کچھ سیاسی لیڈر پہلے سوچتے ہیں، انہیں دوراندیش کہا جاتا ہے۔ کچھ سیاسی لیڈر بعد میں سوچتے ہیں، انہیں ہسٹری احمق کہتی ہے۔ کچھ سیاسی لیڈر سرپر پڑے تو سوچتے ہیں، انہیں میونسپل کارپوریشن کے بدنظم ریسکیو ورکرز ہی کہا جا سکتا ہے۔ ہماری حکومتیں بہت سے مسائل کو حل کرنے کے طریقہ کار کے باعث اکثر تیسری مثال میں فِٹ آتی ہیں۔ انہی میں سے ایک حساس مسئلہ پاک فوج کے سربراہ کی تعیناتی کی مدت کے دورانئے کا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس نکتے پر بہت پہلے سے سوچ بچار کرنے کی اس لئے ضرورت ہے کہ مذکورہ تین برس کی مدت کے دورانئے کے تیسرے برس اس ایشو پر بہت لے دے ہوتی ہے۔ میڈیا کے سب افراد اور سیاست دانوں کے سب ٹولے اس بحث میں بقدرِ جثہ اپنا حصہ ضرور ڈالتے ہیں۔ ماحول کو گرم کرنے کے لئے میڈیا والوں کو ٹپ دے کر اکثر جمہوری معصوم جب ٹاک شوز میںاس مسئلے پراینکر کے سوالوں کا جواب دیتے ہیں تو دشمن ملک اِسے اپنے مفاد کے لئے منفی انداز میں پراپگیٹ کرتا ہے۔ جونہی یہ مسئلہ اپنے منطقی انجام کو پہنچتا ہے تو اس ایشو پر میڈیا اور ٹاک شوز ایسے ٹھنڈے ہو جاتے ہیں جیسے اِن میں کبھی زندگی تھی ہی نہیں۔ اس کی مثالوں میں اس حوالے سے پرانی اور نئی سب مثالیں شامل ہیں۔ جنرل راحیل کی مدت کے دورانئے کے آخری مہینوں میں میڈیا اور ٹاک شوز پر مختلف قیاس آرائیوں اور تبصروں کی لوٹ سیل لگی ہوئی تھی۔ جنہیں دو کا پہاڑہ بھی صحیح طور پر یاد نہیں تھا وہ بھی اس حساس ترین معاملے پر لکھ اور بول رہے تھے۔ اب ہرطرف خاموشی ہے۔ اُس وقت مختلف بحثوں میں مدت ملازمت میں توسیع دینے یا نہ دینے کے ساتھ ساتھ پاک فوج کے سربراہ کی مدت کے دورانئے کو تین سال سے بڑھا کر چار سال کرنے کی تجویز بھی سامنے آئی۔ فرض کریں کہ جنرل راحیل کی مدت کے آخری مہینوں میں اُس وقت اگر انہیں توسیع دی جاتی یا فوج کے سربراہ کی مدت کا ابتدائی اصل دورانیہ تین سال سے بڑھا کر چار سال کردیا جاتا تو بہت سی زبانیں یہ کہتیں کہ حکومت نے دبائو میں آکر گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ تاہم اُس وقت یہ کام بخیروخوبی اچھے انجام کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچا۔ یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ ایسا ایشو جو ملکی مفاد میں ہو اُس کے بارے میں دوراندیشی سے کیوں نہیں سوچا جاتا؟ ایسا معاملہ جو ریاست کے حوالے سے حساس ہو اُس کے سرپر آنے پرہی غور کیوں کیا جاتا ہے؟ پاک فوج کے سربراہان کی اگست 1947ء سے نومبر 2016ء تک کی فہرست کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ 69 برسوں میںپاک فوج کے سابقہ 15 سربراہان میں سے چار جرنیل ایسے ہیں جنہوں نے تین سال کی مدت پوری نہیں کی۔ ان میں جنرل سرفرینک میسروی، جنرل گل حسن، جنرل آصف نواز اور جنرل جہانگیر کرامت شامل تھے۔ تین جرنیل فوج کا سربراہ بننے کے بعد تین برس سے پہلے ہی مارشل لاء لگاکر مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے جن میں جنرل یحییٰ، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کا نام آتا ہے۔ جبکہ جنرل ایوب خان ابتداء میں سات برس سے زائد سی اِن سی رہے، بعد میں مارشل لاء لگاکر مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ تین جرنیل ایسے نکلے جومارشل لاء لگائے بغیر تین برس سے زائد فوج کے سربراہ رہے۔ ان میں جنرل موسیٰ، جنرل ٹکا اور جنرل کیانی شامل ہیں۔ صرف چار جرنیل ایسے ہیں جو تین سال کی اپنی مدت ختم ہونے کے بعد صلح صفائی سے ریٹائر ہوگئے۔ ان میں جنرل گریسی، جنرل اسلم بیگ، جنرل عبدالوحید کاکڑ اور جنرل راحیل شامل ہیں۔ پاک فوج میں جو افسران لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر پہنچتے ہیں وہ بہترین صلاحیتوں کے پیشہ ورانہ میرٹ پر پورے اترتے ہیں۔ انہی میں سے ایک سینئر کو فوج کا سربراہ مقرر کیا جاتا ہے۔ بہترین پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا مالک فوج کا سربراہ اپنے انداز سے فوج کو کمان کرتا ہے اور ملک کی سلامتی کو مضبوط بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ فوج کا وہ سربراہ اپنی کمان کی عملی منصوبہ بندی کے ساتھ جب نتائج کے عروج پرہوتا ہے تو تین سال کی مدت ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد وہ ریٹائر ہوجاتا ہے یا مدت میں توسیع لینے کا راستہ اختیارکیا جاتا ہے جسے بعض حلقوں میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔دوسری طرف مدت میں توسیع کے حق میںدلیل ہوتی ہے کہ منصوبہ بندی کے بہترین ثمرات اُس وقت زیادہ حاصل کئے جاسکتے ہیں جب فوج کا وہ سربراہ مزید کچھ مدت کے لئے اپنی کمان پر موجود رہے۔ اس مسئلے کو بدنظمی کی بجائے آئینی طریقے سے حل کرنے کے لئے تین تجاویزہیں۔ پہلی یہ کہ آئینی ترمیم کے ذریعے مدت کا دورانیہ تین برس کی بجائے چار برس ہونا چاہئے۔ دنیا کی سپرپاور امریکہ میں بھی فوج کے سربراہ کی مدت چار برس ہے۔ دوسری یہ کہ اگر ناگزیر حالت میں فوج کے حاضر سربراہ کی مدت میں توسیع کرنا ضروری ہو تو اُس کا اختیار وزیراعظم یا صدر کی بجائے پارلیمنٹ یا پارلیمانی کمیٹی کے پاس ہونا چاہئے اور تیسری یہ کہ سِول سربراہ فوج کے حاضر سربراہ کو اپنا اختیار استعمال کرکے وقت سے پہلے عہدے سے علیحدہ نہ کرسکے بلکہ اس کے لئے پارلیمنٹ یا پارلیمانی کمیٹی کی منظوری ضروری ہو۔ اگر موجودہ حکومت اور پارلیمنٹ اس مسئلے پر سنجیدگی سے سوچیں تو اس میں آئینی اور جمہوری طریقے سے ترمیم کا یہی درست وقت ہے کیونکہ اگلے برس 2018ء میں عام انتخابات ہیں۔ ویسے تو سب سیاسی جماعتیں غیراعلانیہ انتخابی مہم شروع کر چکی ہیں لیکن جون 2017ء کے بعد سب سیاسی جماعتیں بڑے زور شور سے انتخابی موڈ میں چلی جائیں گی اور انتخابات سے پہلے کسی کوسنجیدہ قانون سازی کی فرصت نہیں ہوگی۔ 2018ء میں عام انتخابات کے بعد نئی حکومت سازی میں چند ماہ لگ جائیں گے۔ یوں رفتہ رفتہ 2019ء آجائے گا۔ اُس وقت پھر وہی مسئلہ میڈیا اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لئے زیربحث لے آئے گا۔ اگر اُس وقت کی حکومت نے اس ایشو پر غور کرنا شروع کیا تو دبائو کے آگے گھٹنے ٹیک دینے والی طنزیہ آوازیں پھر سنائی دینے لگیں گی۔ پاک فوج کے موجودہ سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ انتہائی باصلاحیت اور مکمل پیشہ ور افسر ہیں۔ وہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ پاک فوج کا ایسا متوازن سربراہ ملک کے لئے ایک روشن علامت ہے۔ انہوں نے اپنی ترجیحات میں دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی بہتری کو خاص طور پر شامل کیا ہے۔ لہٰذا صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرنے والی سیاسی قیادت کو ہی ہسٹری دوراندیش کہے گی۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024