پتھر کا دور اور آج کا انسان
آج بے شک دنیا ترقی کے اس مقام پر جا کھڑی ہوئی ہے جہاں سے نہ تو اس کی طے شدہ مسافت کو ریکارڈکیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کی آئندہ سرگرمیوں و کارکردگی پر نظر رکھی جا سکتی ہے۔ ہاں بس ظن و قیاس کی عینک سے پل پل رنگ بدلتی اس دنیا کوبدلتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ٹیکنالوجی کی بدولت ہماری زندگی کا ہر شعبہ اس وقت 99 کی سپیڈ سے دوڑ رہا ہے لیکن اس تیز رفتاری زندگی سے کیا ہمارے تمام مسائل حل ہوگئے ہیں یا ان میں اور زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ انسان ترقی کے نام پر ایسی جگہ پہنچ چکا ہے جس کا اس نے کبھی وہم و گمان بھی نہیں کیا تھا۔ برقی روشنی اسے تاریکیوں کے ماحول سے نکال تو لائی لیکن دل بجھ گئے۔ دلوں سے عزت‘ محبت‘ احترام‘ غمگساری جیسے جذبات رخصت ہو گئے۔ کتابیں سمٹ کر الماریوں اور صندوقوں کی زینت بن گئیں۔ رشتوں ناطوں کی خبر گیری انگلیوں کے پوروں پر ہونے لگی۔ بوڑھے والدین بچوں کے محبت بھرے لمس اور مسکراہٹ کو ترستے ہوئے اپنے کمروں تک محدود ہو گئے۔ اذکار ‘ درس قرآن درس حدیث کی جگہ زیادہ سے زیادہ شیئر کریں اور ثواب کے حقدار بنیں جیسے فاروروڈ میسجز نے لے لی۔ ہر کسی کے ہاتھ میں جدید طرز کا فون ہے جس میں ساری دنیا بھر کے رابطے موجود ہیں اور وہ ہر نئے انجان رشتے کو نبھاتا بھی ہے لیکن ایک ہی گھر میں رہنے والے دو انسان ایک دوسرے سے بیٹھ کر باتیں نہیں کر پاتے کسی کو خبر نہیں ہوتی کہ کس کی زندگی میں کیا چل رہا ہے اور گھر کا ایک مکین کس مسائل سے دوچار ہے۔ آج کوئی جیے یا مرے کسی کو کسی سے کوئی غرض نہیں ۔ عرصہ ہوا سینکڑوں کی بھیڑ میں ایک عورت اپنے معصوم بچوں کے ساتھ بھوک‘ غریبی اور قرض سے تن آ کر خود کو آگ لگا لیتی ہے لکین سارا مجمع خاموش بے حس تماشائی بن کر فقط اپنے پانے ہاتھوں میں موبائل سے ویڈیو بنانے میں مشغول رہا۔ ایک دوست دریا میں ڈوب گیا‘ دوسرا دوست اس کی جان بچانے کے بجائے اس کی ویڈیو بنانے میں مشغول رہا۔ کیا ہم واقعی انسان ہیں؟ کیا یہ اسی ترقی کا دور ہے جس کیلئے انسان نے اپنا وقت‘ پیسہ‘ نیند‘ آرام‘ چین‘ رشتے‘ ناطے‘ پیار ‘ محبت‘ مروت و ہمدردی غرض سب کچھ نچھاور کر دیا۔ اگر یہی ترقی ہے کہ انسان انسان کی عزت اور خون کا پیاسا ہو جائے تو ایسی ترقی کا کیا فائدہ؟ خدمت خلق اور انسانیت سے بے لوث خدمت کا جذبہ رکھنے والے بہت سے متوالے‘ اس طرح کے دلدوز رقت ناک واقعات کو جلد سے جلد بیس پچیس گروپ میں اپ لوڈ کرنے کی انتھک کوششوں میں لگ جاتے ہیں اور فرض کر لیتے ہیں کہ وہ بہت اعلیٰ قسم کے سماجی خدمت گار ہیں یہ دور ترقی کا نہیں بلکہ پتھر کا دور ہے جہاں انگلیاں چلتی ہیں اور دل و دماغ اس کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔ غور کریں تو سمجھ آتا ہے کہ انسان جہاں سے چلا تھا وہیں پر آ کر ٹھہر گیا۔ اس سے بہتر تو پتھر کا دور تھا جہاں انسان خانہ بدوشی کی حالت میں ہی سہی لیکن اپنوں کے ساتھ گروپ بنا کر رہتا اور جہاںاس کا قبیلہ ہوتا وہ اس کے ساتھ ہی ہوتا، ہم آج ساتھ رہ کر بھی تنہا ہیں بالکل سمندر کے جزیروں کی طرح جو کنارے سے دیکھنے پر ایک ساتھ لگتے ہیں قریب ہوتے جاؤ تو پتہ چلتا ہے کہ تمام جزیرے الگ الگ ہیں۔ آج انسان ترقی میں اتنا آگے جا چکا ہے کہ اسے کسی کی رہنمائی چاہئے نہ بزرگوں کے تجربات کی روشنی۔ آج انسان کے قریبی رشتے دار مزید دور کے رشتے دار بن گئے ہیں اور پڑوسی ازلی دشمن کا روپ دھار گئے ہیں۔ محبت ‘ خیر خواہی اور غمگساری جیسے الفاظ اس دنیا سے ختم ہو چکے ہیں‘ ٹیکنالوجی آپ کے پیغام‘ نظریے‘ صلاحیت کو کم وقت میں دنیا کے سامنے پیش کرتی ہے اس سے زیادہ کی توقع کرنا فضول ہے۔ آپ کے اردگرد ایک دنیا ہے جسے حقیقی دنیا کہا جاتا ہے اور اس دنیا کو آپکی زیادہ ضرورت ہے ۔ دن بھر سوشل میڈیا پر بلاوجہ بحث و مباحثہ میں انسان کا شامل رہنا یہ ایک ایسی لاشعوری عادت بن چکی ہے جس نے اچھے اچھوں کا خانہ خراب کر دیا ہے اس لئے ہر چیز کا استعمال ایک دائرے میں رہ کر کرنا چاہئے ورنہ فائدہ دینے والی ٹیکنالوجی بھی نقصان کا سبب بنتی ہے۔