واہ ری سیاست
صاحبو! جمہوری طرز حکومت کو اس لئے پسند کیا جاتا ہے کہ اس نظام میں عام آدمی کے شریک اقتدار ہونے کا تصور موجود ہے۔ دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ اسمبلیوں تک پہنچنے والے رہنما کیونکہ عوام کے اندر سے ہوتے ہیں اس لئے انہیں عوام کے دکھ درد اور مسائل کا مکمل ادراک ہوتا ہے۔ یہ رہنما راہزن کا روپ اس لئے نہیں دھار سکتے کہ انہیں دوبارہ عوام کی حمایت درکار ہوتی ہے۔ توقع یہ کی جاتی ہے کہ یہ رہنما عوام کے حقوق کے تحفظ ان کی بھلائی ملکی سلامتی اور تعمیر و ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کر کے ملک میں جمہوری رویہ کو پروان چڑھاتے ہیں۔ یہ رہنما وسائل کا رخ عام آدمی کی طرف موڑ کر معاشرہ میں خوشحالی لانے کی منصوبہ بندی بھی کرتے ہیں۔ اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ معاشرہ کی اولین ضرورت نظام عدل کی مضبوطی ہوا کرتی ہے۔ اس لئے آئین پر عمل کرنا‘ کرانا اور اداروں کو مضبوط بنانا ان کے فرائض میں شامل ہوتا ہے۔ آج پاکستان میں بھی جمہوریت کا راج ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے پاکستان کو بے بہا نعمتوں سے نوازا ہے۔ ان وسائل تک رسائی ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ عوام جمہوریت کے ثمرات سے اسی وقت مستفید ہو سکتے ہیں جب وسائل کارخ عوام کی طرف ہو۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا جمہوری قیادت ان وسائل کا رخ عوام کی طرف موڑنے میں مخلص دکھائی دی؟ کیا کشکول ٹوٹ پایا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ آج بھی عام آدمی وسائل سے محروم اور مسائل سے دوچار ہو۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وسائل کارخ ایک مخصوص طبقے کی طرف مڑ چکا ہو۔ وہی طبقہ وسائل کے بل بوتے پر اقتدار کی طاقت حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہتا ہو۔ اس عمل سے دو طبقے وجود میں آ چکے ہیں ایک طاقتور طبقہ ان کے پاس اختیارات بھی ہیں اور دولت کے انبار بھی۔ دوسرا طبقہ رعایا ہے جن کے ہاں مسائل ہی مسائل ہیں۔ اب طاقتور طبقے کو کیا پڑی کہ وہ معلوم کرتے پھریں کہ عام آدمی کن حالوں میں ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ سیاست آج بھی عام آدی کے نام پر کی جا رہی ہے۔ خوشحالی کے خواب عام آدمی کو دکھائے جا رہے ہیں اور خوشحالی کا رخ کسی اور طرف ہے۔ عام آدمی تو آلودگی کی وجہ سے‘ فوگ کی وجہ سے‘ ملاوٹ شدہ کھانے پینے کی اشیاءکی وجہ سے ‘ مضر صحت پانی کی وجہ سے‘ جعلی ادویات کی وجہ سے بیماریوں کا شکاررہتا ہے اور حکمران عوام کو درپیش مسائل پر توجہ دینے کی بجائے اپنے اپنے مفادات کے حصول کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں ۔ ان کی تو ہمیشہ جمہوریت خطرے میں رہتی ہے۔
دوران انتخابات یہی سیاسی قیادت عوام کو ان کے حقوق دلانے اور مسائل حل کرنے کا وعدہ کرتی ہے جبکہ عام آدمی آج بھی بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔ جمہوریت کے تسلسل کا دوسرا سال گزرنے کو ہے مگر عام آدمی آج بھی مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہے۔ مہنگائی اس کا مستقل درد سر ہے‘ مہنگا علاج اس کا مقدر بن چکا ہے۔ ڈاکٹروں کی فیس ‘ ٹیسٹوں پر اٹھنے ولے اخراجات اور ادویات کی خرید عام آدمی کے بس کی بات کہاں؟سرکاری ہسپتالوں کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں۔ عام آدمی کے ساتھ جو سلوک سرکاری ہسپتالوں میں ہوتا ہے وہ ہم اکثر اخبارات میں پڑھتے رہتے ہیں۔ مہنگی تعلیم نے عام آدمی کے خواب تک چھین لئے ہیں۔ اگر والدین اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو تعلیم دلا بھی دیں پھر بے روزگاری کا اژدھا ان بچوں کے مستقبل کو تباہ کرنے پر تلا نظر آتا ہے۔ چلو ایک نوجوان نوکری حاصل نہیں کر پایا اسے وسائل فراہم کرنا کیا جمہوری حکومت کی ذمہ داری نہیں۔ جبکہ طاقتور طبقے کے بچے چاہے نااہل ہی کیوں نہ ہوں انہیں ہر طرح کی سہولیات حاصل ہوتی ہیں اور انہیں مستقبل کی کوئی فکر نہیں ہوتی بلکہ انہیں حکمرانی کرنے کیلئے تیار کیا جاتا ہے۔ اب صاحبزادے اور صاحبزادیاں میدان سیاست میں آگے بڑھتی نظر آرہی ہیں۔ عموماً ان کے بچے بیرون ملک رہتے ہیں وہیں انہیں ہر طرح کی سہولیات حاصل ہوتی ہیں۔ اس طبقے کے پاس بیرون ملک کتنا سرمایہ پڑا ہے اس کا کوئی حساب ہے نہ کتاب۔ حکمرانوں سے کوئی پوچھ بھی نہیں سکتا کہ تمہارے پاس یہ دولت آئی کہاں سے۔ تمہارے ذرائع آمدنی کیا تھے؟ کیا یہ اثاثے ذرائع آمدنی سے زیادہ تو نہیں۔ اگر کوئی ادارہ بھی پوچھ لے تو یہ اس کے پیچھے ڈانگ لے کر پڑ جاتے ہیں۔ حضرت عمرؓ سے پوچھا جا سکتا ہے مگر یہ خود کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے بلکہ کہتے ہیں میرے اثاثے میری آمدنی سے زیادہ ہیں تو کسی کو کیا؟ پھر یہ شور مچاتے ہیں کہ یہ بات پوچھ کر ترقی کی راہ کھوٹی کی جا رہی ہے۔ جمہوریت کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو اپنا پورا ٹیکس تک ادا نہیں کرتا جبکہ حکومت چلانے کیلئے مختلف حربوں سے عام ضروریات زندگی پر ٹیکس لگا کر عوام کی چمڑی ادھیڑی جاتی ہے۔ عام آدمی جب فون میں لوڈ ڈلوائے تو ٹیکس کٹ جاتا ہے ‘ بجلی کے بل کی ادائیگی پر ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے۔ عام ضروریات زندگی خریدنے پر بھی ٹیکس وصول کر لیا جاتا ہے۔ پھر یہی رقم ان کے اللوں تللوں پر خرچ ہوتی ہے۔ ان کے پروٹوکول پر خرچ ہونے والی رقم کہاں سے آتی ہے۔ ہماری قیادت کے مفادات کو ذرا سی بھی ٹھیس پہنچ جائے یہ اداروں پر بھی گرجنے اور برسنے سے نہیں چوکتے۔
پانچواں درویش پھربولا موجودہ سیاسی قیادت کو سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی سے نمٹنا درپیش تھا۔ یہ سچ ہے کہ آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کے نتیجہ میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی جس کا کریڈٹ جمہوری حکومت لینے کی کوشش میں رہی مگر نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل نہ کرا کے یہ حکومت دہشت گردی کے خاتمہ میں اپنا کردار ادا کرتی نظرنہیںآتی۔ پشاور زرعی یونیورسٹی پر دہشت گردی کے نتیجہ میں طلبہ سمیت درجن بھر افراد شہید اور 30 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے۔ دشمن ہماری نئی نسل پر حملہ کر کے قوم کو مایوس کرنا چاہتا ہے۔ اس دن یہ بات ثابت ہوئی کہ دہشت گردوں کے روابط افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ تھے۔ ہمارے سیاستدن جانتے ہیں کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی را افغانستان میں بیٹھ کر ہمیں غیر مستحکم کرنے کے اقدامات کر رہی ہے۔ ہمیں سفارتی اور خارجہ محاذ پر ان کا مقابلہ کرنا تھا مگر ایسا ہوا نہیں۔