24 اکتوبر 1947ء کو آزاد کشمیر حکومت کا باقاعدہ قیام عمل میں لایا گیا۔بیرسٹر سردار محمد ابراہیم خان صدر حکومت آزاد کشمیر مقرر ہوئے۔24 اکتوبر 2017 کو حکومت آزاد کشمیر کا 70 واں یوم تاسیس منایا گیا۔ آزاد کشمیر یونیورسٹی مظفرآباد کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد کلیم عباسی کی دعوت پر شریک اجلاس ہوا۔ محترمہ بیگم تنویر لطیف کی رہائش گاہ پر کشمیر کے حوالے سے ایک مخصوص نشست میں شرکت کی جس میں شاعر مشرق علامہ اقبال کی بہو جسٹس ناصرہ جاوید، سابق چیف جسٹس آزاد کشمیر منظور حسین گیلانی، سابق ایڈیشنل چیف سیکرٹری حکومت آزاد کشمیر نامور شاعر، کالم نگار اور دانشور اکرم سہیل، سابق ایڈیشنل چیف سیکرٹری اکادمی ادبیات علامہ جواد جعفری، ممتاز کالم نگار،دانشور اور مصنف بیرسٹر افضل حسین اور ڈاکٹر شاہین اختر نے شرکت کی۔ مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لئے مختلف تجاویز زیر غور آئیں۔ راقم الحروف نے دو تجاویز پیش کیں اول،پاکستان کی وزارت خارجہ میں ’’کشمیر سیکشن‘‘ قائم کیا جائے اور اس کی نگرانی ڈائریکٹر جنرل کرے۔ دنیا کے اہم ممالک میں ’’کشمیر ڈیسک‘‘ کھولے جائیں جو عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کریں۔ ان دفاتر میں کشمیر دانشور، صحافی، وکیل اور پروفیسرز کو تعینات کیا جائے دوم مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے باب کی دفعہ 6 کے تحت زیر بحث آتا ہے۔ اس دفعہ میں لکھا ہوا ہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں ’’باہمی مشاورت‘‘ سے مسئلہ حل کریں۔ اگر دونوں فریق رضا مند ہوں تو کسی ملک کو ’’ثالث‘‘ مقرر کرلیں، دریں اثناء کشمیر میں رائے شماری زیر نگرانی ایڈمنسٹریٹر اقوام متحدہ کرائی جائے، جو ملک جارح ہوا اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل نہ کرے اور جنگ کا خطرہ ہوتو جارح ملک سے سفارتی تعلقات منقطع کیے جائیں۔ اقتصادی پابندیاں عائد کی جائیں، اگر اس کے باوجود جارح ملک مسئلہ پر امن طریقے سے حل نہ کرے تو اقوام متحدہ کی فورسز جارح ملک پر فوجی کارروائی کرے گی۔ ایسی صورت میں میری تجویز کی اجلاس نے پرزور تائید کی اور حکومت پاکستان سے اپیل کی کہ اوآئی سی ممالک اور دیگر دوست ممالک سے رابطے کر کے اقوام متحدہ کے باب نمبر 7 کے مطابق کاروائی کی جائے۔ بھارت سے تمام ممالک سفارتی تعلقات منقطع کریں۔ اقتصادی پابندیاں عائد کی جائیں اور بھارت کے خلاف فوجی کاروائی کی جائے۔ 24 اکتوبر کو مظفرآباد یونیورسٹی میں یوم تاسیس حکومت آزاد کشمیر کی مناسبت سے تین اجلاس منعقد ہوئے۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر کلیم عباسی صاحب نے خطبہ استقبالیہ دیا جو نہایت ہی فکر انگیز اور ولولہ خیز تھا۔ مسئلہ کشمیر کی عالمی سطح کی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے انگریزی زبان میں مقررین نے خطاب کیا۔ کارروائی کی ویڈیو ریکارڈنگ کی گئی تاکہ اسے غیر ملکی سفارت کاروں کو بھی بھیجا جاسکے۔ اس ضرورت کے پیش نظر انگریزی زبان میں زیادہ تر تقاریر ہوئیں جو قابل تحسین امر ہے۔ شعبہ انگریزی کی چیر پرسن اور ڈین فیکلٹی ڈاکٹر عائشہ سہیل نے اسٹیج سیکرٹری کے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیئے اور تقریب کے مقاصد پر مدلل روشنی ڈالی۔ اس کے بعد صدر آزاد کشمیر سردار محمد مسعود خان صاحب نے انگریزی زبان میں فصاحت و بلاغت کے دریا بہادیئے۔ مسئلہ کشمیر کے ہر پہلو پر نہایت مدلل انداز میں تبصرہ کیا۔ سردار مسعود خان انگریزی اور اردو کے قابل رشک خطیب ہیں۔ وہ چین میں پاکستان کے سفیر رہے۔ نیویارک میں پاکستان کے سفیر برائے اقوام متحدہ رہے۔ عالمی امور اور سیاست پران کی گہری نگاہ ہے۔ آجکل وہ عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے دورے کررہے ہیں اور بھارت کی ہٹ دھرمی اور کشمیر میں بھارتی مظالم کو بے نقاب کررہے ہیں۔ ایسا قابل،دیانتدار اور صاحب نظریہ صدر خدا کی نعمت سے کم نہیں۔ تقریب کے پہلے سیشن میں ’’مسئلہ کشمیر اور نوجوانوں کی آواز‘‘ کے موضوع پر باغ، مظفرآباد، میرپور، راولاکوٹ اور کوٹلی کی یونیورسٹیوں کے نوجوان طلبہ وطالبات نے انگریزی زبان میں ولولہ انگیز تقاریر کرکے سامعین سے خوب داد وصول کی۔ تقریب کے دوسرے سیشن میں راقم الحروف، ڈاکٹر ولید رسول، ڈاکٹر عدنان، ادریس اور ڈاکٹر امجد عباس خان نے ’’مسئلہ کشمیر ،عالمی تناظر میں ‘‘ کے موضوع پر تقاریر کیں۔ اس سیشن کی صدارت ممتاز کالم نگار اور دانشور سابق چیف جسٹس آف آزاد کشمیر جناب منظور حسین گیلانی نے کی۔ تیسرے اور آخری سیشن کی صدارت علامہ اقبال کی بہو سابق جسٹس ناصرہ اقبال صاحبہ نے کی۔ ’’کشمیر مستقبل کی پالیسی‘‘ کے موضوع پر ڈاکٹر شاہین اختر صاحبہ،ڈاکٹر منصور اکبر کندی، پروفیسر عدنان رحمان اور بریگیڈئیر (سابق) ڈاکٹر محمد خان نے فکر انگیز تقاریر کیں۔ آخر میں وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے تقریر کی۔انہوں نے کہا کہ میرے پاس انگریزی زبان میں لکھی ہوئی تقریر ہے جو ’’دفتری تقریر‘‘ ہوتی ہے۔ میں اپنی طبیعت کا آدمی ہوں، لہٰذا انہوں نے فی الیدیہہ نہایت ہی دلچسپ تقریر کی جو درد دل کی بھی عکاس تھی۔ سیاسی بصیرت سے بھرپور اور کشمیر پاکستان کے لازم و ملزوم ہونے کے حوالہ سے شہکار تقریر تھی۔ وزیراعظم آزاد کشمیر نے تاریخ آزادی کشمیر پر روشنی ڈالی۔ نہتے کشمیریوں پر بھارتی افواج کے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے ان کی آواز بھرا گئی اور آنکھیں آنسوؤں سے نمناک ہوگئیں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ عالمی سفارتی سطح پر حکومت آزاد کشمیر اور کشمیر دانشوروں سے کام لیا جائے کیونکہ عالمی سطح پر کشمیریوں کی آواز کو پذیرائی مل رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کشمیریوں پر اعتماد کیا جائے کیونکہ کشمیری پاکستان کا ہر اول دستہ ہیں اور الحاق پاکستان کے علم بردار اور جان نثار ہیں۔ اُن کے خطاب کے بعد راقم الحروف کو بحیثیت ’’چیئرمین تجاویز کمیٹی‘‘ دعوت خطاب دی گئی ۔ میں نے مقررین کی تقاریر میں پیش کردہ تقریباً 20 تجاویز پیش کیں جن میں سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے حکومت آزاد کشمیر کو فعال کردار ادا کرنے کا موقع دیا جانا چاہئے اور کشمیری دانشوروں کا ’’حکومتی سطح پر تھک ٹینک‘‘ تشکیل دیا جائے۔ ہر پاکستانی اور ہر کشمیری انٹرنیٹ پر بھارتی مظالم کو بے نقاب کرے اور عالمی رائے کو ہموار کیا جائے کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر بھارت عمل پیرا ہو 25 اکتوبر کی صبح آزاد کشمیر کے اسپیکر شاہ غلام قادر کو فون کیا کہ اسمبلی سیشن میں شرکت کروں گا۔ شاہ غلام قادر ایک مدبر اور صاحب مطالعہ سیاست دان ہیں۔ میرے قریبی دوست ہیں۔ دو ماہ قبل میرے غریب خانہ پر اسمبلی رکن ’’خطیب کشمیر‘‘ صاحبزادہ علی رضا بخاری کے ساتھ تشریف لائے اور مسئلہ کشمیر کے حل پر پرمغز گفتگو ہوئی۔سپیکر چیمبر میں بیٹھ کر آزاد کشمیر اسمبلی کی کاروائی سنی جو بڑی سنجیدہ اور باوقار تھی۔ ہم بعدازیں سپیکر آفس میں بیٹھے تو وزیر اعظم اور چند وزراء بھی وہیں آگئے اور کشمیر کے مستقبل کے حوالہ سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ نشست دہی۔ وہاں بھی میں نے تجاویز دیں۔ اسمبلی میں صاجزادہ علی رضا بخاری کی تقریر شائستگی، بصیرت، رواداری اور قومی نقطہ نظر سے ایک تاریخی تقریر تھی۔ کشمیر کانفرنس کی کامیابی کا سہرا وائس چانسلر ڈاکٹر کلیم عباسی اور ان کے سٹاف کو جاتا ہے۔ کانفرنس میں آزاد کشمیر کے نامور ماہر ین تعلیم،صحافیوں اور دانشوروں کی ایسی کانفرنسوں کا انعقاد نہایت ضروری ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38