گلئیشئیر زپگھلتے رہے تو؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلیشئیرز کا پگھلنا اچھی علامت نہیں ہے، اب وہ وقت آگیا ہے کہ درست سمت میں قدم اٹھا کر ایسے اقدامات بروئے کار لائے جائیں جو گلیشئیرز کے پگھلاؤ کو کسی حد تک روک سکیں، کراچی سمیت ملک کے شہری علاقوں میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے مضر اثرات اب گلگت، بلتستان اور ہنزہ کی وادیوں تک جا پہنچے ہیں ہنزہ وادی میں موجود پاسو اور بتورا گلیشئیرز سمیت کئی گلیشئیرز جن کی امیدیں نہیں کی جا رہی تھیں کہ یہ پگھلیں گے، پگھلاؤ کا شکار ہیں گزشتہ دس سالوں میں یہ پگھلاؤ 60 میٹر تک ریکارڈ کیا گیا ہے یہ عمل اسی وقت رونما ہوتا ہے جب زمینی درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہو‘ گزشتہ چار سالوں سے ملک کے درجہ حرارت میں جو اضافہ ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے، ہندوکش، قراقرم اور ہمالیہ ریجن گلیشئیرز کا شہنشاہ ہے جہاں 7259 گلیشئیرز پائے جاتے ہیں، گلیشئیرز پگھلنے کے سبب جھیلوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ،پگھلے گلیشئیرز کا پانی محفوظ کرنے کیلئے جگہیں بڑھانا وقت کی ضرورت بنتا جا رہا ہے، 2001 کی گلیشئیرز انوینٹری رپورٹ کے مطابق مذکورہ ریجنز میں جھیلوں کی تعداد 2420 تھی جو 2013 میں بڑھکر 3044 ہو گئی تھی اور اگر اب یہ رپورٹ مرتب کی جائے تو یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہوگی ان جھیلوں میں سے 36 جھیلوں کو انتہائی خطرناک قرار دیا گیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ جھیلیں کسی بھی وقت چیر پھاڑ مچا کر مقامی آبادیوں، ندی نالوں سمیت دریاؤں میں تباہی پھیلا سکتی ہیں جس پر قابو پانا مشکل ترین امر ہوگا، ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ کے سب سے زیادہ مضر اثرات پاکستان میں دکھائی دینے لگے ہیں جس کا اندازہ گلیشئیرز کے پگھلاؤ سے لگایا جا سکتا ہے، ہمالیہ کے گلیشئیرز کے پگھلنے کی سطح ہرسال 25 سینٹی میٹر ہے جو ملک بھر کیلئے شدید خطرہ ہے سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ گلیشئیرز اسی طرح پگھلتے رہے تو 2025 تک گلیشئیرز کی شکل میں موجود آبی ذخائر نہیں رہیں گے جس سے آبی قلت خانہ جنگی جیسی صورتحال پیدا کر سکتی ہے، گلوبل وارمنگ میںگرین گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ 0.34 فیصد ہے جس کی وجہ سے ہمارا ملک موسمیاتی تبدیلیوں سے انتہائی متاثرہ ملکوں میں آٹھویں نمبر پر ہے،پاکستان میں ڈیموں کی شدید قلت ہے جو اسوقت انتہائی اہمیت اختیار کر گئی ہے اور اگر آج ڈیموں کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا گیا تو کل خدانحواستہ ملک کو آبی کمی سے بچانا ناممکن ہو جائیگا، ملک میں جو ڈیمز موجود ہیں ان میں بھی مٹی بھری ہوئی ہے جسے صاف کرنے کی ضرورت ہے، کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس ہماری دشمن بنی ہوئی ہے ہم جو تیل کسی بھی شکل میں استعمال کر رہے ہیں وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کو کرہ ارض پر بڑھا کر درجہ حرارت بڑھانے کا سبب بنے ہوئے ہیں، اسکا سدباب گرین ہاؤس گیسز پر قابو پانے سے ہی ممکن ہے جسکا ذریعہ کم سے کم خطرناک گیسز کی اشیاء کا استعمال یا گرینری میں بے تحاشہ اضافہ ہے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جنگلات کا رقبہ دن بہ دن سکڑتا جا رہا ہے اب ضروری ہوگیا ہے کہ ملک کے چپے چپے کو ہرابھرا کر دیا جائے تاکہ مضر گیسوں کو شکست دی جا سکے، گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو نہ روکا گیا تو زمینی درجہ حرارت اسقدر بڑھ جائیگا کہ جس سے آئندہ عشروں میں دنیا کے کئی ممالک میں لوگ شدید گرمی اور آبی کمی سے مرنے لگیں جو انسانی زندگی کو معدومیت کی طرف بھی لے جا سکتے ہیں، بڑے پیمانے پر گلیشئیرز پگھلنے سے سمندر کی سطح میں اسقدر اضافہ ہو جائیگا کہ کئی ساحلی پٹیوں پر موجود شہروں کے موئن جو داڑو بننے کا خدشہ ہے اسکے علاوہ آبی حیات کو جو خطرات ہیں وہ ایک علیحدہ موضوع ہے، کراچی میں بھی گلیشئیرز کا پگھلاؤ سنگین نوعیت کے خطرات لیکر آ سکتا ہے جس سے نمٹنے کیلئے کراچی کے ساحلوں کو گرین ہاؤس گیسز کے مضر اثرات سے بچانا معنوی حیثیت اختیار کر گیا ہے، ہم جدت اختیار کرتے کرتے اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ واپسی کا راستہ اختیار کرنا مشکل ہو گیا ہے جب ہم جانتے تھے کہ پہاڑ زمین کے کھونٹے ہیں تو کیوں ہم نے پہاڑوں کو تہس نہس کرنا شروع کر دیا، ہریالی کو زندگی کا جز وقرار دیا گیا ہے پھر کیوں ہم نے درختوں کو اجاڑ کر لکڑیوں کے حصول کو اہمیت دینا شروع کر دی جدت اختیار کرنے کیلئے لکڑیاں فرنیچر کی شکل اختیار کرتی گئیں اور ہمارے درخت ہماری فرمائشوں کے آگے گرتے اور ختم ہوتے رہے، سائیکلوں کادور ہم بھول گئے آج چند قدم کا سفر کم ازکم موٹر سائیکل سے کیا جاتا ہے جس کا اثر یہ ہے کہ شہروں، دیہاتوں میں مضر گیسوں کا سایہ ہے جو کسی طور بھی جناتی سایوں سے کم نہیں ہے، کسی نہ کسی شکل میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی مضر صحت گیسوں کا اخراج ہو رہا ہے اور ہم غافل ہیں کہ اپنے ہاتھوں سے تباہی پھیلانے کے ہم خود ذمہ دار ہیں، ہم کنکریٹ کلچر کے اسقدر خواہاں ہو چکے ہیں کہ گھروں میں درخت کی جگہ رکھنا بھول گئے ہیں کیا 1980 ء کی دہائی تک ہر گھر میں درخت نہیں ہوا کرتے تھے پھر کیا ہوا کہ ہم نے درختوں کو اجاڑ کر سیمینٹیڈ جگہیں بنالی ہیں جو ہمیں صحیح طرح سانس بھی نہیں لینے دے رہی ہیں اللہ پاک نے اس پوری کائنات کو ایک خاص نظام اور ترتیب سے تخلیق کیا ہے اور اس میں بگاڑ پیدا ہوگا تو خمیازہ ہمیں ہی بھگتنا پڑے گا گلیشئیرز پانی کی قلت کو دور کرنے کاقدرتی ذریعہ ہیں اور پاکستان ان سے مالا مال ہے ، ان کی حفاظت ہماری بھی ذمہ داری ہے، ہم نے اپنے ہاتھوں ان کو پگھلاؤ کی طرف گامزن کر دیا ہے، صنعتوں سے اٹھتا دھواں، ایندھن کا کسی بھی شکل میں جلنا، گاڑیوں کا بے تحاشہ استعمال پیٹرول ڈیزل کا کئی طریقوں سے استعمال اور مختلف گیسولین کا استعمال ہمیں تباہی کی طرف لے جارہا ہے ،یہ درست ہے کہ پیٹرولیم کے ذرائع کااستعمال ہماری لازمی ضرورت ہے لیکن ان ذرائع کے مقابل ہریالی کو فروغ دینا تو ہماری ذمہ داری ہے جس میں حکومت ہماری بڑی معاونت کر سکتی ہے لیکن انفرادی طورپرہر گھر یامحلے میں درختوں کے لئے جگہیں بنانا ہمارا کام ہے ۔