سسٹم کا تحفہ قوم کو ملا۔ اب قوم ایک راستے پر چل پڑی تھی۔ حکومت مضبوط اور مقبول تھی۔ ادارے خود مختاراور طاقتور تھے۔ پانچ سات سال ہی میں پاکستان کی اڑان دیدنی تھی۔ اس ملک کو ایک بار پھر نظر لگ گئی اور ضیاء الحق آگیا۔ جس نے ظلم و ستم اور کرپشن، دونوں ہتھیاروں کے استعمال سے ڈٹ کر اسلامی حکومت کی اور نواز شریف کی شکل میں اپنی "سیاسی اولاد" بھی قوم کو دے گیا۔ یہاں مجھے اس بات سے فی الحال غرض نہیں کہ اس خاندان نے کتنے سو ارب روپے لوٹے اور کالے دھن کو سفید کیا۔میں ایک وکیل ہونے کے ناطے سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی اعلی ترین عدالت سپریم کورٹ آف پاکستان نے انہیں "نااہل" قرار دے دیا۔ اس کے بعد وہ تو جیسے اپنے حواس ہی کھو بیٹھے۔ نااہلی کے بعد پنڈی سے لاہور تک اپنا سفر شروع کیا۔ ایک ہی مصرع الاپتے رہے کہ "مجھے کیوں نکالا" غزل تو کیا ابھی تک اس کا دوسرا شعر بھی موزوں نہیں کر سکے۔ دوران سفرلالہ موسی میں ایک پھول سے بچے کو تتلیوں کی تلاش میں بہت دور بھیج دیا۔ لاہور پہنچنے کے بعد الحمراء ہال میں وکلاء کے سرکاری کنونشن کو خطاب کرتے ہوئے بھی یہی قوالی کی۔ مجھے یا د آیا کہ ایسا ہی ایک کنونشن جنرل مشرف کے آخری دور میں الحمراء میںہی ہوا تھا جس میں اسی کنونشن کی طرز پر غیر وکلاء کو کالے کوٹ یا واسکٖٹ وغیرہ پہنا کر لایا گیا۔ ہمارے ایک مسلم لیگی دوست اس کنونیشن کے میزبانوں میں شامل تھے اور اب وہ نواز شریف کے ساتھ بھی سٹیج پر کھڑے تھے۔ مگر ان کی حالت "زار" قابل رحم تھی "اسلم" کولسری کا شعر یاد آرہا تھا مگر خوف فساد خلق سے لکھنے سے قاصر ہوں۔ لاہور کے وکلاء کنونشن سے فارغ ہوکر میاں صاحب کسی اگلی منزل کی طرف روانہ ہوئے تو "مجھے کیوں نکالا" کے ساتھ ساتھ اب دھمکیوں پر اتر آئے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے پاکستان کسی حادثے کا شکار ہوسکتا ہے۔ ان کے خیال میں اگر وہ نہیں تو پھر پاکستان حادثے کا شکار ہوجائے گا(نعوذ بااللہ)۔ شاہد خاقان عباسی ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت ہے۔ بلوچستان اور سندھ میں ان کے اتحادیوں کی حکومت ہے۔ملک میں تمام ادارے موجود ہیں۔ کسی ادارے کی کام میں سستی اور بات ہے مگر اللہ کے فضل سے پاکستان چل رہا ہے۔ ٹرمپ کی دھمکیوں اور "را" کی سرگرمیوں کے باوجود ۔وہی صبح و شام اور روزمرہ کے معاملات ہیں جو نواز شریف کی نااہلی سے پہلے تھے۔ ہاں البتہ ایک خوف ضرور محسوس ہو رہا ہے کہ غداران وطن،الطاف حسین، براہمداغ بگٹی اور حربیارمری جیسے پاکستان دشمن عناصر لندن میں موجود ہیں اور اب نواز شریف بھی وہیں ہیں۔ جس نواز شریف کو میں جانتا ہوں بلکہ سارا ملک جانتا ہے وہ انتہاء کے منتقم مزاج ہیں اپنی انا کی خاطر وہ پاکستان کو خدانخواستہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور ایسی کوشش بھی ضرور کریں گے۔ پاکستان کی سلامتی کے اداروں کو نہ صرف نواز شریف بلکہ ان کے دوست نریندر مودی اور کاروبار کی دنیا کے "سفارت کار" جندال کی سازشوں پر بھی نظر رکھنا ہوگی۔نواز شریف خاندان ایک ایسا ہارا ہوا لشکر ہے جو اپنے گھر کو بھی آگ لگا سکتا ہے۔ جس کی ابتداء انہوں نے قومی اور آئینی اداروں کی بے توقیری سے شروع کردی ہے۔
پس تحریر:۔ ابھی رانا مبارک ایڈووکیٹ کی وفات کا غم کہاں بھولا تھا کہ دوروز قبل ہی بار کے اہم رکن قاضی عبدالحکیم اعوان ایڈووکیٹ لاہورہائی کورٹ میں دلائل دیتے ہوئے اللہ کو اپنی جان بھی دے بیٹھے۔جاوید پال،چوہدری ظفرسلیم اور چوہدری نثار کا غم ہم آج تک کہاں بھول پائے تھے کہ قاضی صاحب بھی چلے گئے۔ احمدمشتاق کے بقول…ع
کئی چاند تھے سر آسماں کہ چمک چمک کے پلٹ گئے