نصف اول 13 نومبر کو صدر مملکت نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا نام واپس لیکر وزیر داخلہ احسن اقبال کو مشترکہ مفادات کونسل کا ممبر بنا دیا ہے۔ گویا وزیر خزانہ نام کا منصب اب کابینہ میں عملاً موجود نہیں رہا۔ اس فیصلے سے اسحاق ڈار کی اخلاقی اور اقدار سیاست و اقتدار میں ’’مزید‘‘ صورتحال ناگفتہ بہ ہو گئی ہے۔ یاد رہے اسحاق ڈار جناب نواز شریف کے سمدھی بھی ہیں۔ جاتی امرا میں (شدید دھند کے باوجود) جناب نواز شریف کی زیر صدارت کچھ مسلم لیگی اکابرین کا اجلاس ہوا۔ جس میں جناب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی شرکت کی۔ کچھ وزراء اور پارٹی قائدین نے بھی۔ یعنی عملاً وہی کچھ یا ویسا ہی اجلاس جو کچھ عرصے پہلے لندن میں ہوا تھا۔ خوشی اس امر کی ہے کہ اب ایسا اجلاس لندن کی بجائے جاتی امرا لاہور میں ہوا ہے۔ ویسے تو سندھ حکومت مستقل طور پر دوبئی سے چلائی جاتی رہی ہے۔ ہے ناں سندھی عوام کے ساتھ بہت زیادہ محبت و خدمت جناب آصف علی زرداری کی؟ شریف خاندان حدیبیہ مقدمے کے حوالے سے جسٹس کھوسہ کی بنچ سے علیحدگی چاہتا تھا۔ 13 نومبر کو صبح بھی انکی یہ خواہش جناب جسٹس کھوسہ نے خود ہی پوری کر دی ہے۔ ابتہ ان کا یہ کہنا کہ وہ تو حدیبیہ معاملات میں بھی دیئے ہوئے اپنے پاناما فیصلے کی وجہ سے یہ مقدمہ سن ہی نہیں سکتے تھے۔ تب بھی رجسٹرار آفس نے غلط طور پر یہ مقدمہ انکی سماعت کے لئے پیش کیا تھا جسٹس کھوسہ کا پاناما مقدمہ فیصلے میں حدیبیہ معاملات کے حوالے سے پیش کردہ مؤقف کا تذکرہ شائد شریف خاندان کی مشکلات میں اضافہ کا نیا باعث بھی ہو سکتا۔ اگر حدیبیہ معاملات پر موجود ’’ریمارکس‘‘ کی آئینی حیثیت پر غور کیا جائے گا تو پھر یہ ’’ریمارکس‘‘ اکیلے جسٹس کھوسہ کے کیسے تصور ہونگے؟ کیونکہ پانچ ججوں نے بعد ازاں ’’اجتماعی‘‘ فیصلے پر دستخط کئے تھے ان میں وہ ’’امور‘‘ بھی اجتماعی تصور ہو سکتے ہیں جو پہلے صرف دو جج حضرات نے زیر غور رکھ کر اپنے ریمارکس کے ساتھ فیصلہ تحریک کیا تھا۔ ہماری نظر میں شائد اب حدیبیہ مقدمے کی سماعت کے لئے بالکل نیا بنچ بنانا پڑے گا۔ جو تین ججوں پر نہیں بلکہ سات ججوں پر مشتمل ہو۔ ان سات ججوں میں بھی پاناما فیصلہ دینے والے ’’پانچ جج‘‘ ہوں۔ پھر ان سات نئے ججوں میں سے بھی چھ جج شریف خاندان کے حق میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی طرح کا فیصلہ دیں۔ تب حدیبیہ معاملات کا دروازہ بند ہو گا ورنہ ہرگز نہیں۔ حدیبیہ مقدمے میں جناب شہباز شریف، حمزہ شہباز شریف بھی شامل ہیں۔
اندیشہ ہے کہ مطلوب معیار سیاست و اقتدار میزان جناب شہباز شریف کے حق میں فوراً فیصلہ نہ دے سکے گی۔ فی الحال یہ باب بھی بند ہی سمجھیں۔ بے شک عارضی طور پر ہی۔ لیکن اس کا یہ بھی ہرگز مطلب نہیں کہ مستقبل بعید کی سیاست و اقتدار میں شریف کردار کی بالکل نفی ہو گئی ہے یا ہو جائے گی۔ ہمیں مستقبل بعید میں بھی شریف خاندان کا ’’کوئی‘‘ نیا فرد موجود نظر آتا ہے لیکن وہ جنید، صفدر تو ہرگز نہیں ہو سکیں گے۔ بہت معذرت مریم صاحبہ سے۔ چند دن پہلے صدر پاکستان نے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئر مین اور ارکان کی تعیناتی فرمائی تھی۔پھر اچانک صدر کی طرف سے جامعہ اشرفیہ کے صاحب علم و فضل و تقویٰ نامزد مولانا فضل رحیم ممبر کا معاملہ کالعدم ہو گیا ہے؟ کیا یہ بھی مولانا فضل الرحمان کی ’’شدید طلب‘‘ کا شاخسانہ ہے۔ ویسے مولانا فضل الرحمان نے جس طرح مستقل طور پر فاٹا انضمام معاملے میں پاکستان مفادات سے متضاد مؤقف اب تک جو اپنایا ہوا ہے اس کا شدید رد عمل پختونخوا دیو بندی حنفی ثقہ حلقے بار بار پیش کر رہے ہیں کیا مولانا کو اب مسلم لیگ کی بوٹیاں نوچنا اس لئے بھی بند کر دینا چاہئے کہ اب پختون ثقہ حنفی دیو بندی غیر سیاسی حلقے میں انکو بہت زیادہ مشکوک سمجھتے ہیں بطور خاصا جب وہ ڈیورنڈ لائن کے بارے میں ایسا مؤقف دے چکے ہوں جو پاکستانی مفادات کی بجائے افغانستان اور بھارتی مؤقف کو مضبوط بناتا ہو۔ اب آئیے ختم نبوت سے وابستہ معاملات کی طرف ہم قادیانی و مرزائی و احمدی ملت کے بارے میں مفکر پاکستان علامہ اقبال کے ’’آخری عمر‘‘ میں اپنائے گئے دین مؤقف کہ وہ مسلمان امت سے بالکل الگ نئی امت ہیں اور الگ امت ہو کر بھی سیاسی اقتدار فوائد کی خاطر زبردستی مسلمان امت میں گھسے ہوئے ہیں جو کہ غلط ہے۔ثقہ لیگی فیصلہ سازی کو ہمارا مشورہ ہے کہ اکیلے وزیر قانون کے منصب سے الگ ہونے سے بھی تو موجودہ جمہوریت، پارلیمنٹ، مسلم لیگ کو ’’در پیش شدید خطرات‘‘ کا ازالہ نا ممکن سی بات ہے۔ چلئے وزیر قانون منصب سے الگ ہو جاتے ہیں تو ’’پھر‘‘ آئینی ادارو ںسے کشمکش اور تصادم نے جو پارلیمنٹ، جمہوریت اور مسلم لیگ کو شدید ترین زخمی کر دیا ہے۔ اس کا حل اور علاج کون تلاش کرے گا؟ اس کا ’’حل‘‘ بھی تو خود مسلم لیگی پارلیمانی سوچ، فکر اور اقتدار کو ہی پیش کرنا ہوگا۔ حضور! اس کا صرف ’’ایک‘‘ ہی حل ہے کہ اکیلے وزیر قانون کو الگ کر کے اسکی زندگی کو غیر محفوظ نہ بنائیں بلکہ وزیر قانون و وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وہ سب نمایاں وزارتی کردار جو ماضی میں اپنے قائد کی شخصی محبت میں آئینی و ریاستی اداروں کو بار بار چیلنج کرتے رہے ہیں۔ حکومتی پروٹوکول کے ساتھ نواز شریف و خاندان کے احتساب عدالت میں حاضری میں خود جاتے رہے اور میڈیا پر جارحانہ و جذباتی باتیں کرتے رہے ہیں ان سب خواتین و حضرات سے اب معذرت کر لی جائے بلکہ پوری کابینہ ہی تحلیل کر دی جائے تا کہ کچھ شخصیات نامزد سیاسی ملزم نہ بنائے جا سکیں۔ کابینہ تحلیل کرنے کا وزیراعظم عباسی کو اختیار دیا جائے کہ وہ اپنے لئے بالکل نئے مگر پیشہ وارانہ امور میں کچھ فہم اور سمجھ رکھنے والے افراد کو قومی اسمبلی و سینٹ سے کابینہ منصب دے دیں۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ شریف خاندان کو مقدمات لڑنے کا سبک خرام راستہ میسر آئے گا۔ وہ بہتر آئینی جنگ کا انتخاب کر سکیں گے پہلے وہ آئینی نہیں بلکہ صرف سیاسی جنگ لڑتے رہے ہیں اور اسکی سزا بھی پا چکے ہیں۔ ریاست و عوام کو نئی کابینہ سے یہ فائدہ ہو گا کہ حکومت نام کی ایک نعمت اخلاقی و سیاست قوت کے ساتھ میسر آ جائے گی۔ یوں ریاستی اداروں پر ثابت کیا جائے گا کہ لیگی فیصلہ سازی نے تدبر و فراست کا راستہ اپنا لیا ہے۔ لہٰذا جمہوریت اور پارلیمنٹ کو مدت پوری کرنے کی آزادی میسر ہو اور سینٹ انتخابات کا انعقاد یقینی ہو۔ وزیراعظم عباسی ذاتی طور پر نہایت مضبوط اخلاقی پوزیشن میں ہونگے۔ انکے جملہ فوائد مستقبل میں موجودہ مسلم لیگ پائے گی۔ اگر ہمارے مشورے کو مزید نظر انداز کیا جائے گا تو یاد رکھیں ماضی میں مسلم لیگ سے ایک ہی رات میں ریپلکن پیدا ہوئی تھی۔ منظور وٹو کو اسی مسلم لیگ سے ’’دا‘‘ لگانے کا موقعہ ملا تھا۔ یہی ن لیگ (ن) سے ق لیگ بنی تھی۔ اب تو ’’باغی ن لیگ‘‘ بننے کو نئی کابینہ اور وزیراعظم عباسی کو تفویض شدہ آئینی و سیاسی و اخلاقی اختیارات کے ذریعے نا ممکن بنا دیا۔ زیادہ ’’وقت‘‘ لینا اب خود کشی ہو گا دو ٹوک پوری مسلم لیگ، جمہوریت، پارلیمنٹ کا وجود عملاً مزید نیست و نابود ہو جائے گا۔
٭…٭…٭…٭…٭…٭…٭…٭