کسی بھی ملٹری آپریشن یا اہم سویلین پروگرام کی پلاننگ کرتے وقت ضروری ہوتا ہے کہ متعلقہ حلقے معاملہ کے ہر پہلو کا مختلف امکانات کے پس منظر میں جائزہ لیں اور کسی بھی POSSIBILITYجسے ملٹری زبان میں HYPOTHESIS کہتے ہیں نظر انداز نہ کیا جائے۔ اس سوچ کی ایک تاریخی مثال ARDENES HYPOTHESIS ہے۔ یہ دوسری جنگ عظیم میں پلاننگ میں تاریخی کوتاہی کی زد میں آتی ہے ARDENES پیرس کے مشرق میں گھنے جنگلات کے وسیع علاقے کا نام ہے اور فرانسیسی جنرل اسٹاف نے اتحادی فوجوں کے کمانڈر انچیف MARSHALL GEMELENE کو جرمن حملہ کے امکانات بیان کرتے وقت اس گھنے جنگلات میں سے جرمن حملہ کو ARDENES HYPOTHESIS کا نام دیا تھا جس کو کمانڈر انچیف نے رد کر دیا اور کرنا خدا کا یہ ہوا کہ جرمن ٹینک ڈویژن انہی جنگلات سے گزرتے ہوئے پیرس کو بائی پاس کر کے انگلش چینل کے ساحل FLANDERS تک پہنچ گئے اور فرانس کی حکومت جرمن فورسز کے سامنے بے بس ہو گئی۔ دنیا کے تمام فوجی حلقے ہمیشہ اپنی پلاننگ میں اس تاریخی HYPOTHESIS سے سبق حاصل کرتے ہیں اور جب اس کو بھول جائیں یا غفلت سے کام لیں تو بڑی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔
مجھے افسوس اور نہایت دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کہ سابق وزیراعظم اور ان کے ساتھیوں نے جب اسلام آباد سے لاہور واپسی کی پلاننگ اور منصوبہ بندی شروع کی تو ان کی ٹیم میں کئی سابق لیفٹیننٹ جنرل رینک کے سینئر افسران کے علاوہ منجھے ہوئی سینئر سیاستدان اور قابل ترین بیورو کریٹ موجود ہونے کے باوجود انہوں نے تمام امکانات اور HYPOTHESISپر سنجیدگی سے غور و غوض کیوں نہیں کیا۔ لاہور واپسی کے تمام پہلوﺅں کے امکانات کے فوائد اور نقصانات کا جائزہ لینا لازم تھا جس کے لئے سب سے پہلے یہ طے کرنا ازحد لازم تھا کہ اس سفر سے سابق وزیراعظم کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں اور مقاصد کے حصول کے لئے کونسا ٹائم فریم اور راستہ ملکی حالات اور قومی سلامتی کے تقاضوں کے ہم آہنگ ہو سکتا ہے۔ سابق وزیراعظم کی ذاتی خواہشات یا ان کے خاندان کے مشورہ جات کے علاوہ فیصلہ کو آخری شکل دینے میں مسلم لیگ نون کی پارٹی کو بھی بلاشبہ بڑا عمل دخل حاصل تھا لیکن نو منتخب وزیراعظم اور حکومت پاکستان یعنی وفاقی کابینہ کا بھی سیاسی معاملات سے ہٹ کر سکیورٹی کے پہلو کو ترجیح دیتے ہوئے نئے اور پرانے وزیر داخلہ کا بھی کچھ فرض بنتا تھا۔ وطن عزیز اس وقت حالت جنگ میں ہے۔ پاکستان کو موجودہ حالات میں جو اندرونی و بیرونی خطرات اور چیلنجز درپیش ہیں اس سفر کے لئے کیا مختلف متعلقہ ایجنسیوں سے بھی مشورہ لیا گیا۔ اسلام آباد سے لاہور واپسی کے سفر کے لئے چار ممکنہ راستے ہیں اول بذریعہ ہوائی سفر‘ دوئم بذریعہ موٹر وے‘ سوئم بذریعہ جی ٹی روڈ‘ چہارم بذریعہ اسپیشل ٹرین۔
کیا ان چاروں راستوں سے سفر کے فوائد اور نقصانات کا مکمل تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ کیا اس سفر کی سیاسی تشہیر اور دوران سفر ایک لمبے جلوس کی شرکت لازم تھی اور اس تشہیر کے لئے کوئی اور بہتر وقت انتخاب نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اگر اسلام آباد سے لاہور تک جی ٹی روڈ پر ایک تاریخی اجتماع کا مظاہرہ کرنا لازم تھا اور کیا اس کے لئے راستے میں ہر ضلع کے متعلقہ پارٹی لیڈران انتظامیہ کے آفیسران اور خصوصی طور پر پولیس اور تمام سول ملٹری سکیورٹی ایجنسیوں سے ضروری کلیئرنس حاصل کر لی گئیں تھیں۔
راولپنڈی سے لاہور واپسی کے سفر کے شیڈول میں کئی اجلاس ہوئے کئی تبدیلیاں ہوئیں اور بالآخر یہ بھی منظر پر آیا کہ وفاقی وزارت داخلہ اور صوبائی حکومت کے متعلقہ سینئر ترین آفیسران میں مکمل یکجہتی اور بعض تفصیلات کے بارے میں اتفاق رائے نہیں ہے۔ بلکہ جی ٹی روڈ پر سفر کرنے کے بارے میں بعض حکومتی حلقوں کی اختلافی رائے بھی سامنے آئیں جس کو معتبر رپورٹس کے مطابق رد کر دیا گیا اور منگل کی شام سابق وزیراعظم کے اسلام آباد ڈی چوک سے شروع ہو کر قافلے کا آغاز 9 بجے بدھ وار کی صبح 3 بجے دن کے سفر کے شیڈول کا اعلان کر دیا گیا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ قارئین نے ٹیلی ویژن پر دیکھا اور سنا جس کو دہرانا راقم مناسب نہیں سمجھتا اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ بدھ کی شام جبکہ اعلان شدہ شیڈول کے مطابق سابق وزیراعظم نے پہلی رات اپنے قافلے کے ہمراہ جہلم میں بسر کرنی تھی یہ رات اب راولپنڈی میں ہی بسر کرینگے جس کے لئے پنڈی کا پنجاب ہاﺅس جلدی میں تیار کر لیا گیا ہے۔ کچھ گاڑیاں اور لوگ 12 بجے دوپہر گجر خان کی طرف روانہ ہوئے تھے وہ بدھ کی شام تک کہاں تک پہنچے یا راستہ میں تتر بتر ہو گئے۔ اس کی تادم تحریر تفصیلات کھل کر ابھی تک سامنے نہیں آئیں۔ مجھے یقین ہے کہ بدھ کی رات لاہور کے واپسی کا شیڈول از سر نو طے ہو گا اگر منصوبہ بندی کرنے والوں نے ARDENES HYPOTHESISکا مطالعہ کیا ہوتا تو سفر لاہور کے پہلے روز کا المیہ پیش نہ آتا۔
اب مجھ پر لازم ہے کہ محترمی ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان واپسی پر ناصر باغ لاہور میں ہونے والے جلدی جلدی میں جلسہ کے بارے میں اپنے ابتدائی تاثرات لکھوں۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے شو آف سٹریٹ پاور کا بھر پور مظاہرہ کیا۔ خواتین و حضرات کاجوش و خروش دیدنی تھا۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے خطاب میں اپنی خطابت کے کمال دکھائے اور حاضرین کے ولولے اور جوش کی بیٹریوں کو FULLY CHARGE کر کے پوچھا کیا لمبے دھرنے کے لئے تیار ہو۔ حاضرین نے ہاں میں ہاں ملائی۔ پھر پوچھا کیا بستر وغیرہ ساتھ لائے ہو جواب مثبت میں ملا۔ میں نے سوچا لگتا ہے کہ راولپنڈی سے سابق وزیراعظم لاہور واپسی کے سفر پر رواں دواں ہونے والے ہیں۔ ادھر سے بھی کہیں اسلام آباد سفر باندھنے کا حکم صادر نہ ہو جائے۔ اور گوجرانوالہ جی ٹی روڈ پر دونوں کیمپ کہیں خیمہ زن ہو گئے تو کیا ہو گا۔ لیکن شکر ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے مجمع سے فرمایا ”میں تو آپ کا امتحان لے رہا تھا آپ سب اس امتحان میں پورے اتریں ہیں اب آپ میری اگلی کال کا انتظار کریں خدا حافظ“۔ یہ کہہ کر چائے کی پیالی میںطوفان تھم گیا اور مجمع بکھر گیا۔ میری آج شام کی اطلاع ہے کہ انتہائی قابل احترام ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی طبیعت ناساز ہے اور اس لئے ان کا کوئی فوری اگلے اقدام کا ارادہ نہیں ہے کیونکہ ڈاکٹروں نے مکمل آرام کا مشورہ دیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ڈاکٹر صاحب جس حکیم سے علاج کرواتے ہیں ان کے نسخہ نے فوری اثر دکھایا ہے۔ پاکستان زندہ باد‘ قارئین کو 14 اگست یوم آزادی مبارک ہو۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024