قطر کی اقتدار تاریخ ملاحظہ کریں: پہلا حکمران الشیخ علی بن عبداللہ آل ثانی 1960ءسے 1972ءتک ہے۔ جس میں ان کا بیٹا اور شامل اقتدار تھا.... انہوں نے از خود اقتدار اپنے بیٹے الشیخ احمد بن علی آل ثانی کو منتقل کیا۔ الشیخ احمد بن علی نے باپ کے ساتھ گیس اور معدنیات کی دریافت اور استعمال کو فروغ دیا اور سخت پالیسی شاہی خاندان کیلئے اپنائی باپ کے ساتھ وہ بھی کامیاب جا رہے تھے مگر 27فروری 1972ءکو الشیخ خلیفہ بن حمد آل ثانی نے اپنے ”چچا زاد“ الشیخ احمد علی کو معزول کر کے اقتدار پر خود مکمل قبضہ کیا اور امیر قطر بن گئے۔ الشیخ خلیفہ بن حمد سوئٹزرلینڈ کے دورے پر جنیوا میں تھے کہ ان کے بیٹے حمد بن خلیفہ آل ثانی نے 27 جون 1995ءکو بغاوت کرکے باپ کے اقتدار پر قبضہ کر لیا معزول (باپ) الشیخ خلیفہ فرانس میں مقیم ہو گئے اور وفات سے چند ماہ پہلے واپس قطر آئے نئے حکمران (بیٹے) الشیخ حمد نے اپنے چھوٹے بھائی عبداللہ بن خلیفہ کو وزیراعظم اور وزیر خزانہ مقرر کیا جبکہ الشیخ حمد بن جاسم بن جبر آل ثانی کو وزیر خارجہ اور نائب وزیراعظم بنایا یہی قطری شہزادہ الشیخ محمد بن جاسم محمد نواز شریف معزول وزیراعظم اور مقید جیل کو 1999ءمیں کراچی آکر ملے تھے انہی کا ”خط“ سپریم کورٹ میں شیخ محمد اکرم ایڈووکیٹ نے لہرا کر پیش کیا تھا وہ خط کی تصدیق کر چکے ہیں مگر JTI کے تینوں آپشنز کو قبول کرنے کی بجائے ”مسترد“ کر چکے ہیں نواز شریف چوتھی بار وزیراعظم بنیں مگر تلوار بن کر قطری خط ”لٹک“ رہا ہے۔ الشیخ حمد بن خلیفہ قطر کی خوشحالی کا باعث بنے، عورت کو آزادی دی، کاروبار اور ڈرائیونگ عورت کا حق بنا دیا گیا یورپی طرز زندگی کو اولیت دی گئی مگر قطری عوام اور فیصلہ ساز عملاً سکیولرولبرل نہیں۔ اہل دین و اہل شریعت سے محبت کرتے ہیں اس لئے اخوان المسلمون سے الشیخ حمد کی محبت لازوال رہی ہے مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ سعودی عرب اور قطر میں شدید اختلاف ماضی میں بھی رہا ہے 2002ءسے ولی عہد پرنس عبداللہ بن عبدالعزیز نے قطر (دوحا) سے تعلقات ختم کرکے سعودی سفیر کو واپس بلا لیا۔ اس سے پہلے 2000 میں قطر میں ہونے والی او آئی سی سربراہی کانفرنس کا ولی عہد پرنس عبداللہ بن عبدالعزیز نے بائیکاٹ کیا۔ سبب قطر کے اسرائیل سے تجارتی روابط بتایا گیا تھا مگر 2002ءجب سعودی سفیر واپس بلایا گیا تو پرنس عبداللہ نے اس کا سبب الجزیرہ ٹی وی کا سعودی شاہی خاندان کے بارے میں منفی باتیں کرنا بتایا تھا 1992ءمیں سعودی قطری سرحد جھڑپ ہوئی جس میں تین فوجی مارے گئے قطر نے الزام لگایا کہ سعودیہ نے ”خافوس“ چوکی پر حملہ کیا جبکہ سعودیہ نے جواب دیا کہ یہ جھڑپ سعودی سر زمین پر دونوں اطراف کے بدو¶ں کے مابین ہوئی تھی بحرین کا سرحدی تنازعہ عالمی عدالت انصاف نے 1991ءمیں ختم کرایا جبکہ 1986ءمیں بحرین و قطر میں تلخی سعودیہ نے ختم کرائی تھی الشیخ محمد نے بعدازاں نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ الشیخ حمد بن جاسم کو وزیراعظم بنا دیا گیا تھا قطر کے سابق حکمرانوں اور لیبیا کے کرنل قذافی کے مابین سعودیہ مخالف جو گفتگو ہوئی اس کی ٹیلی فونک ریکارڈنگ منظر عام پر آ گئی ہے۔ جبکہ یہ دونوں ریکارڈنگ 2003ءکی ہیں ان صوتی ریکارنگ میں سابق امیر قطر) حمد بن خلیفہ۔ موجودہ امیر قطر کے والد محترم) اور نائب وزیراعظم سعودی عرب کی تقسیم کیلئے بدامنی کو ہوا دینے کی منصوبہ بندی کرتے سنائی دیتے ہیں صدر محمد مرسی کی صدارت کے حوالے سے امیر قطر بن خلیفہ نے ان کی بھرپور مالی حمایت کی تھی امیرقطر کے ہمراہ ان کے وزیراعظم اور وزیر خارجہ حمد بن جاسم بھی مصری اور اخوانی صدر کے حامی اور مدد گار تھے جس سے امریکہ، سعودیہ، امارات امیر قطر الشیخ حمد بن خلیفہ سے ناراض ہوئے تو انہوں نے اقتدار اپنے بیٹے الشیخ تمیم بن حمد آل ثانی جو کہ پہلے ہی ولی عہد تھے کو امیر قطر بنا دیا اور خود ریٹائر ہوگئے تھے ساتھ ہی الشیخ حمد بن جاسم بن جبر کی جگہ عبداللہ بن ناصر بن خلیفہ کو وزیراعظم اور وزیر داخلہ بنا دیا گیا تاحال الشیخ تمیم بن حمد اور ان کے وزیراعظم عبداللہ بن ناصر فیصلہ ساز ہیں قطر کا حدود اربعہ یوں ہے کہ خشکی کا واحد متصل پڑوسی سعودیہ ہے 80 فیصد اشیاءسعودیہ سے آتی ہیں تین طرف سمندر ہے ایک طرف بحرین دوسری طرف امارات اور تیسری طرف سمندر سے ایرانی، قطری سمندر جو ایرانی سمندر سے متصل ہے میں عظیم ترین گیس ذخائر ہیں اور قطر و ایران نے آپس میں لڑنے کی بجائے ان ذخائر سے دوستانہ معاہدے کے ذریعے کاروباری شراکت و اتحاد قائم کر رہا ہے دلچسپ امر یہ ہے کہ شاہ عبداللہ آل سعود نے مصری جمہوری صدر محمد مرسی کو خوش آمدید کہا تھا، ریاض عزت سے بلوایا تھا، بھرپور ان کی مدد کی مگر وہ سادہ لوح اور نادان دوستوں کے سبب اپنے ہی ”اتحادیوں“ کو ناراض کر بیٹھے اور ان کے اتحادی ساتھ چھوڑ کر مخالفین سے جاملے ان میں مصرکی النور سلفی پارٹی بھی شامل تھی جس کے پاس پارلیمنٹ میں 26 فیصد نمائندگی تھی۔ جنرل السیس بھی اخوانی ہی ہیں اخوانی صدر کی ناکامی نے اخوانی آرمی چیف چنرل السیس کو انقلاب لانے پر مجبور کیا تو اقتدار دوبارہ مصری فوج کے پاس چلا گیا۔ اس داخلی تبدیلی کو سعودیہ نے فوراً قبول کیا اور جنرل السیس کی بھی بھرپور مالی و سیاسی مدد کی ہے جبکہ قطر کے اخوانیوں کے ساتھ تعلقات بدستور موجود رہے ہیں وہ تبدیل شدہ تلخ زمینی حقائق کو سمجھنے میں ناکام رہے اور بالاخر سعودیہ و امارات و بحرین کی شدید مخالفت انہیں ”تنہا و ”یرغمال“ قطر بنا چکی ہے۔ قطر کا ”مختصر ترین جغرافیہ اس کے بلند و بالا عزائم کی تکمیل میں شدید رکا¶ٹ ہیں کہ محض ”دولت“ ہی سب کچھ نہیں ہوتی۔ قطر کی جغرافیائی حیثیت ہمارے ضلع کی ایک تحصیل کے برابر ہو گی اصل قطری آبادی تقریباً5لاکھ ہے صرف گیس و معدنیات کی دولت نے قطر کو مسلسل سعودیہ مخالف اور علاقے میں خود کو امریکی وایرانی خفیہ ایجنڈے کا معاون بنائے رکھا ہے قارئین کو یاد ہوگا کہ ہم گزشتہ دو عشروں سے دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ و یورپی خفیہ ادارے ”دشمن“ بتائے جاتے ایران سے مفاہمت کرکے سعودیہ کو نئی چھوٹی عرب ریاستوں جن میں کچھ شیعہ ریاستیں ہو سکتی ہیں پر متفق ہیں ہمارا یہ مطالبہ و وجدان ہے حالات کے ذریعے سچا ثابت ہو گیا ہے جبکہ دوحہ سے قطر کی ”اصلیت“ بھی ظاہر کر دی ہے گویا ماضی بعید میں قطر کرنل قذافی کے تقسیم سعودی عرب ایجنڈے کا خلیجی پارٹنر تھا ایران کو تو مغربی و امریکی منصوبہ تقسیم سعودیہ و تشکیل جدید مشرق و سطیٰ سے ”شکار“ کی بھی تقسیم میں حصے داری کا وافر عطیہ ملنا تھا ۔سعودیہ ہرگز شیعہ مسلک کا مخالف نہیں سعودیہ نے ہمیشہ یمن میں زیدی اقلیتی شیعہ ملک کی بادشادہت کو تسلیم کیا تھا یمنی زیدی علمائے تفسیر کی کتب آج بھی سعودیہ جامعات کے نصاب میںشامل ہیں جن میں تفسیر فتح القدیر بھی ایک ہے ہمیں الشیخ تمیم بن حمد کا مکمل احترام ہے وہ 35 سالہ حکمران اور بہت عمدہ ادارے سینڈہرسٹ کے گریجویٹ ہیں۔ ان کی سرمایہ کاری پاکستان میں بہت کم جبکہ بھارت میں بہت زیادہ ہے انہوں نے سعودی و امارات و بحرین کے مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے ایران سے ان کے خفیہ معاہدے موجود ہیں جبکہ ترکی کے قطر سے 2007ءکا ڈیفنس انڈسٹری اور 2012ءکا ترک قطر دفاعی معاہدہ ترک پارلیمنٹ سے 2015ءمیں منظور ہوا، صدر اردوان نے ان معاہدوں کی توثیق کرکے فوری طور پر قطر کی جغرافیائی حفاظت کیلئے مطلوب مدد فراہم کرنے کا راستہ اپنایا ہے مشورہ ہے کہ پاکستان کو دو ٹوک سعودیہ و بحرین و امارات و مصر کے م¶قف کو تسلیم کرنا چاہئے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38