یہودی قوم نے ایک ”دیوار گریہ“ بنائی ہوئی ہے جہاں وہ لپٹ کر روتے ہیں اور کچھ وعدوں کی تکمیل چاہا کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں آج کل کئی شہروں اور کئی مقامات پر ”دیوار مہربانی“ بنائی گئی ہے۔ جہاں لوگ اپنے بچے کھچے پرانے کپڑے لٹکا دیتے ہیں‘ کچھ جگہوں پر راشن وغیرہ رکھنے کی بھی کوشش کی گئی۔ مگر اس غریب ملک میں راشن تو اس لئے کسی کو دکھائی ہی نہیں دیا کہ ضرورت مندوں کی تعداد کے باعث راشن کو چند گھنٹوں کےلئے رہنا دشوار تھا۔ ہمارے ہاں اکثر ہی ”دیوار مہربانی“ کسی بھی مہربانی سے خالی اور ویران پڑی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اگر ”دیوار گریہ“ بنا دی جائے تو وہ کبھی ویران دکھائی نہیں دے گی اور اگر یہ بھی معلوم ہو کہ اس ”دیوار گریہ“ پر سر رکھ کر رونے والوں کو دیکھنے کےلئے ہمارے حکمران اور سیاستدان بھی آئیں گے تو شاید دیوار گریہ تک پہنچنے کےلئے لمبی لمبی قطاریں بھی دکھائی دینے لگیں۔ ان قطاروں میں نہ صرف غربت‘ مہنگائی‘ بیروز گاری‘ صحت ‘ تعلیم اور بے گھری اور کرائے کے گھروں میں رہنے والے لوگ آنسو بہاتے نظر آئیں گے۔ بلکہ وہ لوگ بھی دکھائی دے سکتے ہیں جو پاکستان میں موجود پچھلے کئی برسوں کی بدامنی‘ دہشت گردی اور تخریب کاری کا شکار ہوئے اور جس کی وجہ سے ان کے اہل خانہ‘ بچے یا دوست احباب اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ سانحہ پشاور اور اس جیسے دیگر واقعات کے بارے میں سوچیں تو آج بھی آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں اور اس قسم کے سارے معاملات آپریشن ضرب عضب کے بعد ہی بہتر ہوئے ہیں مگر عجیب بات ہے کہ ہمارے ہاں اہم معاملات کی سنگینی سے نظریں چرانے کا رویہ دکھائی دیتا ہے اور بدقسمتی سے ایسے سنگین معاملات کو جنہیں دیکھنا چاہئے اور جو ذمہ دار ہیں دراصل انہی لوگوں کے بارے میں شکوک و شبہات بھی موجود ہیں۔ مثلاً وزیر داخلہ چودھری نثار اور پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناءاللہ پرالزام رہا ہے کہ وہ انتہا پسند تنظیموں اور انتہا پسند لوگوں کو تحفظ فراہم کرتے رہے ہیں۔ مرتضیٰ برلاس کا شعر ہے کہ....
میں ارباب سیاست کو وطن دشمن نہیں کہتا
مگر یہ دوست ایسے ہیں کہ جو نادان لگتے ہیں
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے ایک تازہ ترین بیان میں کہا ہے کہ فرقہ وارانہ تنظیموں کو دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ نہیں کھڑا کیا جا سکتا۔ مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ پھر انہیں کہا کھڑا کیا جا سکتا ہے؟ سب جانتے ہیں کہ دہشت گردوں کو اپنے مقاصد کی تکمیل کےلئے جن سے آسرا چاہئے ہوتا ہے وہ ایسے ہی لوگ ہو سکتے ہیں جن کے اندر کوئی نہ کوئی کمزوری یا دشمنی یا نظریاتی کمزوری موجود ہوتی ہے‘ ورنہ دنیا بھر کی دہشت گرد تنظیموں کےلئے کارروائی کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ انہیں ملک میں موجود ایسے سلسلے مناسب لگتے ہیں جو کسی نہ کسی طرح سے انتقامی کارروائیوں پر آمادہ ہو جائیں اور پھر سب سے بڑی بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ معاملہ یا واقعہ دہشت گردی کا ہو یا فرقہ واریت کا ہو دونوں کے نتائج اک جیسے ہیں۔ یعنی وہی خون خراب‘ شہادتیں اور بدامنی سامنے آتی ہے جس میں بے گناہ اور معصوم لوگ شہید ہو جاتے ہیں اور جس کے بعد ایک اور صورتحال سامنے آتی ہے کہ پاکستان کا چہرہ منفی انداز میں دنیا بھر کو دکھایا جاتا ہے کہ یہ ایسا ملک ہے جہاں فرقہ واریت پائی جاتی ہے اور جہاں عدم برداشت موجود ہے اور اسی بنیاد پر ہندوستان کا چہرہ جمہوری اور سیکولر دکھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ دراصل اس صدی کے آغاز سے ہی دنیا کے بعض ممالک نے روئیے تبدیل کئے ہیں کیونکہ بیسوی صدی میں یہود کیخلاف عوامی سطح پر نفرت موجود تھی۔ لوگوں کا خیال تھا کہ خود کو جلا وطن سمجھنے والے تجارت پر قابض ہیں اور اعلیٰ مقامات تک رسائی رکھتے ہیں اور ملکوں ملکوں کے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں لہذا جنوبی یورپ والے ہر بات کا ذمہ دار یہود کو ٹھہرایا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے ”ہر مصیبت یہود کی پیدا کردہ ہے“ انہی دنوں ”سامی کش“ تحریک کی بنیاد بھی رکھی گئی تھی۔ سامی کش تحریک کو اس وقت مزید تقویب ملی تھی جب یہودیوں نے پانامہ شہر بنانے کا ٹھیکہ لیا تھا۔ ایک بڑا دلچسپ واقعہ مصنف جبرالڈ سمتھ نے ایک کتاب ”بین الاقوامی یہود“ میں لکھا تھا کہ ”یہود نے ہمیشہ یورپی قوموں سے ”باہمی تنازعات“ میں ناجائز دخل اندازی کی اور امن و جنگ دونوں صورتوں میں فوائد حاصل کئے“ یہ کتاب یہودی لابی نے آٹھ آٹھ سو ڈالر دے کر خریدی تاکہ عوام تک نہ جا سکے۔ یعنی کہ یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کسی بھی ملک سے باہمی تنازعات معمولی نہیں ہوا کرتے اور دنیا بھر کی دشمن قوتیں ان کافائدہ اٹھاتی ہیں۔ ہمیں بھی یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ اکیسوی صدی کے آغاز سے دنیا کے بعض ممالک کے رویے تبدیل ہوئے ہیں اور مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف عوامی سطح پر نفرت پھیلانے کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا ہے اور ہر بات میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ ”ہر مصیبت مسلمانوں کی پیدا کردہ ہے“ لہذا جہاں دہشت گرد تنظیموں کا قلع قمع کرنا ضروری تھا وہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ ”باہمی تنازعات“ کا فائدہ بھی دہشت گرد تنظیمیں ہی اٹھایا کرتی ہیں۔ لہذا ہمیں اگر ملک میں موجود امن کو قائم رکھنا ہے تو اپنی آنکھیں کھول کر ان معاملات کی سنگینی کا جائزہ لینا ہو گا۔ جو ملک کی سلامتی اور معصوم لوگوں کی جانیں لینے کا باعث بنتے ہیں اور ایسے واقعات کا بھی قلع قمع کرنا ہو گا جو ملک کاچہرہ بدنام کریں اور دہشت گردی کے واقعات میں ”سہولت کار“ بنتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ حکومت آنےوالے الیکشن میں ووٹ جمع کرنے کےلئے تیز رفتاری دکھا رہی ہے مگر خدارا اس تیز رفتاری میں قومی سلامتی کے اہم معاملات پر کھیل نے کھیلا جائے اور امن قائم ہونےوالی اس فضا کو برقرار رکھنے کی ہی کاوشیں جاری رکھیں‘ ورنہ ”دیوار مہربانی“ تو خالی پڑے رہے گی مگر ”دیوار گریہ“ پر ہجوم دکھائی دے گا۔مرتضیٰ برلاس کا ایک اور شعر ہے....
آنکھیں جو کھلی ہیں تو ذرا سامنے دیکھو
دیوار پہ لکھا ہوا آتا ہے نظر کیا؟
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024