ستمبر اور اکتوبر کئی سالوں سے پاکستانیوں اور خصوصاً مسلمانوں کے لئے کوئی نہ کوئی آزمائش یا اس کی تلخ یاد لے کر طلوع ہوتے ہیں۔ 11 ستمبر کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے لے کر 12 اکتوبر تک کی کہانی اذیت ناک یادوں سے بھری ہوئی ہے۔ 8 اکتوبر کا زلزلہ بھی ایک قیامت سے کم نہ تھا۔ ابھی تک اس کے آثاراور اس سے جڑی درد کی کہانیاں فضا میں بین کرتی محسوس ہوتی ہیں۔ لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ خادمِ پنجاب لوگوں کے بنیادی مسائل حل کرنے کے لئے اتنے متحرک ہیں کہ آئے روز کسی نہ کسی منصوبے کا افتتاح ہونے کی خبریں ملتی ہیں۔ مخالفت برائے مخالفت کرنے والوں کو میٹرو، اورنج ٹرین اور دیگر منصوبوں کے خلاف جب کچھ مواد حاصل نہ ہوا تو لاہور کو نشانۂ ستم بنا کر یہ تاثر دیا گیا کہ جنوبی پنجاب کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ حکومتِ پنجاب نے زبانی تقاریر کی بجائے عملی حوالے سے جنوبی پنجاب میں جاندار اور بڑے منصوبے شروع کئے اور بہت سے مکمل بھی کر لئے ہیں کہ اب حزبِ مخالفت کو مخالفت اور تنقید کے لئے کوئی نیا بہانہ تلاش کرنا پڑے گا یا مسئلہ بنانا پڑے گا۔
ملتان میں سپیڈو بس سروس کے افتتاح کے موقع پر میاں صاحب نے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے طرزِ عمل پر تنقید کی کہ کس طرح ڈینگی کی وبا کے دوران وہ خود نتھیا گلی میں سیر و تفریح کرتے رہے اور لوگ بے بسی اور موت کا شکار ہوتے رہے جب کہ لیڈر کو مصیبت کے وقت عوام کے درمیان ہونا چاہئے اور ان کے مسائل کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔ جنوبی پنجاب میں مسلسل ترقیاتی کاموں کے باعث علاقے کے لوگوں نے وزیر اعلیٰ سے خاص اُنسیت کا اظہار کرتے ہوئے ’’آئی لو یُو میاں شہباز‘‘ اور ’’خادمِ اعلیٰ ہر کوئی تیرا چاہنے والا‘‘ کے پُرجوش نعرے لگائے۔ ایسا نعرہ اسی وقت بلند ہوتا ہے جب لوگ دل سے کسی رہنما کا احترام کریں اور اس کی کاوشوں پر مکمل یقین رکھتے ہوئے اس کے کام کو سراہیں۔ طاقت اور قانون کے ذریعے لوگوں پر حکومت کی جا سکتی ہے، انہیں خاموش کرایا جا سکتا ہے، ان سے انگوٹھے لگوائے جا سکتے ہیں مگر ان کی آنکھوں سے چھلکتی محبت اور دل سے پھوٹنے والی دعائیں حاصل نہیں کی جا سکتیں۔ زبانی کلامی تقریروں سے بھی صرف کچھ لمحوں کے لئے لوگوں کی توجہ حاصل کی جا سکتی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اربوں روپے کے نئے منصوبوں کا اعلان کیا۔ وہ مخالفت اور تنقید کی پرواہ کئے بغیر اخلاص سے کام میں لگے رہے۔ دانش سکول سے شروع ہونے والا سفر تعلیم، ٹرانسپورٹ، ہسپتالوں اور دیگر اہم منصوبوں کی طرف بڑھتا رہا اور یوں وہ لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ عوام کی دعائوں سے ان کے حوصلے کو مزید توانائی ملتی رہی اور وہ خوشحالی کی تدبیروں کو عملی جامہ پہناتے رہے۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ بن کر حکومت کرنے کی بجائے خادم بن کر خدمتِ خلق کی راہ اپنائی اور خالق اور مخلوق دونوں کی محبت سے سرفراز ہوئے۔ یقینا ملتان میں ایک سو سپیڈو بسوں کا افتتاح ایک غیر معمولی کارنامہ ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ میٹرو بس سروس اور سپیڈو بس سروس کے ذریعے لوگ صرف 25 روپے میں آرام دہ اور باوقار سفر کرنے کے قابل ہوں گے۔ علاوہ ازیں معذور افراد کے لئے خصوصی سہولت کا اہتمام کیا گیا ہے۔ پورے پنجاب میں ٹرانسپورٹ کا بہتر نظام متعارف کرانے کے منصوبوں میں لاہور کے بعد ملتان کو منتخب کرنا اس خطے اور شہر کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ نیز یہ کہ حکومت جنوبی پنجاب کو کس قدر اہمیت دیتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کھیتوں سے منڈیوں تک دیہی علاقوں میں ہزاروں کلومیٹر طویل سڑکوں کی تعمیر اور مرمت پر تقریباً 85 ارب کی خطیر رقم خرچ کی جا چکی ہے۔ کھاد پر خصوصی سبسڈی کے علاوہ چھوٹے کاشتکاروں کے لئے ایک سو ارب کے جن بِلاسود قرضوں کا پروگرام شروع کیا گیا ان کے ذریعے اب تک 2 لاکھ سے زائد کسان اس سہولت سے مستفید ہو چکے ہیں۔ 55 تحصیلوں میں صاف پانی پروگرام کے لئے 24 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ رحیم یار خان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی بھی اس سال مکمل ہو جائے گی جو اس علاقے کے نوجوانوں کو آگے بڑھنے کا سنہری موقع فراہم کرے گی۔ خانیوال سے لودھراں تک 23 ارب میں سڑک کی تعمیر کے علاوہ ہیپاٹائٹس فلٹر کلینکس اور موٹر بائیک ایمبولینس سروس جلد شروع کی جائے گی جب کہ بہاولپور میں 5 ارب کی رقم سے دو رویہ سڑک کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے۔ خدا کرے خادمِ پنجاب کی کوششوں سے پورا پنجاب بلکہ پاکستان خوشحالی اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔ پاکستان کو اس وقت میاں شہباز شریف جیسے نیک نیت اور جنون کی حد تک مخلص رہنما کی ضرورت ہے جو تمام چیلنجز کا سامنا کر کے آگے بڑھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ ملتان کے ہر دلعزیز شاعر رضی الدین رضی کا ایک خوبصورت شعر آپ کی نذر:
ترے خوابوں کی خواہش جاگتی ہے
وگرنہ کب میں سونا چاہتا ہوں