سقوط ڈھاکہ
میجر (ر) شبیر
میں نے 65 اور 71ء کی جنگیں لڑیں ۔ دونوں جنگوں کے دوران میدان جنگ میں ہونے کے باوجود وہ معمولی زخمی بھی نہیں ہوا۔’’جنگ کے دوران موت کا خوف نہیں شہادت کا جذبہ موجزن رہتاہے۔ مشرقی پاکستان میں مورچے میں بیٹھے تھے، انڈین فائٹر کو انٹی ائرکرافٹ گن سے ایک فوجی نے نشانہ بنایا۔ جہاز کو یونہی گولہ لگا ایک سپاہی نے خوشی سے جھومتے ہوئے مورچے سے باہر چھلانگ لگائی اور بھنگڑا ڈالنا شروع کر دیا۔ شاید اس کا دوسرے بھارتی طیارے نے نوٹس لیاتھا۔چند منٹ بعد اس جگہ پر بھارتی طیاروں نے بموں کی برسات کر دی۔ بم کے اوپر سے زمین تک آنے کی وسل نما گونج اعصاب شکن ہوتی ہے۔ بم پھٹنے کا دھماکہ انسان تو کیازمین کو ہلا کر رکھ دیتا ہے ۔ میں مورچے کے باہر رہا، لگاتار بم ہمارے اوپر گر رہے ہیں۔ایک بار لگا سیٹی یا سورِ اسرافیل جیسی آواز تو کانوں کے اندر سیسہ بن کر گزر گئی ہے۔ اردگرد دلدلی علاقہ تھا۔ مسلسل بمباری سے وہ خشک ہو گیا۔ اللہ کی قدرت، ایک بھی فوجی زخمی تک نہیں ہوا۔ اس بمباری میں ایک بم مورچے کے قریب گرا ،اس سے مٹی سے مورچہ بند ہو گیا جس کے اندر جوان موجود تھا، ساتھیوں نے فوری طورمٹی ہٹاکر نکال لیا۔ اس کوخراش تک نہیں آئی تھی۔ایک دفعہ بمباری کے دوان چھوٹی سی مسجد میں بنگالی امام نے حسب معمول چھت پر جاکر اذان دی اور جماعت کرائی۔ میدان جنگ میں موت کا خوف ہرگز نہیں ہوتا تاہم روزمرہ زندگی میں فوجی بھی عام انسان ہوتا ہے۔ مشرقی پاکستان میں اُن دنوں حالات انتہائی مخدوش تھے۔ مقامی لوگوں کا دشمن کی طرح کا رویہ تھا۔ حکومت کی رٹ صرف چھائونیوں تک تھی میری فیملی فوجی یونٹ سے تھوڑے فاصلے پرمقیم تھی۔ کسی کو بھی یونٹ سے باہر رہنے یا جانے کی اجازت نہیں تھی۔ میں نے برگیڈ کمانڈر سے خصوصی اجازت لے رکھی تھی۔ صبح یونٹ جاتا رات کو گھر واپس آ جاتا۔