بھارتی اخبار ’’ نو بھارت ٹائمز ‘‘ کے مطابق چین کی جانب سے بارہ اپریل کو واضح الفاظ میں ایک بار پھر کہا گیا کہ اگر بھارتی حکومت اپنی اشتعال انگیز روش سے باز نہ آئی اور چین کے داخلی معاملات میں مداخلت جاری رکھی تو دہلی سرکار کو سنگین نتائج بھگتنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے ۔ یاد رہے کہ یوں تو دہلی کے حکمران گذشہ ایک عرصے سے چین کے خلاف اشتعال انگیزیوں کا ایک مکروہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور چین کے علاقے ارونا چل پردیش پر اپنا ناجائز تسلط جما رکھا ہے ۔ مگر حالیہ دنوں میں بھارت کی جانب سے چین کے خلاف جاری شر انگیزی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے ۔ واضح رہے کہ چینی حکومت کے تمام تر احتجاج کے باوجود مودی سرکار نے اسی سازش کی تکمیل کے لئے’’ دلائی لامہ ‘‘ کو خصوصی طور پر بلایا اور چین کے حصے ’’ ارونا چل پردیش ‘‘ میں دس روزہ دورے پر بھیجا ۔ اور اس دوران دہلی کا حکمران ٹولہ مسلسل چین کے خلاف زہر افشانی کرتا ہے ۔ خصوصاً ’’ کرن رجیجو ‘‘ ( بھارت کا نمائشی نائب وزیر داخلہ ) اور ارونا چل پردیش کے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ ’’ پیما کھانڈو ‘‘ نے اس دوران انتہائی اشتعال انگیز بیانات دیئے جن پر بجا طور پر چین کی جانب سے احتجاج کیا گیا اور دہلی کو وارننگ دی گئی۔ دوسری جانب ماہرین نے کہا ہے کہ بھارتی حکمرانوں نے پاکستان کے اندر ریشہ دوانیوں کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے ، اس کی ایک طویل تاریخ ہے ۔بہر کیف ان تمام سازشوں کے باوجود ہندوستان عالمی برادری کے سامنے خود کو معصوم اور دودھ سے دھلا قرار دیتا نہیں تھکتا تھا ۔ اور دنیا کے اکثر ملک بھی نہ صرف دہلی کے ان دعووں پر یقین کرتے تھے بلکہ اپنے گناہ چھپانے کی اس بھارتی روش کی تائید اور حمایت بھی جاری رکھے ہوئے تھے ۔ مگر بالآخر سچ کو تو سامنے آنا ہی ہوتا ہے تبھی ’’ را ‘‘ کے حاضر سروس افسر ’’ کل بھوشن جھادو ‘‘ کو تین مارچ 2016 کو بلوچستان میں گرفتار کر لیا گیا ۔موصوف نے دورانِ تفتیش اپنی تمام کارستانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ وہ انڈین نیوی میں کمانڈر کے عہدے پر فائز تھا ۔ یاد رہے کہ نیول کمانڈر کا منصب فوج کے لیفٹیننٹ کرنل کے مساوی ہوتا ہے ۔ انڈین نیوی میں اس کا سروس نمبر ’’ 41558 ‘‘ ہے اور وہ سولہ اپریل 1970 کو پیدا ہوا ۔ اور 1991 میں اس نے بھارتی بحریہ میں کمیشن حاصل کیا ۔ کچھ عرصے بعد نیول انٹیلی جنس میں چلا گیا ۔ اس کی کارکردگی کی بنا پر اس کو’’ را‘‘ میں شامل کر لیا گیا ۔ اور پاکستان میں ’’ کور ایجنٹ ‘‘ کے طور پر کام کرنے کے لئے اسے منتخب کیا گیا ۔ اور اس کا مسلمان نام ’’ حسین مبارک پٹیل ‘‘ رکھا گیا ۔ اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر اس کو نہ صرف اسلام کی بنیادی تعلیمات دی گئیں بلکہ جسمانی طور پر بھی مسلمان ظاہر کرنے کے لئے اس کے ختنے وغیرہ بھی کیے گئے تا کہ کسی بھی مرحلے پر اس کی ہندوانہ اصلیت ظاہر نہ ہو سکے ۔ اسی مسلمان نام پر اس کو پاسپورٹ جاری کیا گیا جس کا نمبر ’’ L9630722 ‘‘ ہے ۔ اور پھر اس کو بلوچستان سے متصل ایرانی ساحلی شہر ’’ چاہ بہار ‘‘ میں را نے جیولری کی دکان کھول کر دی لیکن اس کا اصل کام بلوچستان آ کر اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ کراچی ، بلوچستان میں علیحدگی پسند اور فرقہ وارانہ دہشتگردی کی وارداتیں انجام دینا تھا ۔ اور عرصے سے وہ یہ سب کچھ کرتا آ رہا تھا ۔ وہ بلوچستان میں علیحدگی کی مسلح تحریک کی ہر طرح سے سر پرستی کر رہا تھا اور ’’ مالی ‘‘ اور ’’ لاجسٹک ‘‘ امداد دہشتگرد تنظیموں کو فراہم کرتا تھا ۔ وہ اسی حوالے سے کراچی میں داعش کے قیام کی کوشش بھی کر رہا تھا اور سانحہ صفورا میں بھی پوری طرح ملوث تھا جس میں تقریباً پچاس نہتے شہری شہید ہو گئے تھے ۔ یوں اسے محض جاسوس قرار دینا صحیح نہیں کیونکہ وہ در حقیقت اپنی سر پرستی میں دہشتگردی کا پورا نیٹ ورک چلا رہا تھا ۔ جرمنی ، امریکہ ، روس ، چین ، فرانس اور برطانیہ سمیت سبھی عالمی قوتوں کو اس بابت پاکستان نے ٹھوس ثبوت بھی فراہم کیے ہیں ۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے غیر جانبدار حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ یہ ایک کھلا راز ہے کہ بھارتی خفیہ ادارے خصوصاً ’’ را ‘‘ اور ’’ آئی بی ‘‘ ( انٹیلی جن بیورو ) پاکستان کے خلاف براہ راست دہشتگردی میں ہمیشہ سے ملوث رہے ہیں ۔ یاد رہے کہ اس کا اصل نام ’’ کل بھوشن جھادو ‘‘ ہے اور وہ ’’ مراٹھی ہندو ‘‘ہے حالانکہ پاکستانی میڈیا میں غلط طور پر اسے ’’ یادو ‘‘ لکھا جا رہا ہے ۔’’ مراٹھی ہندوئوں ‘‘ کا بہار وغیرہ کی ’’ یادو ‘‘ کے ساتھ دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ۔ بہر حال دس اپریل کو موصوف کو عدالت نے سزائے موت سنائی جس کی توثیق بھی پاک سپہ سالار نے کر دی ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ ایسے دہشتگرد عناصر تمام قانونی تقاضوں کی تکمیل کے بعد اپنے انجام کو پہنچیں گے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38