فاٹا عوام کی قسمت
قبائلی علاقوں سے منتخب اراکینِ قومی اسمبلی و سینیٹ نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے ایک بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جس کی حمایت اور مخالفت کا سلسلہ جاری ہے۔ اس بل میں مطالبہ کیا گیا کہ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کیا جائے، اسے الگ صوبے کا درجہ دیا جائے یا قبائلی علاقوں کے منتخب اراکین پر مشتمل ایک ایگزیکٹیو کونسل تشکیل دی جائے تاکہ اس کے تحت منتخب نمائندے اپنے فیصلے خود کر سکیں۔فاٹا کے ارکانِ قومی اسمبلی و سینیٹ شاید دنیا کے پہلے ایسے منتخب نمائندے ہیں جو پارلیمان کا حصہ تو ہیں لیکن وہ اپنے علاقوں کے ضمن میں کوئی قانون سازی نہیں کر سکتے۔قبائلی علاقوں میں تمام فیصلے یا قوانین کا اطلاق صدارتی احکامات کے تحت کیے جاتے ہیں جبکہ منتخب نمائندوں کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ قبائلی علاقوں کو علاقہ غیر کے نام سے جانا جاتا ہے جس کا مطلب غیر لوگوں کی سر زمین ہے یعنی دوسرے الفاظ میں قبائلی اس ملک کا شہری ہی نہیں سمجھے جاتے۔ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہو رہا ہے کہ قبائلی ارکان کی جانب سے قومی اسمبلی میں کوئی بل جمع کیا گیا ہے جس کا مقصد قبائلی عوام کو ان کی شناخت دینا ہے۔ ساری کوششیں اس مقصد کے لیے کی جا رہی ہیں کہ قبائلی عوام کو ان کی شناخت دی جائے اور ان کے دیرینہ مطالبے کو پورا کیا جائے جو وہ کئی سالوں سے دہرا رہے ہیں۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے ان کو یقین دہانی کرائی گئی کہ پارلیمان میں اس بل کی بھرپور حمایت کی جائے گی۔ قبائلی علاقوں کی بعض سیاسی شخصیات، قبائلی عمائدین اور سابق ارکان پارلیمان کی جانب سے فاٹا کو خیبر پختونخوا کا حصہ بنائے جانے کی مخالفت کی جا رہی ہے۔قبائلی مشران اور نوجوانوں کے جرگہ نے فاٹا کو الگ صوبے کا درجہ دینے کا مطالبہ بھی کیا ۔
قبائلی عوامکا ےہ بھی مطالبہ ہے کہ نچلی سطح تک بااختیار بنانے کیلئے آئندہ انتخابات سے قبل فاٹا میں مقامی حکومتوں کے انتخابات منعقد کروائے جائیں۔ نظام کی یکسانیت کو یقینی بنانے کیلئے خیبرپختونخوا کے مقامی حکومتوں کے قانون کو اس مقصد کیلئے استعمال کیا جائے۔ قبائلی علاقوں میں رائج پرمٹ سسٹم ، جو کہ بدعنوانی کا ایک بڑا ذریعہ ہے اور جس کے ذریعے انتظامیہ غریب لوگوں پر غیر قانونی ٹیکس لاگو کرتی ہے سے فوری طور پر جان چھڑائی جائے۔فاٹا کے قدرتی/معدنیاتی ذخائر/وسائل کی کھوج لگا کر انہیں قبائلی عوام کی فلاح وترقی کیلئے استعمال میں لایا جائے۔ کرپشن کے منبع اور قبائلی عوام کے استحصال کی سب سے بڑی علامت ''فاٹا سیکرٹریٹ کو '' ختم کر کے تمام امور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کو بالکل اسی طرح سونپے جائیں جس طرح یہ 2005سے پہلے تھے۔ وفاقی حکومت سے رابطہ کار اور قبائلی علاقوں کے صوبے میں انضمام کی تیاریوں کا فریضہ سرانجام دینے کیلئے خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت چیف سیکرٹری کی قیادت میں فوری طور پر ٹاسک فورس کا قیام عمل میں لائے۔
وفاقی حکومت کی طرف سے قائم کردہ فاٹا اصلاحات کمیٹی نے فاٹا کوقومی دھارے میں لانے کے لئے سفارشات پر عملدرآمد کا کام تیزی کردےاہے ،سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے دائرہ کار کو فاٹا تک رسائی دینے کے لئے ایف سی آر قانون کے خاتمے کابل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ہے جو آئندہ چند روز مےں منظور ہوجائے گا ، موجودہ حکومت نے جو کام صرف 9 ماہ میں کیا ہے وہ70سال میں کسی کو کرنے کی توفیق نہیں ہوئی،2018کے عام انتخابات میں فاٹا کے عوام اپنے صوبائی نمائندے منتخب کریں گے ۔ فاٹا اصلاحات پر ہر ماہ بریفنگ دینے کا بھی فیصلہ کیا گےاہے۔ سماجی اقتصادی ترقی کے حوالے سے 10سالہ منصوبہ بنایا گیا ہے تاکہ کے پی کے اور فاٹا میں فنڈز کے حوالے سے تفاوت کو دور کیا جاسکے اور اس ضمن میں کمیٹی نے خاصی حد تک کام مکمل کر لیا ہے اور ترجیحی اہداف کا تعین کیا گیا ہے۔ عمومی طور پر فنڈز لیپس کر جاتے ہیں لیکن فاٹا کے لئے ان لیپس ایبل فنڈ قائم کر رہے ہیں جس کے لئے فنڈز مختص کرنے کا عمل بھی جلد ہو جائے گا تا کہ فاٹا سیکرٹیریٹ کی سفارشات کی روشنی میں ترقیاتی کام بھی ساتھ ساتھ شروع اور مکمل کئے جاسکیں۔ یہ تاثر غلط ہے کہ فاٹا اصلاحات پر کام نہیں ہورہا، ایک ہزار ارب روپے کا فاٹا ترقیاتی فنڈ بنایا جارہاہے، فاٹا کو معاشی طور پر مرکزی دھارے میں لانے کےلئے کافی منصوبے پائپ لائن میں ہیں۔ فاٹا کو انتظامی طور پرقومی دھارے میں لانے کےلئے کے پی کے حکومت کے وفاق سے رابطے میں ہیںفاٹا میں ایف سی کے ذریعے لیویز فورس کی بھرتی جاری ہے قانونی،معاشی، انتظامی،سیکورٹی مین سٹریمنگ کے بعد کے پی کے میں فاٹا کو ضم کیا جائیگا۔ ایف سی آر کالا قانون ہے اس سے جان چھڑانا ضروری ہے آئندہ ہفتے تک ایف سی آر کا کالا قانون ختم ہوجائیگا گورنر خیبر پختونخواہ جلد صدر مملکت کو ایف سی آر ختم کرنے کےلئے سمری بھجوائیں گے ۔ فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کی حتمی تاریخ نہیں دی گئی ہے اس حوالے سے قانونی اور انتظامی رکاوٹوں کو دور کرنے کا عمل جاری ہے۔راہداری ٹیکس کے خاتمے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے ،تعمیر نو کا کام شروع ہو چکا ہے،کونسل آف ایڈوائزر کے تقرر کے لئے گورنر کارروائی کریں گے جس کے لئے انھیں خطوط ارسال کر دئےے گئے ہیں پولیٹیکل ایجنٹ کی جگہ ڈی سی اوز کی تعیناتی عمل میں آئے گی اور ایڈشنل چیف سیکرٹری مقرر ہوگا۔ فاٹا میں صحت اور تعلیم کے حوالے سے خالی 1440 اسامیوں کو پر کیا جارہا ہے۔فاٹا اصلاحات پر اتحادیوں کے تحفظات دور کردینگے۔فاٹا اصلاحات میںکوئی رکاوٹ نہیں کوئی آئی تو اسے بھی اب وفاقی حکومت دور کردے گی۔70 سال تک ایف سی آر ختم کرنے کےلئے کسی کو توفیق نہیں ہوئی،فاٹا اصلاحات کے 26 پہلو ہیںجلدی نہیں ہوسکتے ۔ اب جلد فاٹا کا انضمام ہوگااور ضرور ہوگا، آئندہ عام انتخابات تک فاٹا کا انضمام نہ بھی ہوا تو بھی صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر انتخاب ہوگافاٹا میں کتنی صوبائی اسمبلی نشستیں ہونگی وہ الیکشن کمیشن طے کریگا۔فاٹا کے عوام کے اس دےرےنہ مطالبے کو پورا کر کے ان کی کئی سالوں کی احساس محرومی کو دور کر نے مےںمدد ملے گی۔فاٹا کے عوام اصل مےن پاکستانی سرحدوں کے محافظ ہےں جن کی وجہ سے ملک شمال مغربی سرحد پار سے ہونے والی دراندازی سے بھی محفوظ ہے۔