ہمارے مطالعے کے مطابق مذہبی رواداری، برداشت، مختلف مذاہب اور ادیان کو ماننے والوں کو سماجی اور معاشرتی طور پر مل جل کر رہنا، انتہاپسندی، جو تشدد، جبر و ظلم مذہب کے نام پر ہو کا خاتمہ سعودی ریاستی پالیسی رہا ہے۔ مسیحیوں، یہودیوں، مدینہ منورہ کے یثربی فکر کے مقامی سیاسی عناصر سے میثاق مدینہ مسلمانوں کےلئے راہنما اصول ہے۔ شاہ عبداللہ آل سعود نے بین الادیان اور بین المذاہب مکالمہ کانفرنسوں کا مسلسل انعقاد کیا تھا۔ امریکہ میں، سپین میں، مکہ مکرمہ میں یہ کانفرنسیں منعقد ہوئی تھیں۔ سعودی مقدمہ یہ تھا کہ اسلام کی عدم تشدد و جبر و اکراہ سے لاتعلقی، انسانیت کی بنیاد پر حسن معاشرت کے قیام کا جو راستہ ہے اسے دنیا پر واضح کیا جائے۔ شاہ سلمان آل سعود نے مشرق بعید ممالک دورے میں یہ انتہائی عمدہ کام انڈونیشیا کے تاریخی دورے میں کیا ہے۔ انگریزی میڈیا میں شاہ سلمان کی بین الادیان اور بین المذاہب ہم آہنگی، رواداری، مل جل کر معاشرتی اقدار کو فروغ دینے، انتہاپسندی سے اجتناب پر مبنی مکالمہ کانفرنس کا جو انعقاد ہوا اس کا حال شائع ہو چکا ہے۔جمعہ کے دن انڈونیشیا کے تمام مذہبی افکار اور تمام ادیان سے تعلق رکھنے والی 20 اہم شخصیات نے شاہ سلمان سے اجتماعی ملاقات کی اور ادیان و مذاہب مکالمہ، رواداری، برداشت، انسانیت نواز مو¿قف پر سعودی مو¿قف سے شاہ کی زبان سے آگاہی حاصل کی۔ سعودی عرب چونکہ حرمین شریفین کا خدمت گزار، حج و عمرہ کا منتظم ہے اس لحاظ سے مسلمانوں میں روحانی قیادت کا نام بھی ہے۔ اس سرزمین سے اگر انسانیت نوازی، برداشت، تحمل، رواداری، مختلف ادیان اور مسالک و مذاہب میں ہم آہنگی کا معاشرتی پروگرام دنیا کے سامنے آتا ہے تو یہ اسلام کی صحیح اور عمدہ ترین ترجمانی اور تشریح کہلاتا ہے۔ جن ادیان اور مذاہب سے وابستہ 20 اہم شخصیات نے شاہ سلمان آل سعود سے اجتماعی ملاقات اور مکالمہ کیا ان میں اسلام، بدھ ازم، ہندو ازم، کنفیوشن ازم، پروٹسٹنٹ ازم مسیحیت، کیتھولک ازم مسیحیت شامل ہیں۔ شاہ سلمان نے اس دینی و مذہبی مکالمہ کانفرنس میں انڈونیشیا کے مذہبی قائدین کے اجتماعی معاشرتی شعور کی تعریف کی جس سے انڈونیشیا کے عوام مستفید ہو رہے ہیں یوں اجتماعی مفاہمتی مذہبی شعور کے حامل قائدین کے مثبت رویئے کی وجہ سے ہر مذہب اور ہر دین سے منسلک شہریوں کو جملہ حقوق میسر ہیں اور وہ اپنے حوالے سے آزادی سے فیضیاب بھی ہیں۔ اس مذہبی رواداری کی بدولت انڈونیشیا کو استحکام اور وحدت فکر و سماج میسر ہے۔ شاہ سلمان نے کہا کہ ہم سب مسلمانوں کو یہی اسلوب معاشرہ و حیات پیش کرنا چاہیے تاکہ معاشرے اور ممالک کو اندرونی معاشرتی و سماجی استحکام کے فوائد میسر آئیں۔ شاہ کی یہ مکالمہ کانفرنس اس محل میں ہوئی جہاں شاہ کا قیام تھا۔ شاہ نے ایسے روادار مذہبی مکالمے اور روادار رویوں کو انتہاپسندی کے خاتمے کا ایک اہم راستہ بھی کہا۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ مسلمانوں کو جناب رسول اکرم نے جو ”غلو“ سے اجتناب کی تلقین فرمائی تھی جناب شاہ عبداللہ آل سعود مرحوم اور جناب شاہ سلمان نے اس اہم راستے کے بیان کو اپنا ریاستی رویہ اور پروگرام بنا کر اتباع رسول عربی کی کتنی عمدہ مثال قائم کی ہے جبکہ شاہ کے اس دورے کو انڈونیشیا کے صدر محترم جوکوویڈو نے اپنے ہاں کی انتہاپسندی اور غلو کے خاتمے کیلئے نہایت عمدگی سے استعمال کیا ہے۔ اس کانفرنس میں اسلام کی نمائندگی 9 شخصیات نے کی جبکہ پروٹسٹنٹ مسیحیت کی نمائندگی 4 شخصیات نے کی۔ 4 شخصیات بدھ مت سے نمائندہ تھیں۔ 4 نمائندے ہندوازم اور چار ہی کیتھولک مسیحیت سے منتخب ہو کر مکالمہ کانفرنس میں شریک ہوئے۔ جکارتہ میں شاہ سلمان کا قیام بدھ، جمعرات اور جمعہ تین دن کا تھا اور یہ مکالمہ کانفرنس آخری دن جکارتہ اسٹیٹ گیسٹ ہاﺅس میں منعقد ہوئی۔ مسیحی چرچ کمیونٹی کے قائد ریورنڈ ہنریٹی لیبانگ نے مو¿قف دیا کہ بین الادیان و المذاہب مکالمہ عوام کے استعمال سے انڈونیشیا میں موجود کچھ مذہبی تلخی کو کم کریگی۔ یاد رہے گورنر جکارتہ کے ایک بیان سے کچھ مسلمان ان سے سخت ناراض ہیں اور پادری مذکور کا بیان اسی حوالے سے شاہ سلمان کی کاوش کے نتیجہ خیز ہونے کے حوالے سے ہے۔ مسیحی راہنما نے صدر انڈونیشیا کی طرف سے شاہ سلمان سے ملاقات اور بات چیت کو مذہبی رویوں میں اصلاح و برداشت کےلئے بروقت عمل قرار دیا جس سے معاشرتی امن حاصل ہو گا۔ شاہ سلمان نے مسیحی قائد کا ہاتھ پکڑ کر جو محبت پیش کی اس سے انڈونیشیا کے مسلمانوں میں نیا اسلامی روادار جذبہ موجزن ہوا ہے جس سے مسیحی مطمئن اور مسلمان خوش ہوئے ہیں۔شاہ سلمان کے اس عمدہ عمل سے انڈونیشیا کی سیاست میں بھی تفہیم اور تعمیر ہو گی جبکہ شاہ سلمان کے وجود سے صدر انڈونیشیا کے اسلام سے گہرے تعلق کی پہچان بھی واضح ہو گئی ہے چونکہ شاہ سلمان نے ملائیشیا میں قیام کے دوران 7 بلین ڈالر کی فراہمی کے معاہدے کئے تھے لہٰذا انڈونیشیائی بھی ایسے ہی معاشی تعاون کے منتظر تھے۔ انڈونیشیا کےلئے شاہ فیصل آل سعود نے اپنے 1969ءدورے میں بہت محبت پیش کی تھی اور تقریباً پچاس سال بعد شاہ سلمان نے فیصل آل سعود رویئے کو دوبارہ انڈونیشیا میں پیش کیا۔ شاہ سلمان نے صدر جوکو کی خواہش پر حج کوٹہ میں بھی اضافہ کر کے مسلمانوں کو خوش کر دیا۔ صدر جوکو پر کنزرویٹو مسلمانوں کی طرف سے شدید دباﺅ رہا ہے کیونکہ وہ وسیع المشرب لبرل پالیسیاں نافذ کئے ہوئے ہیں۔
حیرت تعجب ہے کہ صدر جوکو کے سیاسی کنزرویٹو مسلمان مخالفین انہیں سیاسی شکست دینے کےلئے نسلاً چینی، دینی رویئے میں مسیحی اور معاشی حوالے سے کمیونزم سے متاثر ہونے کا طعنہ دیتے رہے ہیں۔ جکارتہ کے نامور دانشور و کالم نگار اینڈی ۔ ایم۔ بایونی (ENDY-M.BAYUNi) نے ان الزامات کو سراسر جھوٹ اور تہمت قرار دیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ماضی کے صدور۔ بی جے جیبی، عبدالرحمان واحد، میگاوتی سکارنوپتری اور سیسلو بمبانگ یا ڈھنو کو شاہ فیصل کے بعد سعودی شاہوں میں زیادہ تعلقات کی کاشت کرنی چاہیے تھی تاکہ وہ بار بار انڈونیشیائی مسلمانوں کی خواہشات، توقعات اور امیدوں کے چراغ دیکھنے انڈونیشیا میں آتے مگر ایسا نہ ہوا جبکہ صدر جوکو کا شاہ سلمان کو دورے کےلئے قائل کرنا اور عملاً انہیں جکارتہ محل میں موجود پانا بہت بڑی اسلامی جذباتی و سیاسی کامیابی تصور ہو رہی ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38