گزشتہ ماہ 26 جون کو بھارتی وزیراعظم نریندرہ مودی کے واشنگٹن پہنچنے پر وہاں اس کی امریکی صدر ٹرمپ سے پہلی ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک بھارتی صحافی کا کہنا تھا کہ جیسے دو ملکوں کے سربراہان نہیں بلکہ دو اداکار دوستوں کی ملاقات تھی جو گہری دوستی کے باوجود طویل عرص سے نہ مل پائے ہوں ورنہ اتنے اہم عہدوں کے حامل حضرات بار بار جپھیاں ڈال کر نہیں ملتے۔ وہ بھی بے شمار کیمروں کی موجودگی میں۔ اس طرح کی ملاقات کو دیکھ کر صاف کہا جا سکتا ہے کہ یہ دو مفاد پرستوں کا باہمی ملاپ تھا جو دنیا کو دکھانے اور انہیں اپنی لازوال دوستی کا تاثر دینے کی کوشش میں تھے۔ ورنہ دونوں حکمرانوں کی اپنے ہم وطنوں میں جو عزت ہے وہ ڈھکی چھپی نہیں۔ وہائٹ ہا¶س میں ہونے والی یہ پہلی غیر رسمی ملاقات باہمی مسائل پر بات چیت کی بجائے ایک دوسرے کو دوستی کا تاثر دینے تک محدود رہی جبکہ دفاعی تعاون اور امریکہ کی بھارت کو فروخت کے حوالے سے دونوں ملکوں کے حکام مودی کے امریکہ پہنچنے سے قبل تمام معاملات طے کر چکے تھے جن پر صرف دستخط ہونا باقی تھے۔ ممکن ہے دونوں حکمرانوں کے بیچ کوئی ایسی ملاقات ہوئی ہو جسے میڈیا سے مخفی رکھا گیا ہو تاہم دوسرے روز وائٹ ہا¶س کے روز گارڈن میں منعقد کی گئی تقریب میں ٹرمپ اور مودی کی مشترکہ اعلامیہ تقریر میں ٹرمپ نے بھارت کو امریکہ کا سب سے بڑا دفاعی حلیف قرار دیا اور کہا کہ دونوں ملک ”اسلامی دہشت گردی“ کے خلاف مل کر لڑیں گے۔ مودی نے افغانستان میں امریکہ کے لئے بھارتی تعاون کی کہانی سنائی اور کہا کہ بھارت کا یہ تعاون آئندہ بھی جاری رہے گا۔ مودی نے ٹرمپ کے نعرے ”میک امریکہ گریٹ اگین“ کو بھارت کی معاشی ترقی کے لئے اپنے نعرے ”میک ان انڈیا“ کے ساتھ ملا کر ٹرمپ کو یہ کہہ کر مسکہ لگایا کہ بھارت و امریکہ دونوں ایک ہی طرح کی سوچ رکھتے ہیں اور اس مشترکہ ویژن کے لئے دونوں ملکوں کا باہمی تعاون بے مثال ہو گا۔ ٹرمپ نے 1.3 بلین ڈالر کے اسلحہ کی خریداری پر (جن میں ڈرون طیارے بھی شامل ہیں) مودی کا شکریہ ادا کیا۔ اس دورے میں بھارت کے لئے امریکہ کا اہم سیاسی اعلان مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جنگ لڑنے والے متحدہ جہاد کونسل کے چیئرمین سید صلاح الدین کو دشت گرد قرار دیا جانا تھا جسے بھارت میں بی جے پی کے ہندو انتہا پسندوں نے مودی کے کامیاب امریکی دورے کا سب سے بڑا کارنامہ قرار دیا۔
پاکستان نے امریکہ و بھارتی سربراہان کے مشترکہ اعلامیہ کو مسترد کرتے ہوئے امریکہ کی طرف سے بھارت کے لئے جدید ترین ہتھیاروں کی فروخت پر تشویش کا اظہار کیا تو امریکی اسٹیبلشمنٹ کو بھی احساس ہوا کہ مودی کی آمد پر صدقے واری ہوتے ہوئے امریکی صدر نے سفارتی آداب و طریقہ کار کا خیال کئے بغیر جس انداز سے نریندرہ مودی کی آ¶ بھگت کی ہے اور بھارت کو دنیا میں ابھرتی ہوئی ایک نئی عسکری و معاشی قوت کا درجہ دے کر امریکہ کے اس سے تعلق کو امریکہ کے لئے اہم قرار دیا۔ اس سے جنوبی ایشیاء خصوصاً افغانستان کے حوالے سے امریکی مفادات کو ٹھیس پہنچنے کا خطرہ ہے۔ چین نے بھارت و امریکہ کے نئے دفاعی معاہدوں پر واشنگٹن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بھارت پر امریکہ کی مہربانیاں چین کے خلاف ہیں۔ چین صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ عسکری تیاریوں کے حوالے سے چین نے بھارت کی کبھی رتی پھر پرواہ نہیں کی اور حال ہی میں سکم و بھوٹان سے ملحقہ چین کے ساتھ ملنے والی بھارتی سرحد پر چین کے فوجیوں نے وہاں بھارتی فوج کی طرف سے بنائے گئے 2 بنکروں کو توڑنے کے بعد ہاتھوں سے دھکے دیتے ہوئے بھارتی فوجیوں کو اس مقام سے دور دھکیل دیا جہاں بھارتی فوج تعمیرات میں مصروف تھی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بھارتی فوج کو مخصوص متنازع علاقے سے نکالنے کے بعد چینی فوجیوں نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر دیوار بنائی تاکہ بھارتی فوجی دوبارہ اس حدود سے آگے نہ بڑھیں۔ اس موقع پر بھارتی فوج کے کمانڈر اور چینی فوجی دستے کے سربراہ کے مابین ہونے والی تکرار کی موبائل فون کیری کے ذریعے بھارتی فوجی خود چین کے ہاتھوں ہونے والی اپنی بے عزتی کی منظر کشی کرتے رہے۔ مذکورہ ویڈیو بھارت ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں وائرل ہوئی تو بھارتی آرمی چیف کی طرف سے چین کے خلاف بیانات سامنے آنے کے ساتھ ہی جنرل بپن راوت نے سکم روانگی کا اعلان کرکے بھارتی میڈیا کو چپ کرانے کی کوشش کی کہ وہ خود جا کر صورت حال کا جائزہ لیں گے کہ بھارتی فوجیوں نے اپنے علاقے کے تحفظ کیلئے مزاحمت کیوں نہیں کی بھارتی آرمی چیف ابھی سکم نہیں پہنچے تھے کہ بھارتی میڈیا نے ایک نیا دھماکہ کردیا کہ چین ایک طرف سکم کی بطور آزاد ریاست بحالی اور اس کے لئے سکم میں بڑے پیمانے پر تحریک برپا کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے تو ساتھ ہی ” گریٹر نیپال“ کے لئے بھی نہ صرف یہ کہ نیپال کے اندر بڑے پیمانے پر مہم شروع کی جا رہی ہے بلکہ تاج برطانیہ کے زمانے میں نیپال کی حدود پر مبنی نقشے بھی تیار کئے جا رہے ہیں جس میں بھارت کے زیر قبضہ بہت سارا علاقہ شامل ہے ۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے واپس آتے ہیں آج کے موضوع کی طرف امریکہ کی بھارت پر مہربانیوں کے خلاف پاکستانی میڈیا کے شدید ردعمل اور حکومت کے مضبوط موقف کو دیکھتے ہوئے امریکی اسٹیبلشمنٹ نے حکمران ری پبلکن پارٹی کے سنیٹر جان میکن کی سربراہی میں تین رکنی وفد فوری طور پر پاکستان بھیجا۔ پاکستان میں سنیٹر جان میکن نے حکومتی و عسکری قیادت کے ساتھ ملاقاتیں کیں اور ہر ملاقات میں پاکستان و امریکی تعلقات کی اہمیت پر زوردیا۔ پاکستان کو قریبی دوست اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی عوام اور پاک فوج کی لازوال قربانیوں کو سراہا امریکی سنیٹر کے وفد کی سب سے اہم بات ان کی طرف سے پاکستان کے ان قبائلی علاقوں کا دورہ تھی جہاں کسی زمانے میں دہشت گردوں کا سکہ چلتا تھا جن کے خلاف کامیاب کارروائیوں کے بعد وہ فرار ہو کر افغانستان میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے جہاں سے انہوں نے افغان و بھارتی خفیہ اداروں کی سرپرستی میں پاکستان میں معصوم جانوں سے کھیلنے کا نہ صرف اپنا سلسلہ جاری رکھا بلکہ دھڑلے سے اپنی دہشت گردی کو تسلیم بھی کرتے رہے۔ اب یہ کس طرح ممکن ہو کہ امریکہ جو 2001 کے بعد سے افغانستان میں سیاہ و سفید کا مالک ہے وہ بھارت و افغانستان کی پاکستان میں دہشت گردی کی شکل میں مسلح جارحانہ مداخلت سے باخبر نہ ہو لیکن امریکہ نے اس مسئلے پر اپنی زبان بند رکھ کے پاکستان میں ہونے والے خودکش حملوں کے لئے اپنی خاموش حمایت کی تصدیق کی۔ امریکی سینیٹر جان میکن کیلئے ان علاقوں کا دورہ ایک خواب تھا جہاں 1947 سے قبل انگریز بہادر آنکھ اٹھا کر دیکھتے ہوئے خوف محسوس کرتا تھا جان میکن نے قبائلی جنگ زدہ علاقوں میں پاک فوج کی طرف سے انتظام و کنٹرول سنبھالنے کے بعد وہاں ہونے والی جدید طرز کی تعمیر و ترقی کو دیکھتے ہوئے خوشگوار حیرت کا اظہارکیا اور پاکستان کی طرف سے تعاون کے بغیر افغانستان میں قیام امن کو ناممکن قروار دیا۔
Me Cain in Pakistan: There can be, no peace, in Afghanistan without Pakistan Cooperation
کی سرخی کے سات نیوز ایجنسی علاوہ ازیں رائٹرز کی رپورٹ امریکہ و برطانیہ کے تمام قابل ذکر اخبارات میں پہلی خبر کے طور پر شائع ہوئی جس میں واضح تاثر دیا گیا کہ امریکی سینیٹرز2001 کے بعد خطے میں دہشت گردی کے خلاف شروع کی گئی جنگ میں پاکستان کی م¶ثر خدمات اور بے بہا قربانیوں کو تسلیم کرتے ہیں اور اسے قدرکی نگاہ سے دیکھنے کے علاوہ اس سچ کو بھی مانتے ہیںکہ افغانستان میں امن پاکستان کے بغیر ممکن نہیں لیکن جان میکن کی سربراہی میں امریکی سینیٹرز کے وفد نے کابل پہنچتے ہی پینترا بدلہ اور اپنے بیانات و م¶قف یا عوامی سطح پر کئے گئے وعدوں سے پھرنے اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے کے حوالے سے غیر ترقی یافتہ غریب ممالک کے جاہل سیاستدانوں کو بھی مات دیدی۔ کابل پہنچتے ہی انہیں حقانی نیٹ ورک یاد آ گیا جو انہیں پاکستان میں قبائلی علاقوں میں اپنے دورے کے دوران کہیں دکھائی نہیں دیا تھا۔ امریکی کانگرس کے ان اراکین کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی تعریف و توصیف میں ادا کئے گئے الفاظ بھی یاد نہیں رہے یوں لگتا تھا کہ جسے جان میکن جیسا منجھا ہوا پرانا سینیٹر یا سیاستدان نہیں بلکہ افغان صدر یا بھارتی وزیراعظم بول رہا ہو‘ امریکی پالیسی سازوں کی اس غیر سنجیدگی کو دیکھ کر ہی شک پڑتا ہے کہ امریکہ افغانستان میں بدامنی ہور صورت جاری رکھنا چاہتا ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024