Sister Ports
پاک ایران دونوں برادر اسلامی ملک آپس کے قریب قریب ہیں۔ کاروباری لین دین ہو یا بجلی ،تیل وگیس کی ضروریات ان سے مستفید ہونے کے لئے پاک ایران تعلقات بہتر رہے ہیں۔ایران سے آنے والی گیس پائپ لائن پر بھی ایران کی جانب سے کام تقریباًمکمل ہوکر رہ گیا ہے ۔دوسری جانب ایران پاکستان کے سرحدی علاقوں کو بجلی بھی فراہم کر رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان بھی ایران کے ساتھ اپنے تعلق کوترجیح دیتاہے،ایران اور عراق کے مقدس مقامات کی زیارتوں کیلئے پاکستان سے جانے والے زائرین بلوچستان کے علاقے تفتان پاک ایران سرحدسے جاتے رہتے ہیں۔اس حوالے سے سینکڑوں کوچز کے توسط سے زائرین بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ سے سات سو کلومیٹردور حکومت کی جانب سے دی گئی سیکورٹی کی صورت میں تفتان پہنچتے ہیں۔اس سلسلے میںحکومت کثیر اخراجات برداشت کرتے ہوئے زائرین کی بحفاظت آمدورفت کو یقینی بناتی رہتی ہے ،سیکورٹی فورسززائرین کے قافلوں کو سیکورٹی فراہم کرتی ہیںجوکہ زائرین کی بڑی تعداد کا تعلق سندھ، پنجاب اور گلگت بلتستان سے ہوتا ہے یہ لوگ بذریعہ سڑک مختلف علاقوں سے کوئٹہ اور پھر وہاں سے تفتان جاتے ہیں۔اسی طرح اقتصادی حوالے سے پاک ایران تعلقات خوشگوارہیں۔چاہ بہار بندرگاہ اور گوادر پورٹ کو’’ سسٹر پورٹ‘‘ قرار دیا گیاہے۔تاہم بھارت کی جانب سے یہ کوشش ہے کہ چاہ بہار بندرگاہ کی فعالیت سے گوادر کی اہمیت کم ہوجائے گی ، ایسا ہرگزنہیں جنوبی ایشیاء دنیا جہاں کا وہ خطہ ہے جہاں پر قدرتی طور پر نعمتیں وافر مقدار میں موجود ہیں۔وسطی ایشیائی ممالک اور سینٹرل ایشیاء سمیت یورپ تک ان ممالک کے لئے درآمدات او ربرآمدات کے لئے یہ دونوں’’ Sister ports‘‘ بہترین کردار ادا کر سکتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایران کے صدر حسن روحانی نے چاہ بہار بندرگاہ کا افتتاح کیا تو پاکستان ، بھارت اور افغانستان سمیت دیگر ممالک کے نمائندے بھی وہاں موجود تھے۔مگر دوسری جانب بھارت چاہ بہار کو گوادرپورٹ کے مقابلے میں پیش کرتا رہا ہے۔تاہم پاکستان اور ایران نے ہمیشہ دیگر معاملات کی طرح بندرگاہوں کی سہولیات کو آپس کے اتفاق پر رکھا ،اور ایران نے سی پیک میں تعاون کا یقین بھی دلایا ہے ، یعنی چاہ بہار اور گوادر ایک دوسر ے کے لئے معاون کے طور پر کام کریں گے، ویسے بھی ان دونوں کا آپس کا فاصلہ تقریباً ستر کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ہمسائیگی کے طور پر بھی آپس کا تعاون ان کا حق بنتا ہے۔طویل المدت عالمی پابندیوں کے بعد ایران پر تجارتی اور اقتصادی مشکلات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ایران اپنی پرانی طرزپر جاری منصوبہ بندی برقرار رکھتے ہوئے اقتصادیات پر توجہ دے رہا ہے۔پہلے پہل توبین الاقوامی طور پرپابندیوںنے اسے مجبور بنا کے رکھاتھا۔تاہم جب ایران پر پابندیاںدور کی گئیں توایران نے اقتصادی صورتحال پر توجہ دینے اور دنیا کے ساتھ تجارت کو فوقیت دینے کے لئے بندرعباس کے بعد چاہ بہار پر توجہ دینا شروع کردی۔یہ خو ش آئند امر ہے کہ گوادر اور چاہ بہار دونوںپورٹس خطے کے ممالک کے لئے کارآمد ثابت ہوں گی۔جنوبی ایشیاء کے حوالے سے کاروباری لحاظ سے عالمی تجارتی ادارے ان دونوں بندرگاہوںکو استعمال کر سکتے ہیں ۔انہی کے توسط سے افغانستان سمیت وسط ایشیائی ممالک اوراس کے علاوہ جاپان ، جنوبی کوریااور یورپ کے بعض ممالک بھی انہیں استعمال کریں گے۔ جن کے استعمال سے پاکستان اور ایران کو سالانہ اربوں ڈالر کا فائدہ ہو گا۔2002 میں شروع ہونے والی گوادر بندرگاہ 2006میں مکمل ہوگئی ، اس پر سامان کی ترسیل شروع کر دی گئی ہے، مگر گوادر بندرگاہ کے برتھوںمیں مزید اضافہ اور موجودہ کو تیزی سے فعال کرنے کی ضرورت ہے، تاہم وفاقی حکومت کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ گوادر بندرگاہ اپنی نوعیت میں منفرد ہے ، گوادر بندرگاہ کے مکمل فعال ہونے سے حاصل ہونے والا ریونیو توقعات سے زیادہ ہوگا۔ گوادر بندرگاہ پر کام کرنے والی چینی کمپنی تعمیرات پر پانچ ارب ڈالر خرچ کرے گی۔کیونکہگوادر کی بناء پر سی پیک نے پاکستان کومعاشی دنیا کا پسند یدہ ملک بنادیا ہے جس کے باعث پاکستان 2025ء میں دنیا کی بہترین معیشتوں میں شامل ہوجائے گا۔ سی پیک گوادر سے کاشغر سینٹرل ایشیاء کے ممالک تاجکستان ودیگر تک رابطوں اور استحکام کے نئے مواقع پیدا کرے گا۔دوسری جانبمیڈیا رپورٹس کے مطابق ایرانی صدر حسن روحانی نے چاہ بہارپورٹ کے پہلے مرحلے کا باقاعدہ افتتاح کر دیا ہے۔پہلے مرحلے میں چاہ بہار بندرگاہ ایران کی اپنی ضروریات پوری کر رہاہے ، جس میں گندم ودیگر اشیاء چاہ بہار بندرگاہ سے بذریعہ سڑک ایران کے دیگر علاقوں میں پہنچائی جارہی ہیں۔چاہ بہار میں جاپان اور جنوبی کوریا نے بھی سرمایہ کاری کی ہے۔ لہذا حکومت مزید چابکدستی سے گوادر میں کام کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی توجہ کامرکز بناتے ہوئے اسے مکمل فعال کرے، جب یہ فعال ہو جائے گی تو آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ بنے گی۔گوادر پورٹ کے برتھوں کوبھی بڑھایا جائے اورگواد ر میں خاص کر پانی کابھی مکمل طور پر بندوبست کیا جائے تاکہ گوادر بندرگاہ معیشت اورتجارت کو بیرونی منڈیوں تک رسائی کے لئے موثر ذریعہ ثابت ہو۔یہ امر باعث افتخار ہے کہ چاہ بہار اور گوادرپورٹس ایک ہی خطے میں موجوددرآمدات اور برآمدات کے لئے کار گر ثابت ہوں گی۔چاہ بہار کے افتتاح کے موقع پر چین نے بھی اسے خوش آئند قرار دیا ہے کیونکہ یہ امر حقیقی ہے کہ ایسے منصوبہ جات پاکستان اورچین کی سوچ سے ملتے جلتے ہیں۔دوسری جانب چاہ بہار اور گوادر بندرگاہ خطے کے ممالک میں آپس کے تعاون کو بڑھائیں گی۔ان کے قیام سے ممالک کا ایک دوسرے کے ساتھ اقتصادی تعلقات بڑھیں گے جس سے خوشحالی آئے گی ۔