کچھ معزز قارئین اور بعض دوستوں نے سوال کیا کہ میں بھارت اور امریکہ کے حوالے سے ہی کیوں مسلسل لکھے جا رہا ہوں ملک کے سیاسی اور دیگر معاملات سے تقریباً لاتعلقی کا رویہ کیوں اختیار کر رکھا ہے۔ بات یہ ہے کہ سیاسی اور دیگر معاملات پر تو ننانوے فیصد کالم نگار لکھ اور ایک آدھ چھوڑ کر ننانوے عشاریہ نو فیصد اینکرز بول رہے ہیں۔ میں نے 1969ء سے صحافت کی وادی میں قدم رکھا، آج بھی اس کی پگڈنڈیوں پر آبلہ پائی جاری ہے، میرے سینئرز ہدایت اختر، شورش کاشمیری، ظہور عالم شہید، شورش ملک، عبدالقیوم قریشی، حبیب وہاب الخیری، ضیاء الاسلام انصاری، اقبال زبیری، بشیر ارشد سے مجھے روشنی ملی۔ سب سے پہلے اسلام پھر پاکستان، پاکستانی صحافی کا نصب العین یہی ہے اور اپنی محدود ذہنی استعداد کے ساتھ اس نصب العین پر چلنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ روزنامہ ’’امت‘‘ میں ساڑھے نو سال کی وابستگی اس نصب العین میں پیشرفت کا ذریعہ بنی اور پھر جناب مجید نظامی کی ایڈیٹرشپ میں پختگی کے مزید مدارج طے ہوئے لہٰذا میرے پیارے وطن پر آج بدخواہی اور سازشوں کے جو بادل چھائے ہوئے ہیں ان سے لاتعلق کیسے رہ سکتا ہوں۔ میرے نزدیک نواز شریف، آصف زرداری، عمران خان، مولانا فضل الرحمن، سراج الحق یا دیگر کی سیاست اور ڈاکٹر طاہر القادری کی قسط وار ہنگامہ آرائی کوئی اہمیت نہیں رکھتی، بھارت اور امریکہ جو کچھ پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے کر رہے ہیں وہ اس سے کروڑ گنا زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ قارئین کرام جانتے ہیں اس عاجز نے کبھی اپنی ذات کے حوالے سے بات نہیں کی۔ بعض قارئین اور دوستوں کے مسلسل سوالات نے اس وضاحت کی راہ ہموار کی ہے۔
کئی دن گزر گئے نئی دہلی میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے سربراہ مائیک پومپے نے بھارتی ایجنسی ’را‘ اور دیگر خفیہ اداروں کے ساتھ ملاقات کی اور پھر وہ ’را‘ کے سربراہ کو ساتھ لے کر نئی دہلی سے کابل پہنچ گیا۔ پاکستان کے خلاف ان دونوں کا گٹھ جوڑ کوئی سربستہ راز نہیں ہے، یہ دونوں کابل کیا کرنے گئے ہوں گے اس کا اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے لیکن میں یہ جائزہ لیتا رہا کہ پاکستان کے کتنے کالم نگار اور اینکر پرسن اس کا نوٹس لیں گے لیکن مایوسی ہوئی۔ نصرت جاوید کے سوا ایسے معاملات کسی کیلئے قابل توجہ نہیں۔ شاید یہ میری کوتاہ نظری ہے کہ پیش آمدہ واقعات پر اپنی اپنی سوچ میں لپٹے تبصرے ہی آج کی صحافت کی معراج ہے۔ بلاشبہ پیش آمدہ واقعات سے صرف نظر ممکن نہیں ہے لیکن صحافیانہ فرائض کے حوالے سے ترجیحات بہرحال اپنی اہمیت رکھتی ہیں۔ آج کے منظرنامے پر نظر ڈالی جو اقتدار بچانے اور اقتدار جھپٹ لینے کا کھیل جاری ہے اور حددرجہ افسوسناک یہ کہ گلیوں میں کھیلے جانے والے گلی ڈنڈے جیسے کھیل میں وضع کردہ اصولوں کا بھی خیال نہیں رکھا جا رہا۔ نہ جانے کتنے صحافیوں، کالم نگاروں نے اسے لائق مطالعہ بھی سمجھا یا نہیں، آج قصور کی ننھی پری زینب کے دل ہلا دینے والے واقعہ پر جتنی توجہ دی جا رہی ہے کاش ان گیارہ بچیوں میں سے پہلی بچی ام فاطمہ پر اتنی توجہ دیدی جاتی تو شاید آج زینب کا سانحہ رونما نہ ہوتا، نہ جانے یہ سب سیاسی بازی گر اور بالخصوص قصور کے عوام کیوں خاموشی اور لاتعلقی کی چادر میں لپٹے رہے۔
پاکستان بالخصوص بلوچستان میں دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز (PICSS) کی رپورٹ سے پہلے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی رپورٹ پر ایک نظر ’’بلوچستان حکومت نے محکمہ انسداد دہشت گردی تو قائم کر دیا مگر نیکٹا کا وجود عمل میں نہ آ سکا نہ دہشت گردی کے حوالے سے حکومتی سطح پر کوئی واضح حکمت عملی نظر آئی۔ صوبے میں درجنوں آپریشن سے دہشت گردی میں کمی تو آئی مگر اس عفریت کا مکمل خاتمہ نہ ہو سکا۔ صوبے میں دہشت گردی کی حالیہ لہر سی پیک کو ناکام بنانے کی سازش ہے، دشمن بلوچستان میں امن تباہ کر کے اپنے پاکستان دشمن عزائم کی تکمیل چاہتا ہے کیونکہ بلوچستان میں بدامنی کے اثرات پورے ملک پر پڑتے ہیں۔ پولیس پر مسلسل حملوں کا پس منظر یہی ہے۔
فوجی ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے نجی ٹی وی کو انٹرویو میں کھل کر واضح کر دیا کہ ’’پاکستان کو غیرمستحکم کرنے میں بھارت ملوث ہے اور کلبھوشن کی گرفتاری سے ظاہر ہو گیا بھارت دہشت گرد ہے‘‘۔ ان سطور میں یہ بات ایک سے زائد بار کہی جا چکی ہے۔ عبدالقدوس بزنجو نئے وزیراعلیٰ منتخب ہو گئے جو ن لیگ کے ارکان کی قیادت سے بغاوت کا نتیجہ ہے مگر تعجب خیز نہیں کہ سیاسی جماعتوں سے وابستگی نظریاتی نہیں بلکہ مفادات کے لئے ہے۔ بہرحال عبدالقدوس بزنجو نے صوبے میں امن، روزگار، تعلیم اور صحت کو ترجیحات میں شامل کیا ہے۔ بلوچستان کے عوام 70 سال سے ان چیزوں سے محروم ہیں، مزید کچھ عرصہ برداشت کر لیں گے۔ ان کی اصل ضرورت امن و امان ہے۔ یہ ہو گا تو باقی چیزوں کے راستے ازخود ہموار ہو جائیں گے۔ وزیراعلیٰ صرف اس پر توجہ دیں بصورت دیگر لوگ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے یہ تبدیلی عوام کے لئے نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ ترقیاتی فنڈز سمیٹنے کیلئے لائی گئی ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اس پر نظر رکھے یا نہ رکھے یہ عاجز ضرور نظریں گاڑے گا۔
اور اب PICSS نامی تھنک ٹینک کی رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق سکیورٹی اداروں کی کارکردگی کے باعث 2017ء میں دہشت گردی میں پندرہ فیصد کمی اور ہلاکتوں میں 6 فیصد کمی آئی جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد میں 4 فیصد اضافہ ہوا۔ گزشتہ برس سے زیادہ 23 خودکش حملے ہوئے جبکہ 2015ء میں 18 اور 2016ء میں 17 خودکش حملے ہونے کی وجہ افغانستان میں بھارت اور امریکہ کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کا تیز ہونا ہے۔ سی آئی اے اور ’را‘ کے سربراہوں کا حالیہ مشترکہ دورہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ PICSS رپورٹ کے مطابق بلوچستان حکومت نیشنل ایکشن پلان پر پوری توجہ نہ دے سکی لہٰذا 2017ء تک دہشت گردی کی وارداتوں میں 1367 افراد ہلاک ہوئے جن میں 585 عام شہری، 555 دہشت گرد، 247 سکیورٹی اہلکار شامل، مجموعی طور پر 1966ء افراد زخمی ہوئے، 1580 عام شہری، 331 سکیورٹی اہلکار، 54 دہشت گرد شامل، 420 خودکش حملوں میں 912 افراد ہلاک ہوئے جن میں 584 عام شہری، 225 سکیورٹی اہلکار، 103 دہشت گرد، زخمی ہونے والے 1877 میں سے 1575 عام شہری، 271 سکیورٹی اہلکار، 30 دہشت گرد شامل ہیں۔ علاوہ ازیں سکیورٹی فورسز کی 522 کارروائیوں میں مارے گئے 475 میں سے 452 دہشت گرد، 22 سکیورٹی اہلکار، 88 زخمیوں میں سے 50 سکیورٹی اہلکار، 24 دہشت گرد اور 4 شہری شامل ہیں۔ ان اعداد و شمار کی روشنی میں نئے وزیراعلیٰ دیکھ لیں سب سے زیادہ ہلاکتیں عام شہریوں کی ہوئی ہیں اس لئے روزگار، تعلیم اور صحت سے پہلے انہیں پرامن زندگی چاہئے اس لئے یہی اولین بلکہ واحد ترجیح ہونی چاہئے۔ عبدالقدوس بزنجو اور ارکان اسمبلی واقعی بلوچستان کے عوام سے مخلص ہیں تو سارے ترقیاتی فنڈ ان کی زندگیاں بچانے پر لا دیں ورنہ لوگ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے یہ سارا سیاسی کھیل ترقیاتی فنڈز کھسوٹنے کیلئے رچایا گیا۔