نا قابل تردید حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اکیسویں صدی کی دورسری دہائی کے وسط میں اپنی تاریخ کے ایک انتہائی پر آشوب دور سے دو چار ہو چکا ہے۔ خیبر سے کراچی اور بولان تک کی فضا میں احتساب کے خوف سے سراسیمگی کی سی کیفیت طاری ہے۔ ہر سطح کے جمہوری اداروں سمیت اقتدار کے ایوانوں کے درو بام لرز رہے ہیں اور ان میں براجمان اشرافیہ کے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد میں احتساب کے خوف نے ہلچل مچا رکھی ہے ملک بھر کی ایسی سہمی ہوئی فضا میں اپنی تمام تر مجبوریوں بے بس زندگیوں اور ناگفتہ بے اقتصادی حالات کے باوجود جو احتساب کے نتائج سے بے پرواہ ہیں تو وہ ملک بھر کے عوام ہیں۔ جنہیں ہر نئے دن احتساب کے خوف سے درختوں کے پتوں کی طرح لرزتے سیاستدانوں، جمہوری اداروں کے نمائندوں اور اشرافیہ کے برسراقتدار نمائندوں کے متضاد بیانات سننے کو ملتے ہیں۔ ان کروڑوں لوگوں کیلئے اچھنبے کی بات یہ ہے کہ احتساب کی چکی میں پسنے والوںکو ہر حالت میںاپنے اپنے بچائو کی فکر دامن گیر ہے۔ احتساب ان لوگوں کا ہوتا دکھائی دیتا ہے، جنہوں نے شاخ اقتدار پر بیٹھ کراپنے دل سے خوف خدا کو ’’خدا حافظ‘‘ کیے ہوئے ملکی اور قومی دولت کا رخ اپنے اثاثوں میں اضافہ کیلئے مخصوص کر دیا۔ انکے ایسے کرتوتوں سے ملک کنگال اور کروڑوں عوام مفلس اور بد حال ہوگئے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ملکی اور قومی سرمایہ کو بیرون ملک اور اندرون ملک اپنے اثاثوں میں اضافہ پر اضافہ کرتے وقت نہ ملک کی حقیقی ترقی اور نہ ہی خط غربت سے نیچے کی زندگی گزارنے والے کروڑوں پاکستانی خاندانوں کی فلاح بہبود کے بارے میں سوچا نہ ہی کروڑوں بچوں، مردوں، جوانوں ، بوڑھوں اور عورتوں کو جسم و روح کا رشتہ بحال رکھنے کیلئے ضروری لوازمات کی فراہمی کے با رے میں غور کیا گیا اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ایسے نام نہاد عوامی رہنمائوں کا وطیرہ کبھی رتی بھر تبدیل نہیں ہوا۔ وہ جمہوری اداروں میں بیٹھے مفلس و قلاش عوام کے ٹیکسوں سے بھاری تنخواہیں اور مراعات حاصل کر رہے ہیں۔ اقتدار کے ایوانوں میں براجمان ہیں۔ یا ایوان اقتدار کی غلام گردشوں تک رسائی حاصل کرکے ارباب اقتدار کے حاشیہ نشینوں ، حواریوں اور خوشامدیوں میں شامل ہیں انہیں صرف اور صرف اپنے اور اپنے آقایان ولی نعمت کو احتساب کی چکی سے بچانے کی فکر ہے۔ اس کھیپ کو ملک کے حقیقی مسائل اور عوام کی اقتصادی مشکلات و مصائب سے نجات دلانے سے کوئی غرض نہیں کروڑوں عوام ملکی تاریخ کے بدترین اقتصادی اور معاشی بدحالی کے دور میں مبتلا ہو کر سسک رہے ہیں مگر ساون کے اندھوں کے مصداق اپنی کرپشن کے حوالے سے احتساب بلکہ اللہ کی پکڑ میں جکڑے ایوان اقتدار کے مکینوں کو سب اچھا ہے ہی لگ رہا ہے اور اشرافیہ کے ایسے تمام برسر اقتدار لوگ مسائل کو آگ میں سلگتے اور بلکتے عوام کی آواز پر کان لگائے بغیر ہر نئے دن اپنے تعریف و ستائش سے عبارت بیانات ہی جاری کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کروڑوں لوگ بھوکے ننگے زندگی کے دن گزار رہے ہیں اور ایوان اقتدار اپنے حقیقی فرائض کو مصلحتوں کے تحت ادا نہ کرنے کی روش اختیار کر کے اپنے بیانات سے عوام کو بھول بھلیوں میں ڈالنے کی ناکام کوشش کرنیوالے ارباب اقتدار کس منہ سے انسانی خدمت کے دعویدار ہو سکتے ہیں۔
ستم بالائے ستم یہ ہے کہ میدان سیاست میں مخصوص طرز عمل سے ناقابل فخر روایات و اقدار کو فروغ دینے والے گروہ میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے یہ کھیپ ایسی ایسی طے شدہ باتوں کو از سر نو متنازع بنانے پر ادہار کھائے بیٹھی ہے جس کا سارے فسانے میں ذکر تک نہیں ہوتا ایسی ہی کھیپ کے بعض بزر جمہروں کی طرف سے یہ ایشو، کھڑا کرنے کی سعی کی جا رہی ہے کہ ’’ طے کرنا ہوگا کہ پارلیمنٹ سپریم ہے یا کوئی اور ادارہ‘‘ انہیں کو کون سمجھائے کہ اگر ملک میں حقیقی جمہوریت ہو، اس جمہوریت میں ہر ادارے کو ملکی آئین اور قانون کے مطابق اپنا اپنا فرض ادا کرنے کی کھلی چھٹی ہو، اور پارلیمنٹ کا کام صرف اور صرف قانون سازی ہو، اور وہ بھی ایسی قانون سازی جو ملکی آئین کے عین مطابق ہو اور ایسی قانون سازی کا تعلق ارکان پارلیمنٹ کی ’’کرپشن‘‘ کو تحفظ دینا نہ ہو نہ ہی ارکان پارلیمنٹ کا کام سڑکوں، گلیوں کی تعمیر کے نام سے قومی اور ملکی بھاری رقوم، ہڑپ کرنا ہو اور نہ ہی پارلیمنٹ ایسی ہو جو اپنے احتساب کے خوف سے آئین میں طے شدہ اہم ترین امور کو از سر نو چھیڑ کر اپنی مرضی کی ترمیم کرے۔ تب تو ایسی پارلیمنٹ جمہوریت میں یقیناً سب اداروں سے سپریم ہوتی ہے۔ اگر کوئی پارلیمنٹ اپنے دانستہ یا نادانستہ اقدام یا فیصلے سے شخصی آمریت کی راہ ہموار کرنے کی روش پر گامزن ہو تو اسے کسی صورت جمہوریت میں سپریم مقام حاصل نہیں ہو سکتا۔ جمہوریت میں آئین میں دیئے گئے اختیارات کے تحت عام آدمی سے لیکر وزیراعظم تک کے جرائم پر انصاف کرنے کا اختیار عدالت عظمیٰ ہی کو حاصل ہوتا ہے کسی جمہوریت میں عدلیہ کے ایسے آئینی اور قانونی اختیارات پر پارلیمنٹ کا جز، بز ہونے پر صرف نظر نہیں کیا جاتا۔ کوئی نہیں جانتا کہ پاکستان میں عدلیہ اور قومی سلامتی کے ادارے ہر نامساعد حالات میں اپنے فرائض پورے کرتے رہے ہیں، اس حوالے سے اگر کبھی اعتراضات کی فضا نے جنم لیا، تو اس قسم کا شاخسانہ بھی مخصوص طرز فکر کے اس دور کے سیاست دانوںکے باعث ہوا جب بھی پاکستان میں جمہوریت کی آڑ میں شخصی آمریت کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی گئی تو وقت کے سیاسی میدان کے شاہسواروں میں ہی سے اس کیخلاف ببانگ دہل آواز اٹھائی گئی۔ اور تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ ایسے جبر کے حالات میں ضروری آئینی اقدامات اٹھانے کے مطالبات بھی سنے گئے۔ گویا سیاستدانوں کی ہوس اقتدار اور غلطیوں کے نتیجے میں ایسے حالات پیدا ہوئے جس پر اس وقت کی قوم نے بالخصوص محروم اور بے بس لوگوں نے سجدہ شکر ادا کیا۔
پاکستان میں وقت کے آمروں پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنے والے سیاستدانوں نے انکے مشن کو پورا کرنے کی بھی باتیں کیں اور آمروں کی طرف سے سیاستدانوں کی نسل کشی کے اقدامات پر مٹھائیاں تقسیم کرنے اور جشن منانے والے بھی سیاستدان ہوئے نے دعویدار تھے۔ رہا معاملہ زمینوں پر قبضے کا، تو اگر ارباب اقتدار کا یہ دعویٰ صحیح ہے تو یہ انکی ’’گڈ گورننس‘‘ پر بدنما دماغ ہے کہ بلا شرکت غیرے اقتدار و اختیار ہوتے ہوئے بھی قبضہ گروپ کے خلاف قانونی کارروائی پیش کی جاتی… قبضہ گروپوں کو من مانی کرنے کی اجازت دینے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اور اس سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ قبضہ گروپوں کے خلاف اقدامات نہ اٹھانے میں ارباب اقتدار کی اپنی مصلحتیں بھی حائل ہیں۔ کاش اقتدار کے ایوانوں میں قبضہ جمائے اشرافیہ کے نمائندوں نے خط غربت سے نیچے کی لکیر میں زندگی کو سسک سسک کر گزارنے والے ملک کے چالیس فیصد سے زیادہ کروڑوں عوام کی اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانے پر رتی بھر بھی توجہ دی ہوتی اس سلسلے میں نظر آنیوالے کسی اقدامات کے بغیر یہ دعویٰ کرنا کہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کردیا گیا ہے اور ملک جلد خطہ کی معاشی قوت ہوگا،عجیب لگتا ہے۔