امریکی فیصلہ ....عالمی امن کے لئے خطرناک
امریکی صدر نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اورنیا سفارت خانہ وہاں منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکہ کے اس قدم پر پورا عالم اسلام سرا پا احتجاج ہے یہاں تک کہ چین، فرانس اور بعض دوسرے غیراسلامی ممالک نے بھی امریکی صدر کی مخالفت کی ہے۔ ٹرمپ کا یروشلم فیصلہ عالمی امن کے اعتبار سے تشویشناک امر ہے۔ ڈونالڈٹرمپ کے خیال میں یہ وہ کام ہے جو ابتک ہو جانا چاہیے تھا ۔ اس فیصلے سے امریکہ کے امن کے حوالے سے خطرناک ارادے واضح ہیں عالم اسلام کے خلاف امریکہ اور اسرای¿یل کا گٹھ جوڑ یہودیوں کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف سازش اور دوستی کی آڑ میں نقصان پہنچانے کی کوششیں ہیں ۔ پاکستان نے ٹرمپ کے اس اقدام کو مشرق وسطی کی سلامتی کے لی¿ے خطرناک قرار دیا ہے۔ اہم امر یہ ہے کہ اس فیصلے سے ٹرمپ نے اُمت مسلمہ کے سینے میں خنجر گھونپ دیا ہے تاہم اگر آج مسلم اُمہ متحدہوتی تو ٹرمپ کو یہ ہمت نہ ہوتی کہ پورے عالم اسلام کی عقیدتوں کے مرکز اول کو اسرای¿یلی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کرنے یا بنانے جیسا تکلیف دہ قدم نہ کرتا۔ پوپ آف فرانس کی اس اپیل کو بھی نظرانداز کر دیا کہ مقبوضہ بیت المقدس کی حیثیت کو تبدیل نا کیا جای¿ے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکی فیصلے طے شدہ پالیسی کا حصہ ہوتے ہیں۔ پاکستان کی امن وسلامتی کے لی¿ے دی گئی قربانیوں کو نظرانداز کر کے ، ڈو مور ، کا مطالبہ بھی امریکی پالیسی کا ایک حصہ ہے ۔ بیت المقدس سے متعلق ٹرمپ کی اس حماقت کا خدشہ پہلے سے ہی ظاہر کیا جارہا تھااور بعض حلقوں میں بے چینی پای¿ی جارہی تھی کہ امریکی صدر اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوی¿ے ایسی فاش غلطی کرسکتے ہیں جسکی وجہ سے نہ صرف پورے خطے بلکہ عالمی امن کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ بعض مبصرین کے خیال میں اہم فیصلے ان مواقع کا شاخسانہ ہوتے ہیں جو زیرالتوا منصوبوں کا حصہ ہوتے ہیں یا بنا دی¿ے جاتے ہیں۔ اپنے اس غیرمناسب اور قابل مذمت اقدام سے امریکی صدرنے پورے عالم اسلام کے جذبات بھڑکای¿ے ہیں۔ بیت المقدس جو کہ نبی کا قبلہ اول مسجداقصی کا امین ہے اُسے یہودیوں کو سونپ دینے کا اعلان کرکے پوری مسلم دنیا کو یہ باور کرایا گیا کہ فلسطین اور مسجد اقصیٰ بیت المقدس پر اب مسلمانوں کا کوی¿ی حق نہیں۔ بظاہر یہ ایک بچگانہ حرکت ہے اور اس اقدام کے بہت خوفناک نتای¿ج مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس ضمن میں اگر ہم ماضی دہرای¿یں تو اسرای¿لی وزیراعظم نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ مسجداقصیٰ میں جاکر یعنی وہاں قدم کھتے ہی بیت المقدس و مسجد اقصیٰ کو اسرای¿یل کا حصہ تسلیم کر لیں گے تا ہم فلسطینی تحریک انتفادہِ اقصیٰ کے نتیجے میں موصوف شیرون کے خواب دھرے کے دھرے رہ گی¿ے اور پورے عالم نے دیکھ لیا کہ فلسطینی قوم سیسہ پلای¿ی ہوی¿ی دیوار کی طرح اپنے نبی کے قبلہ اول کو بچانے کیلی¿ے کسی صورت دستبردار نہیں ہوگی۔ فلسطینیوں کی جدوجہد کی تاریخ کا تجزیہ کرتے ہو ی¿ے ٹرمپ ماضی کا تجزیہ کر لیتے تو اپنے اس احمقانہ اقدام کے نتیجے میں ملنے والی ذلت و رسوای¿ی کا خوب اندازہ ہو جاتا ۔ اہم امریہ ہے کہ فلسطین نے مسجد اقصیٰ پر یہودی قبضے کو تسلیم کرنے سے ہمیشہ انکار کیا اور اپنے موقف پر ڈٹے رہے ۔ نتیجاتاً 2006 سے 2011 تک غزہ کا ہر طرف سے محاصرہ کر کے محصور کردیا گیا لیکن تماتر مظالم کے باوجود غزہ کے لوگوں نے اسرای¿یل اور بیت المقدس پر اسرای¿یلی قبضے کو تسلیم نہیں کیا ۔ حالات جس نہج پر جارہے ہیں ان میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کا بیان اہمیت کا حامل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی ریاست کا حصول ناممکنات کا حصہ محسوس ہو رہا ہے ۔ صدر ٹرمپ کے تازہ فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے مسلم ممالک کے داخلی مسای¿یل اور ان کی صفوں میں بڑھتے ہوی¿ے اختلافات کا فای¿یدہ اُٹھایا ہے۔ اس ضمن میں مصر کے ڈکٹیٹر جنرل عبدل فتح سی سی کی جانب سے کیا جانے والا اعلان قابل ذکر ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ہم پوری صدی کا سب سے اہم فیصلہ کرنے جارہے ہیں اوروہ فیصلہ یہ تھا کہ بیت المقدس اور فلسطین کو ہمیشہ کیلی¿ے اسرای¿یل دکلیرڈ کردیا جای¿ے اور اس اہم فیصلے کو ؛صدی کی سب سے بڑی ڈیل؛ قرار دیا گیا تھا۔
خوش آی¿ند امر یہ ہے کہ ٹرمپ کے فیصلے کیخلاف احتجاجی تحریک زوروں پر ہے تاہم ؛ ِلِپ سروس؛ پر اکتفا کافی نہیں عملی اقدامات وقت کا اہم تقاضہ ہیں ۔ ترکی کے صدراردوان نے صدر ٹرمپ کے فیصلے سے پیدا ہونے والی صورتحال پر غور کیلی¿ے اُو آی¿ی سی کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیاہے جس کی پاکستان نے بھی تای¿ید کردی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اُمت مسلمہ اس موقع پر اپنے اتحاد کا عملی ثبوت دے۔ دنیا اسلام کو سفارت کے ذریعے تدبر سے عالمی سطح پر اپنے موقف کی حمای¿یت حاصل کرنا ہو گی اور ایسا کردار ادا کرنا ہوگا کہ صدر ٹرمپ کے انتہاپسندانہ فیصلے کے خلاف پوری دنیا متحد ہو جای¿ے ۔