بات ادھوری مگر اثر دونا۔ اچھی لکنت زبان میں آئی ۔ مرزا یاس یگانہ لکنت کے باعث اپنے یار جانی کی ادھوری رہ جانے والی بات میں بھی دونا اثر بتاتے ہیں۔ بھئی یہ عشق و مستی کی باتیں اور گھاتیں ہیں۔ پھر عشق وحشت کا ہی دوسرا نام ہے ۔ وحشت کی بھی سن لیجئے ۔
وحشت میں ہر نقشہ الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے
ہمارا معاملہ اور ہے ۔ ہماری ادھوری رہ جانے والی بات سینیٹر ساجد میر کے بارے تھی ۔ موصوف ایک دینی جماعت کے سربراہ ہیں۔ میری بات ادھوری رہ جانے کا باعث میری زبان کی لکنت نہیں تھی ۔ کالم کو ایڈٹ کرنے کا معاملہ تھا یا پھر صفحہ اخبار میں جگہ کی کمی ، بہر حال بات ادھوری رہی اسلئے کسی کی سمجھ میں نہ آئی ۔ بہت سے فون آئے ۔ پوچھا گیا کہ معاملہ کیا ہے ؟ فون پر رابطہ کرنے والوں اور بالمشافہ پوچھنے والوں کو بھی بتایا ۔ اب کالم میں بھی وضاحت کر رہا ہوں۔ میرے پچھلے کالم کا عنوان تھا ’’ریاستی اشرافیہ اور سینیٹر ساجد میر کی چپ‘‘۔ اب پروفیسر ساجد میر سینٹ کے ممبر ہیں اور جمعیت اہلحدیث پاکستان کے سربراہ بھی ۔ ان کا بولنا اور چپ سادھ لینا اہمیت رکھتا ہے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ عنوان کے سوا سینیٹر ساجد میر کا پورے کالم میں کہیں ذکر نہیں۔ دوسرے لفظوں میں کالم سینیٹر ساجد میر کے بارے میں مکمل طور پر چپ ہے ۔ کالم میں ذکر ریاستی اشرافیہ کا چھڑا تھا۔ میں نے لکھا کہ ہماری ریاستی اشرافیہ آپس میں مفادات نہ ٹکرانے کی صورت میں نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے کی مخالفت نہیں کرتی بلکہ مددگار بھی ثابت ہوتی ہے ۔ اس جملہ سے آگے کالم شائع ہونے سے رہ گیا۔ اب قارئین مرزا یگانہ نہیں کہ ادھوری باتوں میں دونا اثر ڈھونڈ نکالیں۔ان کے پلے کچھ نہ پڑا۔ بات مہمل سی ہو گئی ۔ اب مجھے اپنے دوسرے کالم میں سینیٹر صاحب کو بہت جگہ دینی پڑ رہی ہے ۔ میرے گذشتہ کالم سے سطریں پڑھیں جو شائع ہونے سے رہ گئی تھیں۔انہیں پڑھنے کے بعد سینیٹر ساجد میر کی چپ پوری طرح سمجھ میں آتی ہے ۔ ’’ہماری ریاستی اشرافیہ آپس میں مفادات نہ ٹکرانے کی صورت میں نہ صرف یہ کہ اک دوسرے کی مخالفت نہیں کرتی بلکہ وہ مددگار بھی ثابت ہوتی ہے ۔ ایک اخبار کے مطابق ممتاز اہلحدیث عالم دین اور وفاقی وزیر حافظ عبدالکریم کی ڈیرہ غازی خاں میں نجی یونیورسٹی کے پندرہ سو طلباء دھوکہ دہی کا شکار ہو گئے ہیں۔ چار سال تک تعلیم حاصل کرنے والے ان طلباء کو دی جانے والی ڈگریاں جعلی نکلی ہیں۔ طلباء کو یہ ڈگریاں ایک تقریب میں گورنر پنجاب رفیق رجوانہ کے ہاتھ سے دلوائی گئی تھیں۔ نیب ملتان نے پچھلے دنوں اس اسکینڈل کی تحقیقات کا عندیہ دیا ہے ۔ لیکن آرمی چیف کے معاملہ میں معمولی اشتباہ پر چپ نہ رہ سکنے والے جمعیت اہلحدیث کے سربراہ سینیٹر ساجد میر اس مسئلے پر یقینا چپ رہیں گے ‘‘۔اخبارات میں حافظ عبدالکریم کی یونیورسٹی کی اس خبر کو دوسرا ہفتہ ہو گیا ہے ۔ کوئی تردید نہیں۔ کوئی وضاحت نہیں۔ خاموشی ہے ۔ اک چپ ہے ۔ کوئی بھی تو نہیں بول رہا۔ غضب خدا کا ۔ دور افتادہ بستیوں کے پندرہ سو طالب علم ، پھر ان کی چار برس کی پڑھائی ، اخراجات ۔ اب زبانِ خنجر بھی چپ نہیں رہے گی ۔ آستین کا لہو بھی پکارے گا۔ویسے جناب سینیٹر ساجد میر نے ا چھا کیا کہ چپ رہے ۔ اب انہیں بہت سی اورخبروں پربھی چپ رہنا پڑے گا۔وہی اپنے گروپ کا ہر حال میں جائز ناجائز دفاع ۔’’دھڑا ایمان ہے ‘‘والا بد دیانتی پر مبنی کلمہ کفریہ۔ سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خواتین کا میوزیکل شو ہوا۔ میں لبنانی گلوکارہ ہبا توازی کی گاتے ہوئے تصویر دیکھ رہا ہوں۔ امریکی اخبار وال سٹریٹ جرانل کے مطابق حضرت عیسیٰ ؑ کی ایک نایاب پرانی تصویر کے اصل خریدار سعودی ولی عہد ہیں۔ نادر تصویر پچھلے دنوں چھالیس کروڑ ڈالر میں نیلام ہوئی تھی ۔ اب آئیں پاکستان میں ۔ پھالیہ سے خبر ہے ۔تھانہ پاہڑیانوالی کے علاقہ چھچھروالی کا رہائشی تین بچیوں کا باپ تیس سالہ ناظم ولد غلام قادر نے ہیلاں نہر کوٹلی قاضی پور کے پاس کھڑے ہو کر اپنے بھتیجے کو کال دی کہ موٹر سائیکل پل پر کھڑی ہے ، آکر لے جانا۔ میں نہر میں چھلانگ لگا کر خود کشی کرنے لگا ہوں۔ مسئلہ وہی بھوک ، غربت ، ناداری ، بیروزگاری ۔لیکن ناداری دیکھئے کہ موت کے ہنگام بھی اپنے گھونسلے کے چند تنکوں کی کتنی فکر ہے۔ لواحقین پہنچے ۔ موٹر سائیکل مل گئی ۔ نعش کی تلاش جاری ہے ۔ نعش مل جائیگی تو کفن دفن کے اخراجات اور قبر کیلئے جگہ کے حصول کا مسئلہ درپیش ہوگا۔یہ سب کچھ کیا ہے ؟ مجھے سوچنے دیں ۔ اور سنیں۔جناب جاوید ہاشمی ہمارے ایک پورے سیاسی عہد کا نام ہے ۔ ملتان سے باخبر صحافی اشفاق احمد نے اطلاع دی ہے ۔’’سیاسی زندگی میں سینتیس بار جیل جانے والے جاوید ہاشمی مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف دونوں کے صدر رہ چکے ہیں۔ پانچ بار وفاقی وزیر رہے ۔ مسلم لیگ ن میں تھے تو پارٹی کے اندر من موجی اپنی مرضی کے مالک بتائے جاتے تھے ۔آج وہ ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ ن کے قریب پہنچ چکے ہیں‘‘۔ مجھے کہیں لکھا پڑھا یاد آرہا ہے۔ ڈاکٹر بشیر بدر نے اپنا شعری مجموعہ ’’اکائی ‘‘ اس التماس کے ساتھ فراق گورکھپوری کے ہاں بھجوایا کہ وہ اپنی گراں قدر رائے سے نوازیں۔ فراق صاحب نے اپنی رائے یوں لکھی : ’’ اکائی ‘دہائی ‘سینکڑہ ‘ ہزار ‘ دس ہزار‘‘۔ اور نیچے لکھا :’’آپ کا فراق گورکھپوری ‘‘۔ ہم فراق گورکھپوری ہرگز نہیں۔ اسلئے جاوید ہاشمی کے بارے میں بات بڑھا کر ایک لاکھ تک لے جاتے ہیں۔ سوا لاکھ نہیں کہ بدشگونی کی بات ہے ۔ اللہ انہیں لمبی عمر اور صحت عطاء فرمائے ۔ ان کاہمارے والدمحترم علامہ عزیز انصاری مرحوم و مغفور سے ایک تعلق خاطر تھا۔جس حال میں جاوید ہاشمی ن لیگ کے دربار میں پہنچے ہیں، سبھی جانتے ہیں۔ جاوید ہاشمی بھی جناب فراق گورکھپوری نہیں۔ فراق گورکھپوری نے کہا تھا ۔ واہ ! انہیں اپنی عزت نفس کا کتنا خیال رہا ۔ ؎
ان کی بزمِ ناز میں ہم یونہی چلے جائیں
ان سے کوئی کہہ دوکہ فراقؔ آئے ہوئے ہیں
فراقؔ بڑی انا والا بڑا شاعر تھا۔ ورنہ ادھر انا صرف اشرافیہ کی ہوتی ہے ۔ پھر ہماری اصلی اشرافیہ اپنی انا کا کتنا خیال ر کھتی ہے ۔ اپنے صدارتی الیکشن میں صدر ایوب خاں ان گھروں میں خود ووٹ مانگنے پہنچے جن پر مقامی ڈی سی ، ایس پی اثر انداز نہیں ہو سکتے تھے ۔ پیر صاحب پگاڑا شریف کے سسر مخدوم الملک سید غلام میراں شاہ ایسے ہی طاقتور اور بااثر لوگوں میں سے تھے ۔ صدر ایوب خاں ان کے گائوں جمال دین والی گئے ۔ صدر ایوب خاں ان کے ڈرائنگ روم میں پہنچ کر بیٹھ رہے ۔ پھر سید غلام میراں شاہ اپنے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے۔ صدر ایوب خاں کو ان کیلئے اٹھناپڑا۔ کالم کا اختتام کرتے ہیں۔ مڈل کلاس گھرانے میں جنم لینے والے جاوید ہاشمی پچھلے دنوں ایک اخبار نویس کو خوشی سے بتا رہے تھے کہ میں اب بہت امیر ہو گیا ہوں۔ میری زمینوں کے ساتھ سڑک گزر گئی ہے ۔ میری زمین بہت مہنگی ہو گئی ہے ۔ ان کی بات ابھی ادھوری ہے ۔ پوری بات یوں ہے ۔ میرے دیس میں اب زمین اتنی مہنگی ہے کہ قبر کیلئے بھی بآسانی میسر نہیں ۔ اب عوام کی تدفین نہروں میں ہوا کرے گی۔