پنجاب حکومت کے حالیہ تعلیمی بل کے خلاف جس طرح پر ائیوٹ سکول مالکان کھل کر سامنے آئے ہیں اور جس ہٹ دھرمی سے انہوں نے طلبہ کے امتحانات کے دنوں میں دو دن کیلئے ہڑتال کے نام پہ سکول بند رکھے اسکی مثال کہیں نہیں ملتی اور اس ہٹ دھرمی کی سب سے بڑی وجہ ہماری حکومتوں کی ناکامی ہے جن کے نزدیک تعلیم اور صحت پر خرچ کرنا کبھی بھی اہم نہیں رہا اور سرکاری سکولوں کی حالت زار نے ہی آج یہ دن دکھایا ہے کہ پرائیوٹ سکول مالکان نے تعلیم کو ایک ایسا منافع بخش کاروبار بنا دیا ہے کہ اب وہ اپنے سرمایے کا نفع والدین سے سود سمیت لینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ متوسط طبقے اور سفید پوش والدین کے لئے بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ اس سال والدین نے ناجائز اضافے پہ پہلی دفعہ اس زیادتی کیخلاف اپنی آواز بلند کی اور مسئلہ حکومتی ایوانوں تک پہنچانے کی کوشش کی۔ بات آگے تک گئی بھی یہاں تک کہ وزیر اعظم نے نوٹس لیا ، کمیٹیاں بنائیں اور پھر پنجاب حکومت اس حوالے سے بل لے کے آئی جس کو سکول مالکان نے مسترد کر دیا۔ اگر تعلیم کو ریاست نے اپنی ذمہ داری سمجھ کے سرکاری سکولوں کی حالت بہتر بنائی ہوتی تو والدین یوں پرائیوٹ سکولوں کے آگے بے بس نہ ہوتے اور نہ ہی تعلیمی ادارے یوں من مانیاں کرتے پھرتے۔ قائد اعظم نے پاکستان بننے کے بعد پہلی تعلیمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا ’’ اس ر ا کے مستقبل کا انحصار بہت حد تک اس بات پر ہو گا کہ ہم اپنے بچوں کو کیسی تعلیم دیتے ہیں ‘‘ ۔
ہماری حکومتوں کی تعلیم کے شعبے میں دلچسپی اور اہمیت کا اندازہ اس سروے سے لگایا جا سکتا ہے جس میں اس ملک کی عوام کو خواندگی کی شرح بڑھنے کی بجائے ، گھٹنے کی خوشخبری دی گئی ہے۔ جب سے پاکستان بنا ہے ہر دور حکومت میں محض تعلیم کو لفاظی اہمیت دی گئی اور عملی طور پر تعلیمی میعار کو بہتر بنانے کیلئے بات پالیسیاں مرتب کرنے سے آگے نہ بڑھ سکی ، ہر بار نصاب بدلے گئے لیکن سکولوں کی حالت بگڑتی گئی اور اس طرح پچھلے 67 برس میں اب تک ملک میں دس تعلیمی پالیسیوں کا اجراء ہو ا لیکن کوئی بھی حکومتی پالیسی نہ تو تعلیمی میعار کو بہتر بنا سکی اور نہ ہی کوئی بہترین نظام تعلیم مرتب کر سکی اس طرح یہ شعبہ ہمیشہ بد نظمی و انتشار کا شکا ر رہا اور آج اب یہ حالات ہیں کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شمار ہونے لگا ہے جہاں پہ تعلیم کی شرح انتہائی کم ہے اور جہاں سکول جانے کی عمر کے 70 لاکھ سے زائد بچے سکولوں کو نہیں پہنچ پاتے۔ آنے والا وقت ابھی سے اس مسئلے کی مزید سنگینی کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ مارچ 2011ء کے مہینے کو صرف تعلیم کیلئے کام کرنے کیلئے مختص کیا گیا اور یہ مہینہ کرکٹ کے بخار میں ہی گزر گیا اور تعلیمی لحاظ سے کوئی خاطر خواہ سرگرمی نظر نہیں آئی اور پھر ہمیشہ کی طرح وہ سال گزر گیا اور عملی میدان میں کچھ نہ ہوا اور صرف باتیں ہی رہ گئیں۔ اس رپورٹ کیمطابق پاکستان کا نظام تعلیم ہنگامی صورتحال سے دوچار ہے جس کے تباہ کن اثرات ہر طرف اس قدر پھیلے ہوئے ہیں کہ ملکی سا لمیت بھی خطرے سے دوچار ہے۔ دنیا میں جتنے بچے اس وقت پرائمری سکولوں کو نہیں پہنچ پا رہے انکی دس فی صد تعداد پاکستان میں ہے اس طرح تعلیم سے محروم بچوں کی تعداد کے حوالے سے پاکستان دنیا میں نائجیریا کے بعد دوسرے نمبر پہ ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ کمزور معیشت کی بنا پر اور وسائل کی کمی ہونے کی وجہ سے پاکستان آج ان حالات سے دوچار ہے تو 26 ایسے ممالک ہیں جو کہ دنیا میں غربت میں ہم سے آگے ہونے کے باوجود تعلیمی میدان میں بھی ہم سے آگے ہیں۔ ٹاسک فورس کی تیار کردہ ایجوکیشن ایمرجنسی رپورٹ کی سب سے بڑی خامی یہ نظر آئی کہ اس میں تعلیم کے بحران کی نشاندہی تو ضرور کی گئی لیکن تعلیم کے حوالے سے در پیش مسائل اور ان کا حل تجویز کرنے سے قاصر نظر آئی ۔ یہ رپورٹ طلباء کے تعلیمی حق کا تو ذکر کرتی ہے لیکن ان کو ان کا حق کیسے دلایا جائے کے بارے میں بات نہیں کرتی۔ دوسری طرف تعلیمی شعبے میں موجود خامیاں اور ہمارا تعلیمی نظام جس نے ہمارے پورے معاشرے کو طبقاتی گروہوں میں بانٹ کے رکھ دیا ہے کے حوالے سے کوئی نقطہ زیر بحث نہیں لایا گیا۔ ہمارا ہاں ایک اور بڑا مسئلہ سکولوں میں پڑھایا جانے والا نصاب ہے اسکے بارے میں بھی کوئی بحث نہیں کی گئی اور نہ ہی پرائیوٹ سکولوں کے حوالے سے کوئی قانون سازی کی گئی جو کہ ان سکولوں کو نہ صرف فیسوں میں اپنی من مانی سے روک سکے بلکہ نظریہ پاکستان اور اسلامی اقدار کے حوالے سے بھی سکولوں میں کسی ضابطہ اخلاق کی سخت ضرورت تھی جس کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ اٹھارویں آئینی ترمیم جس پر صدر صاحب نے 19 اپریل 2010ء کو دستخط کئے تھے میں وزارت تعلیم ، سماجی بہبود ، خصوصی تعلیم ، سیاحت اور ثقافت اور لائیو سٹاک صوبوں کو منتقل کرنے کی تجاویز دی گئی تھیں جس پر عمل درآمد کرتے ہوئے پچھلی حکومت نے یہ تمام ادارے صوبائی حکومتوں کو منتقل کر دئیے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ حکومت نے نصاب کی تشکیل میں بھی مکمل طور پر صوبوں کو خود مختاری دے دی تھی۔ انتظامی سطح پر تو تعلیم کے محکمے کی کچھ ذمہ داریاں اگر صوبوں کے حوالے کر بھی دی جاتیں تو کوئی حرج نہیں تھا لیکن تعلیمی پالیسی ، نصاب اور اس حوالے سے دیگر امور ملکی سطح پر ایک ہی جیسے ہونے چاہیے تھے کیونکہ نصاب تعلیم ہر رنگ ، نسل اور زبان کے لوگوں کو یکجا کرتا ہے اور صرف پاکستانی ہونے کا احساس دلاتا ہے لیکن اس کو صوبوں کے حوالے کرنے سے صوبائی تعصب پیدا ہو سکتا ہے جو کہ ملکی سالمیت کیلئے بہت خطرناک ہے۔ اس ترمیم میں تعلیم کو بچوں کے نہ صرف بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا گیا بلکہ 5سے 16 برس کی عمر کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم دینا حکومت وقت کی ذمہ داری قرار دیا گیا۔ اس حکومت نے بھی اس طرف کوئی قابل ذکر توجہ نہیں دی اور بجائے اسکے کہ ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جاتے اور تعلیمی بجٹ جو کہ تعلیمی مسائل کے لحاظ سے بہت کم ہے اس کو بڑھانے کے بارے میں غور کیا جاتا اور ملک بھر کے نصاب میں یکسانیت اور ملکی حوالے سے اجتماعیت اور وفاقیت قائم کی جاتی حکومت سیاسی جوڑ توڑ میں ہی اس قدر مصروف ہے کہ اسکے نزدیک کسی اور مسئلے کی اہمیت ہی نہیں۔ بچوں کو تعلیمی وسائل مہیا نہ کرنا اور اس حق سے محروم رکھنا نہ صرف انکے بنیادی حقوق کی پامالی ہے بلکہ انسانی وسائل کا بھی بہت بڑا زیاں ہے اور ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بھی۔اگر حکومت واقعی اس ملک کی ترقی کیلئے سنجیدہ ہے تو اسے سرکاری نظام تعلیم میں اصلاحات لانی ہوں گی جس سے علم حاصل کرنے کی راہ میں سب رکاوٹیں دور کی جا سکیں اور امیر کے ساتھ ساتھ غریب طبقے کیلئے بھی علم کے حصول میں دشواری نہ رہے اور ساتھ ہی ساتھ پرائیوٹ سکول مالکان کے دبائو میں آئے بغیر اس حالیہ تعلیمی بل کو بھی ہر حال میں نافذ کروانا ہو گا تاکہ پڑائیوٹ سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین کی مشکلات میں کچھ کمی آ سکے اور تعلیم کے ساتھ ایک عرصے سے جاری مذاق اب بند ہونا چاہیے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38