انگریزی زبان کی مشہور کہاوت ہے کہ ’’An Apple a day keep Doctor away ‘‘لیکن میرے مشاہدات مجھے بتاتے ہیں کہ ’’Eat Two Apple a day and keep Doctor an Hospital away ‘‘ اس کا مطلب ہے کہ دن میں دو سیب کھائو اورڈاکٹر اورہسپتال کو اپنے قریب مت آنے دو۔
گذشتہ روز پھر ایک بار مجھے ناسازیٔ طبیعت کی بنا پر آدھی رات کے وقت ہاسپٹل جانے کا اتفاق ہوا۔ دو گھنٹے کی تھکا دینے والی مسلسل مسافت کے بعد لاہور داخل ہوتے ہی ایک نجی پرائیویٹ ہاسپٹل کے ایمرجنسی وارڈ اور سٹاف کے حوالے خود کو کر دیا۔ قارئین آپ کو یاد ہوگا کہ آج سے چھ سال پہلے بھی میں ایسی ہی ایک سچوایشن سے دوچار ہوا تھا مگر اس وقت شیخ زید ہسپتال کے چیئرمین میرے ذاتی اور فیملی دوست پروفیسر ڈاکٹر محمد سعید اور اُن کی ٹیم ڈاکٹر اکبر، ڈاکٹر نصیر اور ہردلعزیز ڈاکٹر احمد عالم گیر اور شیخ زید کے پروفیشنل کوالیفائیڈ پیرامیڈیکل سٹاف نے میری زندگی کے لمحات کو محفوظ بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ مگر اب کی بار میں کینال روڈ پر جس ہاسپٹل پہنچا اس کا لاہور کے اداروں میں ایک بڑا نام ہے۔ ایمرجنسی استقبالیہ وارڈ میں ایک ینگ ڈاکٹر نے بتایا کہ محترم فکر کی کوئی بات نہیں مگر آپ اپنے بلڈ ٹیسٹ آج اسی بہانے کروا لیں گے۔ میرے مثبت جواب پہ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ان ٹیسٹوں کی تکمیل کے لیے آپ کو آج رات ہمارے پاس ایڈمٹ ہونا پڑیگا۔ پھر رجسٹریشن کا ایک سلسلہ شروع ہوا ، زرِ ضمانت کے طور پر ایک خطیر رقم کی ڈیمانڈ کی گئی۔ میں نے ہاسپٹل کے فنانس ڈیپارٹمنٹ سے استفسار کیا کہ کیا آپ کریڈٹ کارڈ قبول کرتے ہیں؟ کیونکہ موجودہ ملکی ابتر حالات میں کوئی بھی شخص بڑی خطیر رقم کے ساتھ سفر کرنے سے اجتناب کرتا ہے۔ ہاسپٹل فنانس ڈیپارٹمنٹ کی کارڈ سویپ کرنے والی مشین خراب ہے لہٰذا مجھے کسی اے ٹی ایم مشین سے پیسے نکلوا کر لانے ہوں گے۔ انتظامیہ کی ڈیمانڈ پوری ہونے کے بعد ٹیسٹوں کالامتناہی سلسلہ شروع ہوا مجھے ایک پرائیوٹ وی آئی پی کمرہ دے دیا گیا۔ جہاں ایک عدد ڈرپ مجھے لگا دی گئی اور پھر اگلے پانچ گھنٹے کوئی بھی سٹاف ممبر خبرگیری کے لیے دستیاب نہیں تھا۔اور علی الصبح ایک ینگ ڈاکٹر تشریف لائیں اور پروفیشنل سوالات پوچھنے کی بجائے واک پر لیکچر دے کر چلی گئیں اس دوران وقفے وقفے سے میرے ساتھ آئے کزن اور عزیز ڈاکٹر کے کہنے پر ہاسپٹل فارمیسی کا چکر لگاتے رہے مگر چھ گھنٹے مسلسل ڈرپ بند رہنے اور ایک بھی ٹیبلٹ یا انجیکشن راقم کو نہ دیا گیا اور جب میں نے تقاضا کیا کہ میرے ٹیسٹ تو مکمل ہو چکے ہیں اور میرے یہاں ٹھہرنے کی مزید کوئی وجہ نہیں اس لیے مجھے ڈسچارج کیا جائے مگر ہاسپٹل ڈاکٹرز اور انتظامیہ نے شاید یہ خیال کر لیا کہ راقم کوئی ’’موٹی آسامی‘‘ ہے اس لیے وہ مجھے ڈسچارج کرنے پر آمادہ نہ تھے اور اسی دوران میری ڈیمانڈ پر بھی مجھے میری میڈیکل رپورٹس اور ڈسچارج سڑٹیفکیٹ مہیا نہیں کیا جا رہا تھا تو پھر میں نے ہاسپٹل ایڈمنسٹریٹر جو کہ ایک سابق آرمی آفیسر تھے کو پچھلے آٹھ گھنٹے سے چلنے والے ڈرامے سے آگاہ کیا۔ موصوف چونکہ شریف النفس انسان لگ رہے تھے اور ان سے تعارف ہونے کے بعد انہیں انتظامیہ اور ڈاکٹر ز کی غلطی کا ادراک ہوا جبکہ ایک انتہائی لالچی ڈاکٹر جو صرف اپنے مفادات کی خاطر مریضوں کو تنگ کرنے کا تہیہ کیے بیٹھے تھے کی پوری کوشش تھی کہ میں نے جو ایڈوانس زرِضمانت ہاسپٹل کے پاس رکھا ہوا ہے اس میں سے ایک ایک پیسہ یہیں صرف ہو جائے۔
قارئین میں پاکستانی قوم کی تقدیر بدلتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں اور پُرامید بھی ہوں کہ اقبال کا خواب اور قائد کی تعبیر ایک دن ضرور پوری ہو گی۔ اس مملکت کے ڈاکٹرز، انجینئرز، اساتذہ، مزدور، طالبعلم ، دانشور اور لکھاری قوم کے معمار ہیں مگر فرد واحد کو فائدہ پہنچانے کے لیے اس مخصوص طبقے کا مافیا کی طرز پر اکٹھے ہو جانا تشویش ناک ہے۔ آئے روز ینگ ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل سٹاف کی ہڑتالیں کروا کر عوام کو تنگ اور حکومت کو بلیک میل کرنا ایک وطیرہ بن چکا ہے۔ اس لیے آئے روز ہسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈز تک جبراً بند کر دیئے جاتے ہیں۔ مسیحائی کا دعویٰ کرنے والے موت کے فرشتے بن جاتے ہیں۔
جب یہ لوگ میٹرک میں اچھے نمبروں سے پاس ہو کر میڈیا کو انٹرویوز دیتے ہیں تو خدائی اور عوامی خدمت کے دعوے کرتے ہیں مگر عملی طور پر حالات کچھ یوں ہیں کہ ہر تیسرا ڈاکٹر حکومت پاکستان کے لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کروا کر ہائوس جاب کے مکمل ہوتے ہی امریکہ، کینیڈا ،مڈل ایسٹ اور یورپ بھاگ جاتے ہیں۔ اور نرسنگ اسٹاف کے اخلاق کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج دنیا میں نرسنگ پروفیشنلٹی میں پاکستان کا نمبر ایک سو پانچواں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود امیر مسلم ممالک میں بھی سارا نرسنگ سٹاف فلپائن، تھائی لینڈ اور سائوتھ امریکن ممالک سے بلوایا جاتا ہے۔ بات کسی ایک ادارے کی نہیں ہو رہی میں پچھلے پینتیس سال سے تعلیم اور کاروبار کے سلسلے میں یورپ اور نارتھ امریکہ میں مقیم ہوں جہاں پر انسان کو ریاست یا تو بالکل فری میڈیکل سہولیات مہیا کرتی ہے یا ایک برائے نام معاوضہ کے عوض میڈیکل انشورنس مہیا کی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں حالات کچھ اس طرح ہیں کہ شریف برادران، بھٹو خاندان، زرداری، مخدومین، ٹوانے، مزاری، لغاری، جمالی، خٹک اور بلوچ سرداروں کی اولادیں ممبران پارلیمنٹ، کابینہ کے ممبران اور ان سب کا علاج یورپ کے فائیوسٹار ہاسپٹلز میں ہوتا ہے جبکہ بائیس کروڑ عوام کے لیے عطائی، حکیم اور ہومیوپیتھک علاج سردست دستیاب ہیں۔ کیا پنجاب کے وزیر صحت عمران نذیر یا پھر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سوموٹو ایکشن لیں گے؟ یا پھر اس ملک کی ایلیٹ کلاس اس کالم کے صفحات کو پکوڑوں اور سموسوں کے لیے استعمال کریگی۔