پاکستان میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے آنے کے بعد برادر ملک ترکی کے ساتھ تعلقات و روابط بڑھانا نہایت خوشگوار عمل ہے۔ دوسری طرف وزیرِاعظم پاکستان میاں نواز شریف کو ترکی کا سب سے بڑا سول ایوارڈ تمغہ جمہوریت ترک حکمرانوں کی طرف سے دیا جانا اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ترکی ہمارا حقیقی برادر ملک ہے۔
ترکی کے اندر سب سے بڑی سیاسی حکومتی جماعت جسٹس ڈویلپمنٹ پارٹی ہے جس کے سربراہ ترکی کے صدر عبداللہ گل ہیں اور وزیراعظم طیب اردگان کا تعلق بھی اسی سیاسی جماعت سے ہے۔ ترکی نے طیب اردگان کی قیادت میں پچھلے چند سالوں میں ترقی کی منزلیں طے کیں ہیں۔ اور وزیراعظم طیب اردگان نے ترکی کو یورپ کے مقابلہ میں لاکھڑا کیا ہے۔ ترکی کی اقتصادی اور معاشی حالت کا گراف بڑھتا جا رہا ہے۔ اور اس وقت بیرونی قرضے صرف 9 ارب ڈالر اور زرِمبادلہ کے ذخائر 91 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔طیب اردگان وزیراعظم ترکی نے عوام کی طاقت سے ملک کے اندر فوجی مداخلت کو تقریباً ختم کر دیا ہے۔ لہٰذا اب ملکی معاملات چلانے کےلئے حکومتی قیادت بزنس کمیونٹی کے لوگ‘ جسٹس‘ حکومتی ادارے عوامی سطح پر ہی فیصلے کرتے ہیں۔
ترکی کے بابائے قوم اتاترک جو ایک فوجی کرنل تھے۔ ترکی عوام کےلئے عظیم رہنما کا درجہ رکھتے ہیں۔ اتاترک نے اپنی بھرپور صلاحیتوں کے عوض ترکی کو ایک مثالی ملک بنا ڈالا۔ طیب اردگان نے ترکی کی ترقی کے بارے میں بتاتے ہو ذکر کیا کہ انہوں نے اپنے ملک میں نجکاری نظام کو رائج کیا اور یہاں کے کاروباری طبقہ کو اعتماد میں لے کر سرکاری مالیاتی اداروں کو ان کے حوالے کیا جس کی وجہ سے آج ترکی ترقی کی بلند راہوں پر گامزن ہے شاید اسی وجہ سے وزیرِاعظم پاکستان بھی قومی اداروں جو خسارے میں ہیں اس طرز کا عمل کرنے جا رہے ہیں۔
وزیرِاعظم طیب اردگان نے ہمیشہ پاکستان کی مدد کی ہے 2005ءکے زلزلہ میں ترکیوں نے برادر ملک ہونے کا حقیقی ثبوت دیا اور پاکستان عوام کی مدد حکومتی اور عوامی سطح پر کی ترکی نے اقوام متحدہ میں بھی پاکستان کی بھرپور حمایت کی۔ ترک حکمرانوں نے پاکستان میں بھی فوجی مداخلت کو کبھی پسند نہ کیا۔ بلکہ جمہوریت کے حق میں قراردادیں پیش کیں۔
ترکی کے لوگ بڑے جفاکش اور ملنسار لوگ ہیں ترکی نے ہمیشہ پاکستانیوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا۔ ترکی کی عوام صفائی کا خاص خیال رکھتی ہے اور سڑکوں پر گندگی پھینکنا بُرا عمل سمجھتی ہے پیدل چلنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ٹریفک کا نظام بڑا مہذب قسم کا ہے لوگ بڑی شاہراہوں پر بغیر سارجنٹ کے سفر کرتے ہیں ہر چوک اور اشارے پر سکیورٹی کیمرے نصب ہیں جہاں لوگ قوائد و ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے شاہراہوں پر گاڑیاں چلا رہے ہیں۔ ترکی میں میٹرو بس سڑکوں پر چل رہی ہے۔ پاکستان اور انڈیا کی ایمبیسی جس جگہ واقع ہے اس سڑک کا نام جناح روڈ ہے جو قائداعظم محمد علی جناح کے نام سے منسوب ہے۔ پاکستانی عوام کےلئے یہ کسی اعزاز سے کم نہیں۔ ترکی‘ یورپ اور ایشیا ممالک کا حسین امتزاج ہے۔ انقرہ شہر بالکل یورپین طرز کا پہاڑی علاقہ ہے۔ جہاں کی خواتین سخت سردی میں بھی مِنی سکرٹ (Mini Skirt) پہنتی ہیں۔ سکولوں کے اندر بھی لڑکیاں سکرٹ پہن کر جاتی ہیں۔ یہاں شراب کے اوپر بھی کوئی پابندی نہیں ہے بلکہ پچھلے دنوں ترکی کے اندر جو ہنگامے ہوئے تھے وہ شراب پر پابندی کیخلاف کئے گئے تھے۔استنبول میں زیادہ تر خواتین پردے اور سکارف میں نظر آئیں گی۔ جہاں آپ کو دنیا کی خوبصور ت مساجد دیکھنے کو ملیں گی۔ صحابہ اکرامؓ کے مزارات اور انبیائؑ کی تجلیات کا روح پرور منظر نظر آئیگا۔
وزیرِاعظم پاکستان میاں نواز شریف کے حالیہ دورے کو ترکی حکومت میں بھرپور پذیرائی ملی ہے۔ اسکی بڑی وجہ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کی ترکی کے ساتھ والہانہ محبت ہے۔ جس کا منہ بولتا ثبوت لاہور میں میٹرو بس سروس کا آغاز۔ SWM کا ادارہ البراق اور تعلیمی اداروں کا قیام اور اب لاہور کو پیرس کی بجائے ترکی جیسا ماڈل بنانے کی جدوجہد شروع کر دی گئی ہے۔ اب تک تقریباً 12 معاہدوں پر دستخط ہو چکے ہیں۔ جس میں تعلیم‘ سائنس اینڈ ٹیکنالونی توانائی‘ ہاﺅسنگ‘ سٹراٹیجک حکمت عملی وغیرہ شامل ہیں اس دفعہ پاکستانی عوام پرامید ہے کہ یہ معاہدے صرف فائلوں کی زینت نہیں بنیں گے بلکہ ان پر عمل پیرا ہو کر عوام ان کا پھل کھائیں گے ترکی حکمرانوں کے اس تعاون کو عوامی سطح پر بھی سراہا جا رہا ہے۔ خاص طور پر کاروباری طبقہ وزیراعظم محمد نواز شریف کے اس اقدام کی بھرپور حمایت کرتا ہے اس سے کاروباری طبقہ کے لئے ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔ اور پاکستان میں خوشحالی آئے گی۔
استنبول اور انقرہ سے میری والہانہ محبت اس لئے بھی شامل ہے کہ میرے دادا شیخ سر عبدالقادر بیرسٹری میں عدیم المثال کامیابی حاصل کرنے کے بعد ترکی تشریف لے گئے۔ قسطنطنیہ میں نامور ہستیوں‘ بڑے بڑے پاشاﺅں اور ترکی کے اس وقت کے سلطان عبدالحمید ثانی سے ملاقاتیں کیں اور سلطانِ عالی! شیخ سر عبدالقادر کی شخصیت علم دوستی اور قابلیت سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہیں ”تمغہ حمیدیہ“ عطا فرمایا۔ شیخ سر عبدالقارد کا استنبول اور انقرہ کا سفرنامہ ہمارے میٹرک اور ایف اے کی اردو کی درسی کتب میں پڑھایا جاتا تھا۔ آج وزیرِاعظم نواز شریف کو تمغہ جمہوریت ملنے کے بعد اپنے دادا شیخ سر عبدالقادر کی یاد میں آنکھیں نم ہو گئیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024