میثاقِ تسلسل جمہوریت!
مسلم لیگ ن سیاسی جماعت ہے اور اب مذکورہ جماعت پاکستان میں جمہوریت کو نئی جان و جہت کے ساتھ دوام عطا کرنے نکلی ہے۔ مگر انجام سے باخبر یا بے خبر اﷲ ہی خیر کرے! میاں کے متوالے جمہوریت کے متوالے بنیں۔ اس سے بڑی ملک کی خدمت اور کیا ہو گی؟مگر متوالوں کو اندھیری رات اور چند اجنبی ہاتھوں سے دفن ہونا بھی یاد رکھنا ہو گا۔ یہ حقیقت ہے کہ نوے کی دہائی میں سیاست کرنے والے سیاستدان اب جمہوریت کی طرف لوٹ رہے ہیں اور جمہوریت کی مضبوطی اور تسلسل چاہتے ہیں۔پارلیمنٹ میں کی گئی جمہوریت کیلئے آئین و قانون سازی کا اعزاز پی ایم ایل این کے پاس ہے، وہ تیرہویں ترمیم کی صورت میں ہو یا پھر چودھوی ترمیم۔ یہ جمہوریت کے حقیقی عنصر تھے جو جمہوریت میں شامل کئے گئے مگر ابھی بھی فضا میں قوسِ قزح کے کئی رنگ باقی ہیں۔ جنہیں پارلیمنٹ نے ہی پورا کرنا ہے۔ لیکن اراکین پارلیمنٹ کا کسی ’’اور‘‘ کی طرف دیکھنا پارلیمنٹ کی توہین ہے۔ پاکستان میں اس سے بڑی توہین کوئی اور نہیں ۔
یہ بات خان صاحب کو کون بتائے کون سمجھائے؟ جن کے مشیر شیخ رشید جیسے ہوں۔خان صاحب جیسے سیاست دانوں کا پارلیمنٹ میں نہ جانا ایسے ہے جیسے کرکٹر کا میدان میں نہ اترنا اور مقابلہ نہ کرنا۔ پارلیمنٹ میں رہنے سے جمہوریت عملی شکل اختیار کرتی ہے۔ سیاستدان کا مزاج و محور جمہوری پارلیمان نہیں تو سیاست محض گالی ہے۔ نوازشریف کی پارٹی صدارت کا معاملہ جو کسی پارٹی یا افراد کا فیصلہ نہیں بلکہ پارلیمانی فیصلہ ہے جس کے خلاف آپ پھر سے عدالت میں ہیں۔ دوران سماعت اگر جج صاحب نے اپنے ریمارکس میں استفسار کر لیا کہ پارلیمنٹ میں اس کے خلاف اپنا ووٹ کاسٹ کیوں نہیں کیا تو کیا جواب دیں گے؟ اگر جواب دیا بھی توشیخ رشید کے مشورے سے دیں گے‘ جنہیں خود ھی آپ سے گلہ ہے جسے آپ وزیراعظم بننے کا بھی ووٹ نہ دے سکے۔
خان صاحب عدالتوں کو عدالتیں ہی رہنے دیں اور عدالتوں کو سیاسی فیصلوں میں اپنی مرضی و منشاء کیلئے استعمال نہ کریں۔عدالتیں پارلیمنٹ کی روشنی میں فیصلے کرتی ہیں۔ پارلیمنٹ کے فیصلے نہیں کرتیں۔ عقل وخرد کا امکان و گمان یہی ہے کہ معزز عدالت سیاسی مقدمات میں انڈین کورٹ کے راجستھانی فیصلہ کو ہی نظیر بنائے گی۔ اس سے قبل بھی معزز عدالت فوجی عدالتوںکیلئے کی گئی ترمیم میں پارلیمنٹ کو ہی دستور و آئین ساز ادارہ تسلیم کر چکی ہے جو آئین و قانون کے مطابق ہی تھا۔
میاں نوازشریف اب سیاست سے ہوتے ہوئے جمہوریت پر آگئے ہیں۔ جمہوریت کے لئے کی گئی آئینی ترامیم بلاشبہ ان کا خاصہ ہیں جنہیں وہ 2018 ء کے الیکشن میں استعمال کریں گے۔ نوازشریف مقبولیت کے حساب سے ہاٹ کیک کا درجہ رکھتے ہیں۔ مخالفین اور پیروکاروں دونوں کے لئے ن لیگ ان کے بغیر زیرو اور دیگر جماعتیں ان کے ہونے سے زیرو۔ نوازشریف جواب سویلین بالادستی اور عوامی حاکمیت کی بات کرتے ہیں معلوم یہی ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے تینوں ادوار میں یہ چیزیں نہیں دیکھیں۔ حضور والا ضرور آپ کی کوتاہی کا پہلو بھی ہو گا۔ وزیراعظم عوامی نمائندہ ہی نہیں عوام کا فخر و غرور ہوتا ہے۔ چار دہائیوں پر محیط یہ سیاستدان اگر جمہوری روش پر آ گیا ہے تو انہیں سوچنا چاہئے جو وزیراعظم بننے کے خواب دیکھتے ہیں۔پاکستانی سیاست میں جمہوری کلچر کاقطعاً کوئی وجود نہیں ہے۔ یہاں حریف کیلئے احترام و مقام کی بجائے صرف نیست و نابود والی فضا ہے اور دھرنا کلچر اس کی خوفناک ترین شکل ہے۔ دھرنے صرف اور صرف سیاست ہوتے ہیں۔ سیاسی رہنما اور سیاست میں نووارد ذہن نشین کر لیں پاکستان میں جمہوریت کا سہولت کار کوئی نہیں۔ اہلِ سیاست کو ہی اہلِ جمہوریت بننا ہو گا۔ قبل از انتخابات اور انتخاب میں التواء دونوں مطالبے جمہوریت کو ریسکیو نہیں کریں گے۔ شہید بی بی اور میاں صاحب اپنی غلطیوں اور اپنی اپنی آلہ کاری کا اعتراف و ازالہ میثاق جمہوریت میں کر چکے ہیں۔ سیاست دانوں کو پھر سے اب معاہدے کی ضرورت ہے جو میثاق تسلسل جمہوریت ہے جس میں سیاست متنازع ہو مگر جمہوریت نہیں۔ جمہوریت زیر دست نہیں سب جمہوریت کے زیر دست ہیں۔ یہی متن و مدعا جو ہمارے سیاستدانوں کو اپنانا ہے۔ نوازشریف مقبول ترین لیڈر ہیں۔ ان کے بارے میںسروے نہ بھی ہو پھر بھی سب جانتے ہیں۔ مقبول ترین نام نوازشریف ہی ہے۔ میاں صاحب کہہ چکے ہیں کہ میں جیل یا موت سے نہیں ڈرتا۔
بہادری ہمیشہ مقصد کی غلام ہوتی ہے۔ جیسے آمریت اور بدنامی کا چولی دامن کا ساتھ ہے ایسے ہی مقبولیت اور جمہوریت ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ بات حکومت کی نہیں جمہوریت کی ہے پھر بھی میاں صاحب کی یادداشت میں ہونا چاہئے کہ ’’حفاظتی حراست‘‘ سے رہائی کے بعد جنرل ضیاء کو بھٹو کی مقبولیت کا اندازہ ہوا اور پھر پھانسی گھاٹ تک کا سفر۔
٭٭٭٭٭