آج کی نسبت مشرق وسطیٰ کیلئے ہے۔ 2 دسمبر کو متحدہ عرب امارات کا اسلام آباد میں تہوار قومی دن منعقد ہوا۔ یکم دسمبر 1971ء اماارات کی تشکیل عظیم کا دن ہے۔ یہ تشکیل الشیخ زید بن سلطان النھیان کے ہاتھوں مکمل ہوئی تھی۔ یکم دسمبر 46واں قومی دن تھا۔ اس وقت امارات کے صدر محترم عزم مآب الشیخ خلیفہ بن زید النھیان ہیں جبکہ محترم الشیخ محمد بن راشد المکتوم امارات کے نائب صدر اور وزیراعظم ہیں۔ عزت مآب الشیخ محمد بن زید النھیان کرائون پرنس ابودوبئی اور ڈپٹی سپریم کمانڈر آف آرمڈ فورسز ہیں جبکہ بطور صدر الشیخ خلیفہ بن زید النھیان سپریم کمانڈر ہیں۔ ابودوبئی کی طرح ابوظہبی بھی عالمی شہرت رکھتا ہے۔ بیروت کو لبنان کی خانہ جنگی نے تباہ و برباد کیا تو اسکی جگہ متحدہ عرب امارات سامنے آ گیا تھا۔ دنیا بھر کی دولت، کاروبار، ڈپلومیسی، آرٹ اور کلچر امارات کی معرفت عروج پر ہے۔ یہ نکتہ صرف الشیخ زید جیسا نابغہ و عقبری ہی سوچ سکتا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں اور خلیج عربی کے کنارے چند ریاستوں کا اتحاد و انضمام نئی وسیع المشرف عرب دنیا کا عظیم نام بن سکتا ہے۔ ہم اس عظیم عبقری الشیخ زید کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں اور صدر محترم الشیخ خلیفہ اور نائب صدر الشیخ محمد بن راشد اور الشیخ محمد بن زید النھیان کرائون پرنس کو سفیر محترم عزت مآب حمد عبید ابراہیم سالم الزابی کی وساطت سے ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں۔ 2 دسمبر کو خود سفیر محترم حمد الزابی نے سفارتی، عسکری معاون اور جناب عبدالعزیز النیادی قائم ابالاعمال، جناب ناصر الکتبی کے ہمراہ مہمانوں کا استقبال کیا۔ عزت مآب حمد الزابی نے انگریزی میں متحدہ عرب امارات کے سال 2017ء کی کارکردگی اور سال 2018ء کے عزائم پیش کئے جو عظیم ترین سیاسی، اقتصادی اور سوشل و کلچرل اہداف حاصل ہوئے اسکی وضاحت کی۔ نوجوانوں کو امور مملکت میں شرکت کا نادر مو قع 22 سالہ محترمہ شامہ بنت سہیل فارس المزروہی وزیر مملکت امور نوجواناں کے ذریعے میسرہے۔ ایک انگریزی روزنامے نے امارات قومی دن کے حوالے سے خصوصی اشاعت پیش کی۔ اس تقریب میں بچوں نے بہت عمدہ قومی اماراتی نغمے عربی زبان میں پیش کئے اور اماراتی کلچر کو ڈاکومنٹری کے ذریعے حاضرین کے سامنے پیش کیا گیا۔ آغاز تقریب پر اماراتی و پاکستانی قومی ترانے پیش کئے گئے۔ سفارتی و پاکستانی وسیع المشرب حلقوں کی کثیر تعداد موجود تھی۔ چند روز پہلے ریاض میں اسلامی عسکری اتحاد کا پہلا باضابطہ اجلاس منعقد ہوا۔ جنرل راحیل شریف کو باضابطہ طور پر اتحاد کا کمانڈر مقرر کیا گیا۔ کرائون پرنس محمد بن سلمان نے اس تقریب کا افتتاح کیا۔ بیشتر اسلامی ممالک کے وزرائے دفاع یا خارجہ نے ریاض میں تشریف لانا اعزاز سمجھا۔ ہمارے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور جنرل قمر جاوید باجوہ آرمی چیف نے خصوصی طور پر وزیر دفاع کے ہمراہ شرکت کی۔ حال ہی میں پاکستانی عسکری سپیشل سروسز دستہ نے سعودی فوجی سپیشل فورسز دستہ کے ہمراہ الشہاب دوئم مشقیں کیں۔ الشہاب اول مشقیں اسلام آباد میں ہوئی تھیں۔ اس وقت پاکستان اور سعودی عرب انتہا پسندی، دہشت گردی، فتنہ و فساد کے خلاف اتحادی ممالک ہیں۔
شہزادہ محمد بن سلمان کی شخصیت کا ہم نے بھرپور مطالعہ کیا ہے۔ وہ 31 اگست 1986ء کو پیدا ہوئے یوں وہ ’’ورگو‘‘ شخصیت ہیں۔ نہایت منظم، نہایت ذہین اور ’’تکمیل امر‘‘ میں فنکارانہ نئے اسلوب کو اپنانا انکی شخصیت کا وصف ہے کہا جا رہا ہے کہ انہیں بہت سی اندرونی اور خاندانی مخالفتوں کے شدید خطرات درپیش ہیں۔ کچھ مغربی تجزیہ نگار خاندانی پھوٹ اور رنجشوں کو ’’نئے مدوجزر‘‘ کی بنیاد بناتے ہیں مگر ہم انہیں نوجوان کرائون پرنس فیصل آل سعود سے تشبیہ دیتے ہیں جس نے دلیری سے آل سعود سے شہزادوں اور شہزادیوں کو ’’لگام‘‘ ڈالی تھی۔ انکی آمدن کو بہت کم اور محدود کیا تھا۔ فضول خرچی اور عیاشی کے دروازے بند کردیئے تھے۔ شاہ فیصل اور شاہ خالد سودھیری والدہ کے بیٹے نہیں بلکہ ان کی والدہ الگ الگ تھیں۔ البتہ سودھیری والدہ کے ’’سات بیٹوں‘‘ نے شاہ سعود کی معزولی کے وقت نئے شاہ فیصل کا بھرپور ساتھ دیا تھا کچھ تجزیہ نگار غلط خاندانی باتیں لکھتے رہے ہیں اس لئے اصلاح کی ہے۔ ہمارے خیال میں محمد بن سلمان جامد قبائلی اور متشدد مذہبی سوچ کیخلاف ردعمل عہد رہے۔ وہ سعودی عرب کو حجاز یعنی مکہ و مدینہ سے محروم کردینے کی سازشوں سے لیکر مذہبی سازشوں کو کچلنے میں مصروف ہیں کچھ مذہبی انتہا پسند انکے حوالے سے غلط خبریں یا افواہیں پھیلاتے رہتے ہیں۔ ہمارے مطالعہ شخصیت کیمطابق چھ ماہ بعد ممکن ہے۔ اپریل، مئی، جون میں محمد بن سلمان کو اصل اقتدار چیلنج درپیش ہو سکتا ہے مگر انکی علاقائی اور عالمی سیاست میں انکے قریبی دوست انکی فوری مدد کرینگے ۔ انشاء اللہ۔ آل سعود میں دشمنی، پھوٹ، بغاوت کی باتیں کچھ بیمار ذہن کرتے اور لکھتے رہتے ہیں مگر محمد بن سلمان کو بھی مذہبی اور کلچرل معاملات میں زیادہ تدبر و فراست درکار ہو گی۔ بحر احمر کے کنارے نئے اقتصادی عظیم شہر کو بسانا بہت بڑا کام ہے جس سے سعودیہ کی ہئیت تبدیلی ہوگی، جیسے گوادر بننے سے پاکستان علاقائی طور پر زیادہ موثر ہو جائیگا ایسے ہی بحراحمرکے کنارے نئے اقتصادی زون شہر میں نیا سعودی، و عربی اقتصادی اور کچرل ماحول ہوگا۔ شہزادے نے نوجوانوں کے خوابوں کی تعبیر بننا اپنا ہدف بنایا ہے ایک صدی سے حقوق نسواں جو زبردستی چھینے گئے تھے انہیں خواتین کو واپس کرنے کا تیز رفتار عمل شروع کیا ہوا ہے۔ شہزادے نے شیعہ ملک کیخلاف ماضی کے مخصوص مذہبی رویوں میں بنیادی تبدیلی کی ہے اور ریاست اور اسکے مفتیان کی طرف سے شیعہ مسلک کو دین کا حصہ تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ بہت بڑی ’’پالیسی تبدیلی‘‘ ہے۔ جامد مذہبی رویئے اس عمل کے مخالف ہیں لہٰذا انہیں نظربند کیا گیا ہے۔ آل سعود شہزادوں اور شہزادیوں کی کرپشن کیخلاف ریاستی عمل تیز رفتار ہے۔ یہ سب کچھ ایک دلیر اور عبقری نوجوانی قائد ہی کر سکتا ہے۔یاد رہے اماراتی کرائون پرنس محمد بن مرید النھیان اور سعودی شہزادہ دوست ہیں۔
یاد رہے عالمی سطح پر شہزادہ محمد تیسری عالمی مقبول شخصیت تصور ہوئے ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور سعودیہ اب 5 دسمبر سے عسکری‘ اقتصادی‘ ثقافتی اور سیاسی طور پر نیا اتحاد ہے۔ خلیج تعاون کونسل کے زیراہتمام امیر کویت نے کونسل کا اجلاس بلا کر امیر قطر الشیخ تمیم بن حمد الثانی کو بھی مدعو کیا مگر شاہ سلمان آل سعود اور صدر امارات الشیخ خلیقہ النہیان نے نہ صرف بائیکاٹ کیا بلکہ جی سی سی سے الگ سعودیہ و امارات کا نیا اتحاد بنا لیا ہے۔ یوں قطر کا جو بائیکاٹ سعودیہ‘ امارات‘ بحرین‘ مصر نے کر رکھا ہے وہ بدستور موجود رہے گا۔ کالم کے آخر میں ہم یمن کی نئی کشمکش کا ذکر کرینگے۔ 4 دسمبر کو سابق صدر علی عبداللہ صالح کو حوثی فورس نے ان کا محاصرہ کر کے قتل کر دیا۔ انکے سیاسی ساتھیوں سمیت 200 افراد قتل ہوئے۔ حوثی فورس کے عبدالمالک حوثی نے انہیں دوبارہ سعودیہ کی طرف جانے کی پاداش میں قتل کیا۔ چند ہفتوں میں حوثی فورس اور سابق صدر علی عبداللہ صالح میں سیاسی اتحاد کا ٹوٹنا یمن میں نئی سول وار کا پیش خیمہ تصور کیا جا رہا ہے۔ احمد علی عبداللہ صالح نے اعلان کیا ہے کہ اسکے باپ کا قاتل ایرانی ایجنسیاں ہیں کیونکہ سابق (مقتول) صدر نے یمن کے عوام کے مفادات کا تحفظ کیا تھا۔