قارئین حد ہوگئی ہے ہم جاہل اور غریب بلکہ بیوقوف پاکستانی عوام پچھلے اڑسٹھ سالوں میں اپنے ملک سے ڈھونگ نما سیاست ہی ختم نہیں کراسکے۔ مالی منافع خوری اور ہر سطح پر ناانصافیوں پر مشتمل سیاست وہ واحد لفظ ہے جس کا ہمارے پاک مذہب میں کہیں کوئی اندراج موجود نہیں ہے۔ خلفائے راشدین محاورتاً نہیں عملاً کتابِ نور میں درج شدہ احکاماتِ عالیہ پر عمل پیرا ہوتے تھے، ہر نماز کے بعد برسر منبر تشریف لاکر اپنی رعایا کے مسائل انکے ساتھ مشترکہ بات چیت کے ذریعے حل کرتے تھے اور روانہ ہو جاتے تھے۔ باقی کام وہ آدھی رات کے بعد شروع کرتے تھے یعنی کندھوں پر اناج کے بورے لاد کر گھرگھر دستک دے کر پہنچا آتے تھے۔ پانی کی مشکیں پہنچاتے تھے۔ دوسری جانب ہمارے رحمت العالمین تھے، ہر انسان ہر لمحہ ان کی زیارت کو آسکتا تھا۔ اپنا مسئلہ اور دکھ درد بیان کرسکتا تھا۔ مگر یہ ہمارے آج کے کیسے عقل کل سیاستدان ہیں، کس آسمان سے تشریف لائے ہیں کہ ایک کروڑ روپے روزانہ کے عوامی ٹیکسوں کے خرچے پر اسمبلی میں محض ایک دوسرے پر الزامات لگا کر اور ہاتھوں میں جھوٹے کاغذات کے پلندے بلکہ غریبوں کی گردنوں کے گرد پھندے لہرا لہرا کر غلط جوابات دینے کے بعد تین تین سو کنال کے بجلی، پانی اور گیس سے محروم اپنے اپنے جھونپڑوں یعنی تندوروں میں واپس چلے جاتے ہیں؟ جہاں تنوروں میں کھڑے روسٹ دُنبے اور بارہ بارہ کھانے، بارہ بارہ مقوی میٹھے اُن کے انتظار میں سوکھ رہے ہوتے ہیں۔ جی ہاں یہ اسی دھان پان کمزور سے قائداعظم کے بنائے ہوئے پاکستان کے شمالاً جنوباً پھیلے ہوئے موٹے موٹے سیاستدان ہیں جن کو یہ سب کچھ عطا کرنے کیلئے قائداعظم کے روزانہ گھر کا خرچہ بارہ آنے ہوتا تھا۔ جن کو محترمہ فاطمہ جناح پاکستان سازی کا کام رات کو پورا کرلینے کو کہتی تھیں تو فرماتے تھے صبح نور کے تڑکے اٹھ کر کر لوں گا، رات کو روشنی کا خرچہ آتا ہے تو پھر یہ کون ہیں ہمارے آج کے ماورائی سیاستدان اور بڑے بڑے عہدہ دار، جن کے گھروں میں دن کے وقت اربوں روپوں کی گٹھیاں بلکہ گٹھڑیاں پڑی رُل رہی ہیں۔ ملک سے باہر اتنا اندھا کالا پیسہ کس نے بھیجا ہے کہ غیر ملکی ماہر کمپیوٹرز بھی گنتی کے ہندسے درج کر کرکے اندھے ہوگئے ہیں۔ جی ہاں وہ یہ معصوم سیاستدان ہیں جو ہر روز پاﺅں میں پجیرو کے سلیپر پہن کر فوم کی نرم گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں اور اگر ان سے جی اکتا جائے تو آسمانی اُڑن طشتریوں میں بیٹھ کر وطن عزیز سے باہر چلے جاتے ہیں۔ خودمختاری کا یہ عالم کہ اپنی تنخواہوں میں مرضی سے خود ہی لاکھوں کا اضافہ فرما لیتے ہیں، پولیس کے حفاظتی حصار میں قدم اٹھاتے ہیں تو اسمبلیوں کی مخملی راہداریوں میں جاکر قدم رکھتے ہیں، صبح دودھ شہد کی نہروں میں نہا کر آتے ہیں، جھاگ جھاگ پردوں اور خوابناک یخ بستہ اسمبلی ہالوں میں میلوں لمبی چوڑی وسعتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، یہاں بیٹھ کر مزدوروں جیسی مزدوری نہیں کرنی پڑتی، محض زبانی اٹھکھیلیاں کرنی ہوتی ہیں۔ اعلیٰ مشروبات اور لذیذ کھانے کھا کھا کر قوم کے دُکھ درد اور فاقوں میں لفظی شرکت کرنا ہوتی ہے۔ مذہب، اخلاقیات، اعلیٰ دینی اقدار سے کوسوں دُور ہمارے یہ پیدائشی شہزادے بہت عقلمند اور قوم کے دردمند مشہور ہیں۔ اللہ ان کو دنیا اور آخرت کے حساب کا مزید شعو رعطا فرمائے۔ فاقہ زدہ عوام کا ابھی تک ایک بھی مسئلہ حل نہیں کیا کیونکہ وہ انکے خرچے پر ذاتی مسئلے حل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ بے چارے تصویریں اُتروا اُتروا کر تھک جاتے ہیں، لذتِ کام و دہن سے ہاتھ فارغ نہیں ہوتا، اپنے الاﺅنسز، سہولیات اور رعایات بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اُن سے کون کہے الزامات، لڑائی، جھگڑے، صفائیاں تو آپکے اپنے ذاتی ڈرائنگ رومز کے اندر کا کام ہے، جتنا مرضی لڑ لو، ایک دوسرے کو راضی کرلو، اسمبلیوں میں عوام کے پیسے سے عوام کے مسائل حل کرو، ورنہ سیاست کی بدعت ختم کرو۔ غضب خدا کا عوام فاقے پر فاقہ کررہے ہیں، بندے پر بندہ مر رہا ہے، کھانے پینے کےلئے سوائے آکسیجن کے انہیں کچھ میسر نہیں (الحمداللہ آکسیجن گیس پر حکمرانوں کی اجارہ داری نہیں ورنہ تو اس کے حصول کیلئے بھی عوام کو ہتھیلیاں پھیلا کر قطاروں میں لگنا پڑتا) جبکہ حکمران ہیں کہ سیاست کے نشے کے علاوہ انہیں کچھ ہوش ہی نہیں۔ زبانی کلامی ملک کو چلا رہے ہیں، الیکشن کے بہانے، سوکھے بیانات اور لچھے دار رنگین وعدوں کی بیساکھیوں پر کھڑا ملک لرز رہا ہے۔ حیرت، دُکھ اور غم و غصہ کی وجہ سے فاقہ زدہ عوام کی آنکھیں باہر ابلی پڑرہی ہیں۔ کوئی آنکھ انکی طرف دیکھنے والی موجود نہیں ہے۔ سب کے سب بڑے بڑے عہدیداروں کو اپنے اپنے عہدے کی، نوٹوں کی اور ووٹوں کی لوٹ مار کی فکر پڑی ہوئی ہے۔ دراصل یہ قوم کے ہمدرد بہترین صحت سلامتی رکھنے والے سیاستدان سیاست کی آڑ میں ملک کو کھا بیٹھے ہیں۔ غریب ملک کے عوام کی خون پسینے کی کمائی سے باہر کے ملکوں میں، بینکوں کو نتھنوں تک دولت سے بھر لیا ہے۔ انہیں یہ فکر کیوں ہو کہ جو مزدور صرف تین ہزار روپے ماہوار گھر کیلئے کماتا ہے، اس میں سے وہ گھر کا کرایہ، نایاب بجلی، پانی اور گیس کے ہزاروں کے بل، چار پانچ بچوں اور دونوں میاں بیوی کی پیٹ پوجا کے علاوہ بیماریاں، تعلیم اور باقی درجنوں اخراجات کیسے اور کس طرح پورے کرتا ہے یا کرسکتا ہے؟
امیروں، کبیروں، سفیروں کے سونے کے نوالوں کو تو چھوڑ ہی دیں، ملک بھر میں ہزاروں وزیر اور صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے ممبرز محض زبانیں چلانے کی تنخواہیں لاکھوں روپے ماہوار کھینچتے رہتے ہیں۔ حیرت ہے ان کو جان لیوا مہنگائی کےخلاف زبان درازی کرتے کبھی نہیں سنا گیا۔ (جاری)
خدارا وہ سوچیں بلکہ خدا کا خوف کریں کیا حکمرانوں اور سیاستدانوں کو موت نہیں آنی ہے؟ خدا کوحساب نہیں دینا ہے؟ انہیں یہ دنیا چھوڑ کر نہیں جانا؟ آخرت میں اپنی کرنی نہیں بھرنی ہے؟ کیا یہ سب کے سب بزعم خود اِس حد تک غرور میں ہیں کہ رب العالمین کے حضور بھی جوابدہ نہیں ہوں گے؟ اِن کے ظلم و ستم سے کچلے ہوئے فاقہ کش عوام کہاں جائیں؟ کس سے دادرسی چاہیں؟ اگر ہر مزدور بلکہ ہر کام کرنے والے کی ماہوار تنخواہ ایک تولہ سونا کے برابر بھی کردی جائے تو بھی جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا ممکن نہیں ہے۔ (آج کل ایک تولہ سونے کی قیمت پچاس ہزار روپے ہے) چہ جائیکہ کہ تین ہزار روپے کمانے والے مزدور کو مزدوری کا کام بھی ہر روز باقاعدگی سے میسر نہیں ہے۔ لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی کی وجہ سے، عمارتیں بنانے کا کام، کارخانوں کا بلکہ تمام کاروباروں کا کام مکمل طور پر ٹھپ ہو چکا ہے۔ کئی کئی دن تک اُن کے گھر کا چولہا نہیں جلتا، صرف معصوم بچوں سمیت والدین کا بچا کھچا خون جلتا ہے۔ گندم کا دانہ نایاب ہو چکا ہے، ضروریات زندگی ندارد، اکثر گیس ختم ٹھنڈے توے پر روٹی سوکھ جاتی ہے (وہ بھی بشرطیکہ غریب لپ بھر آٹا میسر آجائے) پانی کی کمیابی کا وہ عالم ٹونٹیوں سے سوائے ہوا اور سیٹی کی آواز کے اور کچھ نہیں برآمد ہوتا۔ بظاہر بجلی، پانی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ محض تین الفاظ ہیں لیکن ان الفاظ کی خوفناک، دردناک اور جان لیوا نتائج کی فہرست اتنی طویل ہے کہ کاش حکمران طبقہ ان میں سے کسی ایک بھی آزمائش سے گزر جائے تو ان پر چودہ طبق روشن ہوجائیں۔
اِن چیدہ چیدہ آزمائشوں میں دراصل اتنا کچھ شامل ہے کہ جس نے پوری زندگی کو اپنی لپیٹ سمیٹ میں لے لیا ہے۔ خودکشی کرکے جان سے گزرنا، زندگی گزارنے کی طرح عام ہوگیا ہے۔ غریب اپنے بچے بیچ رہے ہیں، ان کو تعلیم دینے کا سوال ہی ختم ہوچکا ہے۔ گھروں میں پانی کی بوند نہیں ہے، بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کپڑے دھونے والی مشینیں بند ہیں، چولہے ٹھنڈے ہیں، سی این جی کی بندش سے مسافروں سے سڑکیں بھری ہوئی ہیں، دفتروں میں قلم کا حل چلانا ناممکن، ملازم کیسے کاموں تک پہنچیں۔ چینی، آٹے کے نوالے کا دانہ میسر نہیں، زندگی ہر لمحہ کڑوی زہر ہوتی جارہی ہے۔ اکثر کارخانے بند، مزدور فارغ، صبح صبح کام پر نکلنے والے معصوم غریب مزدور بچوں سے لبِ سڑک مزدوروں کی آماجگاہیں بھری ہوئی، ٹھیکیداروں کا چہرہ نظر آنے کے انتظار میں پتھرائی ہوئی آنکھیں، ان کی کمائی لانے کی آس میں گھروں میں بیٹھی ہوئی بے بس ماﺅں کی پتھرائی ہوئی آنکھوں میں سرخ آنسو، کس کس کی کس کس بے بسی اور کس کس بے کسی کی تصویر کشی کی جائے؟ کئی گاﺅں میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے طالب علموں کی تعلیم متاثر بلکہ ختم ہورہی ہے۔ مایوسی اور ٹینشن سے بچے بیمار ہورہے ہیں۔ ان تمام قباحتوں بلکہ قیامتوں کے باوجود دہشت گردی کی لعنت مستزاد ہے۔ کتنا عرصہ ڈرون حملوں نے پورے کے پورے وطن عزیز کے گرد خون کا سرخ حصار باندھے رکھا تھا۔ کوئی دن، کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا تھا کہ کوئی سرخ خبر نہ آتی ہو۔ یا میرے رب العالمین تو ہم پر رحم فرما۔ یہ ہم مسلمان خاص طور پر پاکستان کے سترہ کروڑ باسی کس آزمائش میں پھنس گئے ہیں؟ حکمرانو، سیانو بلکہ بے دردو کچھ خدا کا خوف کرو، قائد و اقبال کے خون پسینے کی عطا اس پاک وطن کی قدر کرو۔ اس کے ایک ایک ذرے پر ایک ایک آنکھ رکھ دو بلکہ اس کے ایک ایک ذرے پر اپنی تمام جانیں وار دو، غریب عوام تمہارے ساتھ کھڑے ہیں لیکن خدارا ان سے کھڑا ہونے کی طاقت مت چھینو، ان کو دانے پانی کی گھٹن دے دے کر بے موت اور بے وقت مت مارو، ان کے دکھوں اور غموں کا مداوا کرو، ان کو فاقہ کشی اور خودکشی سے بچانے پر اپنی ساری حکمرانی کا سارا زور لگا دو۔ تم میں سے جس مقام پر جو بھی بیٹھا ہے، ان ہی کی قربانیوں کے طفیل بیٹھا ہے۔ تم سب اپنے اکیلے اکیلے مقام پر کچھ بھی نہیں ہو۔ سو اس کے باوجود بھی جیسی زندگی وہ گزار رہے ہیں اس کے لئے بے حیائی بلکہ ایک بے حیا جرا¿ت کی ضرورت ہے۔ خدا حفظ و امان میں رکھے۔ کس قدر دکھ کی بات ہے پاکستانی عوام کا یہ مقدر ہے وہ پورا دن اپنی ملکی وحشت گردی کا شکار رہیں یا پھر امریکی دہشت گردی میں مارے جائیں۔ نامعلوم پراسرار حملوں میں فنا ہوجائیں اور جو باقی ٹینشن زدہ بچ جائیں تو حکمران مہنگائی کی آڑ میں ان کے وجود کی لوڈشیڈنگ کردیں یا دوسرے الفاظ میں عملاً ان کو کہہ دیں کہ جاﺅ ملک چھوڑ دو اب یہاں دہشت گرد ہی رہیں گے۔
بہرحال آخری بات یہ کہ حکمرانو! اگر وطن کے ساتھ وفادار نہیں ہو، حکومت نہیں چلا سکتے ہو تو پھر حکومت اور سیاست کیسی؟ غریب عوام اپنے مسائل خود ہی حل کرلینگے۔ شرط یہ ہے کہ ان کو ان کے اگلے پچھلے سارے حساب دے دو.... دوسرے الفاظ میں ایماندارانہ، بے لوث قیادت اور حکومت دو یا کھرا حساب؟ ان میں سے کسی ایک کا فیصلہ کرلو ورنہ یاد رکھو ان دونوں میں سے کوئی ایک فیصلہ بھی اگر عوام نے خود اپنے ہاتھوں کرلیا تو اس کے سیل بے امان کے سامنے رُک نہ سکو گے۔ تاریخ دان ان تمام ناگفتہ بہ حالات میں حسب سابق اپنا فیصلہ عوام کے حق میں لکھنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔