قارئین کبھی کبھی مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے بلکہ لمحہ موجود میں تو ہر لمحہ دل میں یہ احساس جاگزین ہے کہ آج کا انسان اپنی تمام تر مادی ترقی کے باوجود بھی روحانی سطح پر ہر لمحہ شکست سے دوچار اور انتشار بکنار ہے۔ سکونِ قلب، اعلیٰ اخلاقی اقدار، روحانی طمانیت سب کچھ خواب و خیال ہو چکا ہے۔ ایک دوسرے کیلئے ملائم احساسات، نیک خیالات اور کھرے جذبات قصہ پارینہ ہو چکے ہیں نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایسی کھردری، بدنیت اور مفاد پرستانہ سوچوں نے روحانی خلاء کو بیکراں اور ذہنی انتشار کو نقطہ عروج پر پہنچا دیا ہے۔
قارئین کرام اِس دُکھ بھری بلکہ کرب و بلا کی گوڑھی کیفیت میں ہماری کچھ سوچیں، کچھ روحانی اقوال و افکار نوکِ قلم تک آجاتے ہیں آج وہی پیش ہیں۔ ممکن ہے ہمارا کوئی ایک قول، کوئی ایک سوچ یا سوچ کا کوئی ایک نقطہ آپ کیلئے باعث سکون و اطمینان بن سکے بلکہ مجھے احساسِ طمانیت ہو گا میرے نزدیک کالم کا مقصود بھی یہی ہونا چاہیے۔ آئیے کچھ باتیں اندر کی کرتے ہیں۔٭ احسان کر کے نہ جتانا احسان سے زیادہ مشکل ہے۔٭ جب گیدڑ کو موت آتی ہے تو وہ شہر کی جانب بھاگ اُٹھتا ہے۔ انسان کے گناہوں کی سزا شروع ہوتی ہے تو وہ اپنے ضمیر کی آواز سے بھاگ اُٹھتا ہے۔٭ صبر کرنے پر زور یقیناً لگتا ہے لیکن صبر کے میٹھے پھل میں کیڑے نہیں پڑتے۔٭ غربت عیب نہیں بے ضمیر ہونا غریبی ہے۔ اگر آپ باضمیر ہیں تو آپ امیر ہیں۔٭ آپ نفرت بو کر محبت کاشت نہیں کر سکتے۔٭ جینا بجائے خود مقصدِ حیات نہیں ہے، کسی بلند مقصد کی خاطر جینا ہی اصل جینا ہے۔
٭ زندگی کو آپ محض انفرادی طور پر اپنا سمجھ کر نہیں گزار سکتے۔ اِس میں بہت سے لوگوں کا حصہ اور حقوق شامل ہوتے ہیں۔ اگر آپ نے اپنے حصے کے حقوق و فرائض کو رد کر دیا تو زندگی آپ کو رد کر دے گی۔
٭ خدا نے پتھر میں کیڑے کو رزق دینے کا وعدہ فرمایا ہے مگر انسان پتھر کا کیڑا نہیں ہے۔٭ برے میں برائی تلاش کرنا ہماری اخلاقی شکست ہے۔ ہمیں اِس کے برعکس سوچنا ہے اور یہی ہماری فتح ہے۔
٭ جس طرح زمین کھودتے وقت کھودنے والے کو گڑھا بن جانے اور گڑھے سے پانی نکل آنے کا حتمی یقین ہوتا ہے اسی طرح کسی بھی میدان میں کی ہوئی آپ کی محنت کا مثبت نتیجہ ضرور نکلتا ہے بشرطیکہ محنت یقینِ کامل کے ساتھ کی جائے۔٭ یاد رکھئے کسی بھی مجرم کو کسی بھی جواز کے تحت بچانا بجائے خود ایک بڑا جرم ہے کیونکہ جب تک اصل مجرم بچتا رہے گا، چھپتا رہے گا خود جرم بھی بچتا اور چھپتا رہے گا، دونوں ظلم و ناانصافی کو جنم دیتے رہیں گے لہٰذا جرم اور مجرم دونوں کو پناہ نہ دیں۔٭ محبت اور ضرورت دو الگ الگ جذبے ہیں۔ محبت آپ کی ضرورت ہو سکتی ہے یا ہوتی ہے لیکن ضرورت محبت نہیں ہوتی۔ اگر ہو گی تو پھر وہ محبت نہیں ہو گی۔٭ یاد رکھئے سچ سوچ میں کبھی نہیں پڑتا فوراً ادا ہو جاتا ہے۔ تاویلیں دلیلیں صرف جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کیلئے ہوتی ہیں۔٭ کسی سے آپ کو اپنا غیرمعمولی خلوص ہی بدگمان کر سکتا ہے یا کرتا ہے سو اسے حدِاعتدال سے باہر نہ نکلنے دیں۔٭ مت بھولئے صرف دوست کا دوست ہی آپ کا دوست ہو سکتا ہے۔ دوست کا دشمن اور دشمن کا دوست دونوں آپ کے دشمن ہیں۔٭ یہ طے ہے کہ ہر نیک آدمی کو بد اور بدنیت لوگوں کی بدی بدنیتی کا حتمی نشانہ بننا پڑتا ہے کیونکہ نیکی اور بدی کی پرکھ کیلئے اللہ تعالیٰ نے ہر رحمن کے ساتھ ایک شیطان رکھا ہوا ہے۔٭ بدی دراصل خوف اور کمزوری کی پیداوار ہے۔ اسے چھپ کر کرنا پڑتا ہے جبکہ نیکی آپ کے کردار کی مضبوط کی دلیل ہے اسے آپ ببانگ دہل کرتے ہیں یا کر سکتے ہیں۔ ٭ بدی یا کمینگی کا بدلہ لینا جہاں ایک طرف خدا کی ناراضگی کا سبب ہے وہاں دوسری طرف خود آپ کے اپنے دنیاوی و آخروی خسارے کا باعث بھی ہے۔ بدی کی نقل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟۔ اس کا کیوں بدلہ لیا جائے؟ قابلِ رشک و تائید و پیروی تو نیکی ہوتی ہے اسے زندگی میں شامل کیوں نہیں کرتے؟ نیکی آپ کو خدا کے قریب کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی قربت سے زیادہ آپ اور کیا چاہتے ہیں؟ نیکی کو ہر لمحہ اپنے اندر موجود ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنے اندر کی کھدائی سے جو کچھ دستیاب ہو گا وہی اصل حیات ہے۔٭ یقین کیجئے گناہ اور بدی کیلئے آخرت میں سزا مقرر نہ بھی ہوتی تب بھی انسان کی بدی بدنیتی اُس کے لئے دنیا میں خسارہ ہی خسارہ ہوتی۔٭ یاد رکھئے اِس دردبھری دنیا میں آپ کو خود ہی خود کو خوش رکھنا پڑے گا جس طرح آپ جب مسکراتے ہیں تو ہنسی آپ کے ذاتی ہونٹوں پر نمودار ہوتی ہے بعینہٰ جب رونے کا وقت آئے گا تو روئیں گے بھی آپ خود ہی ایسا ہرگز ممکن نہیں کہ رونا آپ چاہیں گے اور آنسو آپ کے کسی دوست کی آنکھوں سے ٹپکنے لگیں گے یا مسکرانا آپ چاہیں تو قہقہے کوئی اور برسا دے گا۔ لہٰذا خود کو نیکوکاری اور مثبت اندازِفکر سے پرسکون رکھیں۔٭ زندگی میں کبھی کبھی جارحیت بھی ضرورت بن جاتی ہے کیونکہ حقوق چھیننے کیلئے ہاتھ میں تلوار اٹھانی پڑتی ہے۔ مدمقابل سے ہاتھ نہیں ملایا جاتا نہ ہی اسے گلے لگایا جاتا ہے مگر اگر آپ یہ سب کچھ نہ کریں تو آپ کی نیکی زیادہ اجر پذیر ہو گی۔٭ جس طرح گھٹیا کوالٹی کی چیز ہاتھ سے گر کر ٹوٹ جاتی ہے یا لف جاتی ہے بعینہٰ آپ کے عمدہ کردار اور اعلیٰ کوالٹی کے سامنے گھٹیا انسان یا تو لِف جاتا ہے یا پھر اندر سے ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے کیونکہ ایسا نہ ہوتا تو وہ آپ کو توڑنے پر کیوں اُتر آتا؟٭ نیکی بدی کا تصادم اس لئے بھی نہیں رُک سکتا کیونکہ دونوں نیک و بد حضرات اپنی اپنی فطرت میں مجبور ہوتے ہیں اور خصلت کو ترک نہیں کیا جا سکتا۔٭ لوگو زندگی اتنی مختصر اور ناپائیدار ہے کہ جو نیک عمل کرنا ہے آج ہی کر لو یہ نہ کہو کل کر لوں گا کیونکہ زندگی کل کا نہیں پل کا نام ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024