فطرت کبھی نہیں بدلتی، انسان اپنی پیدائش کے ساتھ اسے لیکر آتا ہے اور اسکے جسد خاکی کے ساتھ فطرت کی رخصتی عمل میں آتی ہے۔ تعلیم تربیت اخلاق ماحول اور وسائل رشتوں محبتوں کے باوجود فطرت تبدیل نہیں ہوتی۔ وقتی طور پر اس پر ایک تہہ یا غلاف تو چڑھایا جاسکتا ہے لیکن فطرت ثانیہ کا بدل جانا نا ممکن عمل ہے۔ یہی فطرت انسان کے پازیٹو نیگیٹو ہونے کا تعین کرتی ہے۔ دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے۔ یہ انسانوں کی فطرت ثانیہ کا رد عمل ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اصلیت ویسے تو الیکشن کے دوران ہی سب کے سامنے آگئی تھی۔ اس میں ہلیری کلنٹن پر نازیباں الزامات سے لیکر اسلام دشمنی اور تارکین وطن کیلئے شدید نا پسندیدگی شامل ہے۔ صدر بننے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے تارکین وطن بالخصوصی سات مسلم ممالک پر پابندیوں کا جو آرڈر جاری کیا۔ اس میں تعصب، تنگ نظری اور مذہبی لسانی نسلی تعصبات اور بغض وعناد کا تعفن ابلا پڑ رہا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ان احکامات پر امریکی عدالتوں نے سخت ایکشن لیا اور احکامات ہوا میں تحلیل ہو کر رہ گئے۔ یہ ایک زور دار طمانچہ تھا کہ ایک سپر پاور ملک کے صدر کے احکامات معطل کردئیے گئے۔ کوئی عقلمند آدمی ہوتا تو تائب ہو جاتا لیکن امریکی صدر نے کھسیاہٹ کے مارے مسلسل ایسے اقدامات کئے جس سے اسلام دشمنی کی بو آتی ہے۔ تین دن قبل امریکہ کا شام پر میزائل حملہ ڈونلڈ ٹرمپ کی فطرت ثانیہ کی واضح عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ نفرت، بغض، حسد، تعصب اور انتقام کی گندی گھنائونی مثال۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ شام میں داعش نے اسلام کے نام پر خانہ جنگی برپا کر رکھی ہے اور خونریزی مچا رکھی ہے۔ ابھی دس دن پہلے موصل عراق میں امریکی اتحادی طیاروں نے داعش کے زیر قبضہ علاقے پر بمباری کر کے معصوم اور نہتے شہریوں پر بمباری کی جس کے نتیجے میں 237 شہری اسی وقت جاں بحق ہوگئے۔ 8 شہری زخموں کی تاب نہ لاکر ایک ہفتے میں مرگئے۔ دوسری طرف داعش نے 20 شہریوں کو نقل مکانی نہ کرنے کی پاداش میں قتل کردیا۔ گویا ہر صورت میں صرف مسلمان ہی مارے جاتے ہیں۔ اسطرح ایک ہفتہ میں 270 عراقیوں کو ناحق مار دیا گیا لیکن اقوام متحدہ کی روایتی بے حسی اور ڈھٹائی قائم رہی۔ اب تین دن پہلے ڈونلڈ ٹرمپ کے ایماء پر امریکہ نے شام پر میزائل سے حملہ کیا۔ اس میں ایک ایسا نوجوان دکھایا گیا ہے جس کی ایک سال پہلے شادی ہوئی تھی۔ اس کی نوجوان بیوی اور دو جڑواں بچے اسکے سامنے دم توڑ گئے کیونکہ گیس اتنی زہریلی تھی۔ شکر ہے اس سارے عرصے میں کسی نے جرأت کے ساتھ بات کی۔ مشیر برائے قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ نے کہا ہے کہ امریکہ پاکستان کی قربانیوں کے باعث سپر پاور بنا ہے لیکن امریکہ نے کبھی اسکا اعتراف نہیں کیا۔ ہمیشہ پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے اور پاکستانی امور میں مداخلت کی ہے۔ امریکہ کا سپر پاور کہلانے کا غرور صرف پاکستان کی بدولت ہے۔ پاکستان 70 سال امریکہ کے مجہول عشق کی وجہ سے خسارے اٹھا رہا ہے اور امریکہ ایک بے وفا، ہرجائی، ظالم اور شقی القلب محبوب کی طرف پاکستان کی تذلیل کررہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان اور اسلام دشمن بھی روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے۔ شام کے معاملات میں شدید ترین مداخلت، ایران اور ترکی کو مختلف معاملات میں وارننگ دینا۔ عراق میں بے رحمانہ اور بلا جواز کارروائی۔ افغانستان میں تسلط، پاکستان میں من مانیاں، لیبیا، یمن، فلسطین، ترکی، الجزائر، مصر میں ڈکٹیشن دنیا امریکہ کی فطرت ثانیہ بن چکا ہے۔ شام میں امریکہ کے بے رحمانہ حملے کی روس نے شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دوبارہ ایسی کارروائی کے سنگین نتائج ہونگے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ روس آجکل پاکستان، ترکی، سعودی عرب، ایران، عراق، بنگلہ دیش اور متحدہ عرب امارات میں از خود نوٹس لیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ روس کی دلچسپی توجہ، محبت اور للکار کے پس پردہ کیا عوامل ہیں۔ امریکہ اور روس ہمیشہ ایک دوسرے کی ضد رہے ہیں۔ مذہبی لحاظ سے بھی دونوں کے قبلے اور قبیلے الگ الگ ہیں۔ دونوں کے معاشی معاشرتی سیاسی جغرافیائی حالات ایک دوسرے کے برعکس رہے ہیں۔ اس کے باوجود امریکہ اور روس دونوں ہی اسلام مخالف ہیں اور دونوں کا ایک ہی ایجنڈا ہیں یعنی اسلام دشمنی، اسلئے امریکہ کے علاوہ روس پر بھی بھروسہ کرنا حماقت ہے سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک رہا ہے جس نے افغانستان سے روس کو شکست دیکر بھگایا تھا۔ روس سے سپر پاور کا ٹائٹل ہاتھ سے نکلا اور معاشی و معاشرتی سطح پر مار کھانا اور سات ریاستوں کا الگ ہونا روس کی بربادی کا نوحہ ہے۔ افغانستان سے جنگ نے روس کی جڑیں کھوکھلی کردیں۔ اگرچہ اسمیں تمام پلاننگ، اسلحہ اور پیسہ امریکہ نے لگایا تھا لیکن روس سے جنگ میں افغانستان کی مدد میں پاکستان میں بھی شامل تھا۔ اسلئے ہم کیسے مان لیں کہ روس ہمارا دوست بن سکتا ہے ہمارا بھلا چاہ سکتا ہے۔ بہر حال شام پر روس کی ہمدردی اور تعاون کی وجہ امریکہ بھی ہوسکتا ہے۔ ممکن ہے روس اب امریکہ سے اپنی ہزیمت کا انتقام شام، ترکی، عراق، ایران کی سرزمین پر لے اور یہ بھی ہوسکتا ہے۔ امریکہ کی بربادی کی داستان وہ اسی جغرافیائی حدود میں لکھے جہاں اس کے ٹکڑے کئے گئے تھے۔ اس حوالے سے جہاں ترکی، ایران، عراق، شام، یمن، افغانستان اور پاکستان کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے وہاں پاکستان کو بہت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ حال ہی میں امام کعبہ شیخ صالح بن ابراہیم پاکستان آئے تو انہوں بھی کہا کہ دشمن پاکستان اور سعودی عرب کی ترقی نہیں چاہتا۔ اس موقع پر حیرت انگیز انداز میں صدر ممنون حسین نے اپنی صدارت میں دوسرا بڑا بیان دیا ہے۔ پہلا بیان تو سبھی کو ازبر ہے جب انہوں نے کہا تھا کہ کرپشن کرنیوالے لوگوں کے چہروں پر نحوست ٹپکتی ہے۔ اب صدر ممنوں حسین نے کہا ہے کہ انتہا پسندی سے نمٹنے کیلئے علماء کا عالمی گروپ بنایا جائے۔ یہ بات اگرچہ صدر ممنون حسین کے دماغ میںآنا تو محال ہے اور یہ گرانقدر جملہ سپیچ رائٹر کا کمال ہے لیکن اچھی بات کہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پاس اس پائے کے علماء موجود ہیں جو انتہا پسندی کی روک تھام میں اپنی بصیرت اور ذہن استعمال کرسکیں۔ اس وقت دنیا میں جنگوں کی تین بڑی وجوہات ہیں۔ ایک مذہبی جنون، دوسرے جغرافیائی حدود تیسرے معاشی و سیاسی حالات۔ ان میں جنگ کی سب سے بڑی وجہ مذہبی انتہا پسندی ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38