ہم توکہتے تھے کہ پاکستان میں انصاف کانظام ٹھیک نہیں لیکن اب توامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی امریکی نظام انصاف کیخلاف بیان دے دیا ہے اورکہا ہے کہ امریکہ کا قانونی نظام ٹوٹ چکا ہے۔ جب سے امریکی عدالتوںنے امریکی صدرکے حکم نامے کو معطل کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ججوں کے خلاف بات کی اور جب اپیل کورٹ نے بھی حکومت کی اپیل پر وفاقی عدالت کے حکم نامے کو بحال کرنے سے انکار کیا تو امریکی صدر نے نظام انصاف کو ہی رگڑنا شروع کر دیا ہے اور عدالتی فیصلوں کو سبوتاثرکرنے کیلئے نئے حکم نامے کی تیاری شروع کردی ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ تارکین وطن کی گرفتاریاںشروع کردی گئی ہیں۔ نظام انصاف میں بہتری کی گنجائش ہوتی ہے اور ہر دور میںاس پرکام کرنا چاہئے۔ جمہوریت کا یہی حسن ہے کہ اس میں انصاف سب کو ملتا ہے۔ آمرانہ دور میں انصاف ملنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کوئی ڈکٹیٹر انصاف نہیں چاہتا اور نہ ہی کرپشن کرنے والے عدالتوں کا اپنے خلاف کوئی ایکشن پسندکرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی کوئی انصاف نہیں چاہتا۔ بدقسمتی سے کرپشن کا بازارگرم ہے۔ جنرل راحیل شریف اور سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کرپشن کیخلاف بیانات دیتے دیتے اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ نئے آرمی چیف نے ایسا توکوئی بیان نہیں دیا لیکن کراچی میں تاجروں کو بلاکر جو گفتگوکی ہے اور انہیںیقین دہانی کرائی ہے اس سے تاثر ملتا ہے کہ وہ بھی کرپشن کے معاملے پرکوئی سمجھوتہ نہیں کرینگے۔ جہاں تک نئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا تعلق ہے تو انہوں نے ایک مقدمے میں کرپشن کے خلاف بیان دے کر نظام انصاف کی نئی راہ متعین کردی ہے اورکرپشن کیخلاف عدالتی اختیارات کی وضاحت کر دی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے غیرقانونی ایکس چینجزسے متعلق عملدرآمدکیس کی سماعت کے دوران ریماکس دیتے ہوئے کہا ’’کہ ہم کرپشن برداشت نہیں کرسکتے۔ ہمیں اداروں سے کرپشن کوختم کرناہے۔ اس سلسلے میں عدالتی اختیارات لامحدودہیں۔کرپشن کے خاتمے کیلئے عدالتی دائرہ کارکو وسیع کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح ایک اور مقدمے میںچیف جسٹس میاں ثاقب نثارنے کہاکہ ادارے اپنا قبلہ درست کرلیں۔ مزید غیرذمہ داریاں اور کوتاہیاں برداشت نہیں کی جائینگی۔ من حیث القوم ہمیں اس نوعیت کے معاملات کی درستگی کاموقع ملاہے ہم اس میں کوئی سقم نہیں چھوڑینگے‘‘۔ بدقسمتی سے پاکستان میں عدالتوں پر لوگوں کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔ کرپشن کیخلاف کاروائی ہونا مشکل ترین خیال کیا جاتا ہے۔ پانامہ لیکس کے مقدمے میں لوگ ایک ہی بات کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا60سالہ ماضی دیکھیں تو پھر ہم کیسے امیدکرسکتے ہیں کہ انصاف ہوگا۔ میں نے موجودہ چیف جسٹس کے آنے کے بعد اور پانامہ لیکس کیلئے نیا بنچ بننے کے بعد ہرکالم میں یہ لکھاہے کہ اب انصاف ہوگا ہاں البتہ یہ بھی یاد رکھناچاہئے کہ انصاف ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ شریف خاندان کیخلاف فیصلہ آئے تو انصاف ہے۔ انصاف نہ صرف ہوتا ہے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آتا ہے۔ اس لئے ہمیں اس سوچ سے ہٹ کر دیکھنا چاہئے۔ اب حال ہی میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں بنچ نے شریف فیملی کیخلاف فیصلہ دیکر انصاف کا سربلندکر دیا ہے اور اتفاق شوگر ملز، چوہدری شوگر ملز اور حسیب وقاص شوگر ملزکی ٹوبہ ٹیک سنگھ سے رحیم یارخان میں منتقلی کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ کاحکم امتناعی کالعدم قراردے دیا اور مقدمہ دوبارہ لاہور ہائی کورٹ کو بھیج دیا۔ اس فیصلے کے تحت تینوں شوگر ملز میں پیداواری کے عمل کو روک دیا گیا۔ خواجہ سعد رفیق، رانا ثناء اللہ اور طلال چوہدری کے جذباتی اور عدالتوں پر indirect طنزیہ بیانات اور جلسوں میں تقریریں جاری ہیں۔ اپوزیشن پارٹیاں ان بیانات کو سپریم کورٹ کو دھمکیاں قرار دے رہے ہیں۔ خدا کیلئے عدالتوں پر اعتماد کریں۔ عدالتوں کو گالیاں نہ دیں اور نہ ہی کسی طرح بھی دھمکیاں دیں۔ جج بھی انسا ن ہوتے ہیں انکو ڈرانا کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ امریکی صدرکو بھی بالآخر انصاف کو تسلیم کرنا ہو گا اس طرح دھمکیاں دینے والوں کو بھی انصاف کے سامنے سر جھکانا ہو گا۔ مسئلہ توصرف یہ ہے کہ کیا ہم کرپشن کے دروازے بندکرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ حالت تو یہ ہے کہ کرپشن کا ناسور چلتے چلتے کرکٹ میں بھی آگیا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان سپرلیگ تباہی کے گڑھے میں جاتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ نئے اور بہترین کھلاڑیوں نے اپنا مستقبل دائو پر لگا دیا ہے۔ طرح طرح کے الزامات لگ رہے ہیں۔ نجم سیٹھی مردآہن ہیں، انہوں نے کرپشن پرفوری ایکشن لیکرکرکٹ کو بچانے کی بہترین کوشش کی ہے۔ اس طرح کی کوششیں ملک میں کرپشن کوروکنے کیلئے کرنی چاہئے۔ اچھی خبر تو یہ بھی آئی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کے احتساب پر توجہ شروع ہوگئی ہے۔ عمران خان کی پوری جنگ بھی کرپشن کے خلاف ہے۔ کوئی تسلیم کرے نہ کرے لیکن یہ سچ ہے کہ عمران خان پربے ایمانی یاکرپشن کرنے کاکوئی الزام نہیں۔ عمران خان کی مقبولیت میںسب سے بڑا فیکٹر ہی اس کی ایمانداری اورکھراپن ہے وگرنہ پیپلزپارٹی کی ناکامی نے تحریک انصاف کو مضبوط کیا ہے۔ بہرحال عدالتوں کی بات ہو رہی ہے توسن لیں کہ سندھ ہائیکورٹ کے خلاف ہی سندھ حکومت نے بیان دینے شروع کردیئے ہیں کیونکہ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے نے بھی سندھ کے حکمرانوں کے من مانے اور اپنے ساتھیوں کو نوازنے کے دروازے بندکردیئے ہیں۔کمال دیکھیں کہ منتخب ممبران اسمبلی دھکے کھارہے تھے جبکہ سندھ حکمران نے 11 غیرمنتخب من پسند ساتھیوں کو مشیر بنا کر بڑے بڑے محکمے ان کے حوالے کردیئے تھے۔ لوٹ مارمچی ہوئی تھی اور انکوکوئی روکنے والانہیں تھا اب عدالت نے انکے خلاف فیصلہ دیا ہے تو الزامات لگ رہے ہیں۔ اسی طرح حکومتیں مقدمات کے دفاع کیلئے سرکاری وکلاء کے تقررکیساتھ ساتھ اکثرمقدمات میں پرائیویٹ وکلاء کا تقررکرتی تھیں جس پر سپریم کورٹ نے پابندی عائدکر دی ہے بدقسمتی سے ایک طرف درجنوںلاء افسر بھرتی کئے گئے ہیں جبکہ دوسری طرف ہردوسرے مقدمے میںبڑی بڑی فیس دیکر پرائیویٹ وکلاء کو رکھاجاتاہے، تمام معاملات کو زیربحث لانے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں اعلیٰ عدلیہ پر اعتماد کرنا چاہئے۔ اچھی توقعات رکھنی چاہئے۔میں 15سال قبل واشنگٹن گیا تو امریکی محکمہ خارجہ کے افسروں سے ملاقات ہوئی۔ تینوں افسر سائوتھ ایشیاء کے ڈیسک پر متعین تھے اور پاکستان کو ڈیل کرتے تھے۔ میں ARD کا ترجمان اور مرکزی سیکرٹری اطلاعات تھا اور اس حیثیت میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن)کی نمائندگی بھی کرتا تھا۔ امریکی افسروں نے مجھے پوچھاکہ آپ ہمیں پاکستان کے تمام مسائل میں سے صرف ایک ایسا مسئلہ بتا دیں جس پر ہم پوری توجہ دیں اور جس کے نتیجے میں دیگر مسائل بھی بہتر ہو جائیں۔ میں نے لمبا چوڑا سوال سننے کے بعد بغیرکسی تاخیرکے جواب دیاکہ ’’انصاف‘‘۔ عدالتیں نہ صرف آزادہونی چاہئیں بلکہ آزاد نظر بھی آنی چاہئیں۔ انصاف پسندنہ آنا آمرانہ رویہ ہے اس کی بجائے حوصلے کے ساتھ انصاف کو سراہنا چاہئے۔کرپشن کے خلاف جہاد اور نظام انصاف کو مضبوط بناکرہی ہم ملک کوترقی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ امریکہ ہو یا پاکستان انصاف کے آگے سر جھکانا ہو گا پھر ہی قانون اورآئین کی بالادستی ہوگی۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024