قارئین یہ ابھی کل مُحترم اشفاق احمد کی برسی گزری ہے۔ داستان سرائے کا یہ مُسافر زندگی کی داستان سُناتے سُناتے اچانک چل دیا۔ لوگوں میں آسانیاں بانٹنے اور اُنہیں دوسروں میں آسانیاں بانٹنے کی توفیق کی دُعا دینے والا سب کو مُشکل میں ڈال گیا۔ ان کی وفات کا صدمہ اِتنا شدید تھا کہ میں نے بانو آپا کو فون کرکے کہا … نمبر تو میں نے آپ کا مِلا لیا ہے تعزیت کیلئے آپ نے مجھے بتانا ہے کہ میں نے آپ کو کیا کہنا ہے؟ کیونکہ میری ڈکشنری تو گُونگی ہوچکی‘ الفاظ و معنی مرچُکے ہیں بہرحال قارئین اشفاق صاحب سے ہماری پہلی یہ ملاقات لاہور ٹی وی سٹیشن پر ہوئی۔ پروگرام تھا ہدف بھیجیں ہم ایم اے کی طالبات حصہ لے رہی تھیں۔ سامنے بورڈ پر درج مختلف مُوضوعات پر ہم نے نشانہ لگانا تھا اور پھر اسی موضوع پر اشفاق صاحب نے ہم سے سوالات کرنے تھے۔ میں ان دِنوں فنون (ایڈیٹر احمد ندیم قاسمی صاحب) ماہِ نو اور ادبِ لطیف میں افسانے لکھ رہی تھی‘ شاعری بھی کررہی تھی سو دل میں دُعا کی کہ کاش ہمارا نشانہ ادب کے مُوضوع پر جالگے‘ مُجھے ادب کے حوالے سے تمام بڑے ادیب جانتے تھے۔ خیر پروگرام شروع ہونے سے پہلے میں ان کے پاس جابیٹھی اور کہا سر آپ مُجھے بحیثیت ادیبہ کے جانتے ہیں میرا نشانہ جس بھی مُوضوع پر لگے آپ نے سوال ہر صورت ادب پر ہی کرنے ہیں‘ بات سُن کر زور سے ہنسے پھر کہا شرارت کرتی ہو‘ بے ایمانی سکھاتی ہو؟ بھئی جس موضوع پر نشانہ لگا میں تو اُسی کے بارے ہی میں سوال پُوچھوں گا۔ خُدا کا کرنا ایسا ہوا کہ میرا نشانہ کھیل کے خانے پر جالگا‘ سخت گھبرائی پروگرام لائیو تھا۔ ایک دم بات سنبھالتے ہوئے بولے بھئی لڑکی ہوکر تم کھیل کے بارے میں کیا کہو گی‘ یہ بتائو فنون اور نقوش جیسے بڑے بڑے بھاری ادبی رسائل میں کب سے لکھنا شروع کیا اور کیوں؟ میری بات بن گئی‘ خوب سوال جواب ہوئے میں جواب دیتی رہی۔ اس کے بعد کئی ملاقاتیں میرے ہاسٹل میں ہوئیں‘ میرے افسانوں کیلئے تعریفی فون ضرور کرتے تھے۔ اگر تسلی نہ ہوتی تو خود تشریف لے آتے تھے۔ بہرحال جو کُچھ عرصہ بعد میری شادی ہوگئی‘ ملک سے باہر چل گئی واپس آئی تو زندگی چولا بدل چُکی تھی‘ تصوف اور روحانیت مطلوب و مقصود حیات ٹھہرا‘ زندگی کے بارے میں گہرا اور گنجک فلسفہ تو اول دن ہی سے میرے افسانوں میں مُوجود تھا اب کچھ رُوحانی تجربات زندگی میں در آئے تو منظر ہی بدل گیا۔ اس حوالے سے اشفاق صاحب سے خط و کتابت ہوتی رہی ان کا اپنا یہی موضوع تھا خوب خوب بحث ہوتی تھی۔ اس سلسلے میں میرے ساتھ قدرت اللہ شہاب صاحب نے بھی فون پر کئی بار بات کی آخر کار ایک روز لاہور سے اشفاق صاحب کا فون ملا کر تم چھوٹی عمر کی ہونے کے باوجود ایک مُشکل لڑکی ہو اتنی بڑی بڑی باتیں کرتی ہو‘ میں کل ہی تمہارے پاس راولپنڈی آرہا ہوں‘ زندگی‘ روحانیت‘ تصوف اور مذہب پر بات ہوگی۔ بہرحال اگلے دن دس بجے کی فلائٹ سے آگئے لمبی نشست لگی‘ بحث ہوئی‘ لڑائی بھی ہوئی اسی دوران دوپہر کے کھانے کا وقت ہوگیا قدرت اللہ شہاب صاحب بھی آگئے‘ کھانے کے بعد تینوں میں ایک بار پھر طویل بحث ہوئی جاتے وقت بے حد شفقت سے دونوں نے مُجھے رُوحانیت کے نئے بابرکت سفر پر دُعائیں دیں بعد میں گُفتگو کا یہ سلسلہ فون اور خطوط میں بھی جاری رہا بلکہ اس حوالے سے کئی بار میرے گھر آئے۔ الغرض کیا کیا تفصیل لکھی جائے جب میرے رُوحانی اقوال و افکار پر مبنی کتاب ’’تیسری آنکھ سے‘‘ شائع ہوئی اور میں نے بھجوائی تو حیران نہ ہوئے بلکہ بے پناہ خوش ہوئے۔ فون پر کہا تبصرہ بھیج رہا ہوں یہ تو ہونا ہی تھا‘ تم کسی دوسری دُنیا کی باسی ہو بہت بہت مبارک ہو۔
قارئین انہوں نے جو کُچھ لکھ بھیجا میں سمجھتی ہوں یہ ایک مکمل صوفی‘ درویش صفت اور کھرے دل و دماغ کے انتہائی ایماندار شخص تھے۔ ان کی رائے پر میں یقینا پوری نہیں اُترتی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ انہیں اپنے قربِ خاص میں جگہ دے اور ان کو سفرِ آخرت میں آسانیاں ہی آسانیاں میسر آئی ہوں۔ وہ آسانیاں جو مخلوق خُدا کیلئے ان کا ورد زبان تھیں محترم اشفاق صاحب کا لکھا ہوا وہ تبصرہ میری کتاب ’’تیسری آنکھ سے‘‘ کے چاروں ایڈیشنوں میں شامل ہے آپ بھی پڑھئے…!
اول اول ہم نے مُسرت لغاری کے افسانے پڑھے اور ان کے متنوع مُوضوعات پر ٹھہر ٹھہر کر اور سوچ کر نئے نتائج سے آگہی حاصل کی پھر ان کے تندوتیز اور کٹیلے کالم دیکھے۔ ان کے اندر کی بات اور اُن کی تہہ کے سچ سے جب اپنی زندگی موجود کا موازنہ کیا تو سوائے شرمندگی کے کُچھ اور حاصل نہ ہوسکا لیکن اب …
اب اس مُصنفہ نے زندگی کے پائیں باغ میں جو پوشیدہ اور پُراسرار دروازہ کھولا ہے تو اُس کے اندر جھانکنے کیلئے ایک تیسری آنکھ کی ضرورت آپڑی کہ منظور کی صحیح بعدیت کا نظارہ ہوسکے۔
مُسرت لغاری کی’’تیسری آنکھ‘‘ کا بلاسیعتاب مطالعہ کرنے کے بعد میں نے جب بھی اس پر اتفاقی اور غیرعمومی نظر ڈالی تو مُجھے اس بحر بلاغت سے دانش کے نئے موتی ہی ملے۔ یہ کتاب واردات قلبی اور واردات رُوحانی کی ایک ایسی دستاویزی صورت ہے جس کے بہت سے مخفی معنی بہم ہیں۔ اگر مُسرت لغاری اپنی عُمر کے حصہ بزرگی میں ہوتی میں ان کے کلمات کو ملغوظات یا ارشادات کا نام دیتا، اگر وہ فلسفے کی طالبہ ہوتی تو میں اِنہیں’’بقول زرتشت‘‘ کے ذیل میں رکھتا لیکن وہ چونکہ مرغزار ادب کی غزلیں رعنا میں ہیں اس لئے مُجھے اِن الفاظ کے اندر خلیل جبران کے لحن کی صدا سنائی دیتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مُسرت لغاری کی اس تحریر کا مُطالعہ ایک ایسا تجربہ ہے جو اردو کے قاری کی تعریف میں اس سے پہلے کبھی نہیں آیا تھا لیکن جس کی تلاش میں وہ اب تک سرگرداں رہا ہے۔
خطِ غربت کی جانب بڑھتے ایک کروڑ انسانوں کا مستقبل؟۔
Apr 16, 2024