آئس کرکٹ
کرکٹ شریف لوگوں کا کھیل مانا جاتا تھا اور یہ سچ بھی نظر آتا ہے کیونکہ اپنے سب کام کاج چھوڑ کر کئی کئی دن کے ٹیسٹ میچز میں ہونے والی ”ٹک ٹک“ کو سننے کے لئے نہ صرف انتہائے شوق کی ضرورت ہوتی تھی بلکہ اس واہیات آواز کو برداشت کرنے کے لئے انتہائی شرافت بھی چاہئے تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کھیل میں جدت کے ساتھ ساتھ تیزی بھی آتی گئی۔ ون ڈے کرکٹ کے آنے سے کھلاڑیوں میں تونگری بھی آنے لگی۔ پہلے ون ڈے میچز کو ساٹھ ساٹھ اوورز فی اننگز تک رکھا گیا جس کی وجہ سے ٹک ٹک میں کچھ خاص کمی واقع نہ ہو سکی۔ پھر اسے فی اننگز پچاس اوورز تک محدود کر دیا گیا۔پہلے پندرہ اوورز میں با¶نڈریز پر صرف دو فیلڈرز رکھنے کے قانون نے اسے مزید تیز کر دیا۔ سری لنکن کھلاڑی جے سوریا نے پہلے پندرہ اوورز میں ہر گیند کو با¶نڈری سے باہر پھینکنے کا ٹرینڈ چلایا۔ پاکستان کی طرف سے یہ کام شاہد آفریدی کے ذمے لگا۔ اس کے بعد ہر ملک نے یہ کام شروع کر دیا۔ اس پاور ہٹنگ نے کرکٹ لورز کی تعداد میں بے پناہ اضافہ کیا۔ پہلے پہل با¶نڈریز بھی بہت بڑی ہوتی تھیں۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کئی گرا¶نڈز کی با¶نڈریز ایک سو پانچ سے ایک سو دس گز تک ہوا کرتی تھیں۔ پھر ٹی ٹوئنٹی کا دور آیاپاور ہٹنگ میں بے پناہ اضافہ ہوا اور با¶نڈریز کی لمبائی سکڑ کر اٹھاون گز تک آ پہنچی۔ اس کا واضح مقصد چھکوں اور چوکوں کی تعداد میں اضافہ کرناتھا جو تماشائیوں کو سٹیڈیم تک لانے کے لئے بہت ضروری ہے۔ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی پذیرائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اب کرکٹ کو اور بھی تیز کیا جا رہا ہے کیونکہ اب اسے دس اوورز بھی اننگ تک محدود کر کے ٹی ٹین کرکٹ کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ پہلے پچ مٹی کی بنی ہوئی تھی اور گرا¶نڈ سرسبز گھاس سے سجا ہوا خوبصورت لگتا تھا۔ برصغیر میں ایسی پچز کا رواج خصوصاً بہت عام ہوا۔ اسی کی بدولت اس علاقے میں عظیم سپنرز نے جنم لیا ۔ پھر گھاس والی پچ کا رواج چلا جسے زیادہ تر گوروں نے ہی اپنایا۔ جب برصغیر کی کوئی کرکٹ ٹیم وہاں کھیلنے جاتی ہے تو ان کے فاسٹ با¶لرز کی سنسناتی ہوئی گیندیں ان کی بیٹنگ لائن کو تہس نہس کر دیتی ہیں۔ اس کے بعد سیمنٹ کی بنی پکی پچز کا رواج ہوا جو گھاس والی پچز کی طرح تیز ہوتی ہیں۔ اب ایک اور طرح کی پچز کا بھی رواج ہونے والا ہے۔ وہ ہیں ”آئس پچز“ جی ہاں سوئٹزر لینڈ جو وسطی یورپ کا ٹھنڈا ترین ملک ہے وہاں فروری 2018 ءکے پہلے عشرے میں شعیب اختر اور وریندر سہواگ کی ٹیموں کے درمیان دو ٹی ٹوئنٹی میچز کا انعقاد ہونے جا رہا ہے۔ دونوں ٹیموںمیں آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ سا¶تھ افریقہ اور انگلینڈ کے کھلاڑی شامل ہوں گے۔ یہ کرکٹ میچز برف پر کھیلے جائیں۔ ہمارے ہاں سوئٹزرلینڈ کو زیادہ تر لوگ سوئس بنکوں کی وجہ سے جانتے ہیں کیونکہ ہمارے حکمرانوں ‘ سیاستدانوں‘ وڈیروں اور کئی حکومتی عہدیداروں کے اکا¶نٹس ان ممالک میں ہیں۔ اس کے علاوہ سوس واچزبھی ہمیں سوئٹزر لینڈ سے آشنا کرواتی ہیں۔ برف کی فراوانی کی وجہ سے یہاں سکیٹنگ بھی خوب ہوتی ہے اور آئس ہاکی کے مقابلے بھی خوب جوش و خروش سے منعقد ہوتے ہیں۔ اب عنقریب اس فہرست میں ”آئس کرکٹ“ کا بھی اضافہ ہونے والا ہے۔ یقیناً ان مقابلوں سے برفانی علاقوں میں کرکٹ کھیلنے کا شوق پروان چڑھے گا اور عنقریب قطبین پر براعظم انٹارکٹیکا میں کرکٹ کے مقابلے منعقد کروانے کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔ البتہ انٹارکٹیکا میں میچ دکھانے کے لئے تماشائی بھی ساتھ لے جانے پڑیں گے یا پھر قطبی ریچھوں اور پینگوئنز کی تالیوں کی گونج میں ہی کھیلنا پڑے گا۔ برف پر کامیاب میچز کے انعقاد کے بعد آئی سی سی کو چاہئے کہ ریت اور پانی پر بھی کرکٹ میچز منعقد کروائے تاکہ اس کھیل کو ہر سطح تک مشہور کیا جا سکے۔ اس کے بعد جنگل میں بھی کرکٹ میچز منعقد کروائے جائیں تاکہ کرکٹ کا یہ شوق انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں میں بھی منتقل ہو سکے۔ ٹی ٹین کے آغاز کے بعد کرکٹ کا اصلی حسن تو گہنا جائے گا اور جو لوگ سب کاموں سے فارغ ہو کر کرکٹ کے مقابلے دیکھا کرتے تھے اب چلتے پھرتے ہی اس سے محظوظ ہو سکیں گے۔ بزنس کے لحاظ سے ٹی ٹین ضرور منافع بخش ثابت ہو گی۔