چیئرمین سینٹ رضا ربانی کا کہنا ہے کہ کوئی مقدس گائے نہیں، سب کا احتساب ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی انہوں نے واشگاف الفاظ میں تسلیم کیا کہ میں مانتا ہوں سیاستدان نے کرپشن کی ہے مگر سول اور ملٹری بیورو کریسی بھی صاف اور شفاف نہیں۔ رضا ربانی گزشتہ دنوں کراچی میں وفاقی اردو یونیورسٹی میں کل سندھ مباحثہ میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے خطاب کر رہے تھے اور یہ پہلا موقع تھا کہ کسی مختصر سیاسی رہنما کی طرف سے سیاستدانوں کے کرپشن میں ملوث ہونے کا برملا اعتراف کیا گیا ہے۔ رضا ربانی پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے گرم و سرد چشیدہ سیاسی رہنما ہیں۔ انکا یہ بھی کہنا ہے کہ آج جو لولی لنگڑی جمہوریت نصیب ہے وہ سیاسی کارکنوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ رضا ربانی ماضی میں پاکستانی پیپلز پارٹی کی حکومت کا حصّہ رہے ہیں اِنکی پارٹی برسہا برس پاکستان پر برسراقتدار رہی ہے اور رضا ربانی سمیت اس پارٹی کے سبھی سیاستدان جمہوریت کے نام پر اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔ حالات اس وقت بھی آج کے حالات سے کم ناگفتہ نہیں تھے عوام کو آج ہی کی طرح کے معاشی، اقتصادی، علاج معالجے، بیروزگاری اور بودوباش کے دیگر مسائل کا سامنا رہا مگر اس دور میں بھی سیاستدانوں نے بلا شرکت غیرے کرپشن کے ذریعے قومی دولت کو شیر مادر کی طرح لوٹنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ پاکستانی دولت کو منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرونی ممالک میں منتقل کرنے کی وبا کو تقویت ملی۔ سیاستدان چونکہ بر سرِ اقتدار تھے اور انکی کرپشن پر آواز اٹھانے والوں کو ملک و عوام دشمن ایسے القابات دینے کی رسم کو رواج دیا گیا تھا اور اس بنیاد پر سیاسی میدان میں سرگرم ہر سیاستدان نے ایک دوسرے کے عیبوں پر پردہ ڈالنے کے عہد کو نبھاتے ہوئے اس بے رحمانہ انداز سے ملک و عوام کے ٹیکسوں سے جمع ہونے والے خزانہ عامرہ کو لوٹا کہ ملک کنگال اور عوام فاقہ کش و قلاش ہوگئے۔ یقیناً یہ سب کچھ اس لولی لنگڑی جمہوریت کا کیا دھرا ہے جسے رضا ربانی سیاسی کارکنوں کی جدوجہد کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ جبکہ لولی لنگڑی حکومت کبھی حقیقی جمہوریت کا بدل نہیں ہوگی نہ اسکی جگہ لے سکتی ہے اور نہ ہی عوام اس جمہوریت کے ثمرات سے بہرہ ور ہو سکتے ہیں۔ جس جمہوریت کے بطن سے عوام نے حضرت قائداعظم کی قیادت میں پاکستان حاصل کیا تھا۔ جمہوریت اگر لولی لنگڑی ہے تو ایسی لولی لنگڑی جمہوریت فاقہ کش اور قلاش کروڑوں خاندانوں کے سماجی دکھوں کا مداوا نہیں ہو سکتی۔ اس میں تو برسراقتدار اور ان سے مک مکا کرنیوالے سیاستدانوں کی چاندی ہوتی ہے۔ ان سبھی کی لوٹ مار اور کرپشن پر انہیں پکڑنا تو ایک طرف رہا ٹوکنے والا بھی نہیں ہوتا کیونکہ جو بھی روکے گا روکنے والے کو آئینہ میں اسکی شکل بھی دکھانے میں تامل نہیں کیا جائیگا۔ ایسے میں سیاستدانوں میں سے کون کسی کی کرپشن پر انگلی اٹھائے گا۔ انکی اکثریت حمام میں سب ننگوں کی ضرب المثل کے عین مطابق ہوتی ہے۔
ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ سیاست کو کاروبار کے طور پر اپنانے والوں نے مخصوص مفادات کے حصول کی خاطر فوجی بیورکریسی کو کرپشن کی چاٹ لگائی اس قسم کی داستانیں عام ہوئیں کہ سیاست کے رسیا ایسے عناصر نے فوجی بیوروکریسی کے اہم ترین کل پرزوں کو بیش قیمت تحائف دینے کا سلسلہ جاری کیا۔ اور پھر فوجی بیوروکریسی کو بھی اپنے مناصب سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا موقع ملا مگر پھر بھی اس ادارے میں ایسے نام نہاد عناصر کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہی البتہ جس طرح کہتے ہیں خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے اسی طرح مارشل لائوں کے نفاذ کے بعد فوجی حکمرانوں نے اسلام آباد کے بیش قیمت رہائشی پلاٹ اور مختلف علاقوں میں اراضیات کی الاٹمنٹ کیلئے اپنے بچوں اور عزیز و اقارب کو ترجیح دے کر کرپشن کرنے والوں کی فہرست میں اپنا نام لکھوایا۔ اس قسم کے دو چار حقائق سے قطع نظر پاک فوج نے احتساب، انصاف اور شفافیت کے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھنے کی مثالیں قائم کی ہیں۔ ایسی تازہ ترین مثال نیشنل لاجسٹک سیل کو مالی نقصان پہنچانے پر فوج کے دو جرنیلوں میجر جنرل (ریٹائرڈ) خالد ظہیر اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) افضل مظفر کو پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت سزا سنائی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پبلک اکائونٹس کی طرف سے این ایل سی میں بے قاعدگیوں کی نشاندہی پر منصوبہ بندی و ترقیات کی تحقیقات نے بے قاعدگیوں کی تصدیق کی تھی۔ مگر 2011ء کے بعد یہ معاملہ معرضِ التواء میں رہا جبکہ عساکر پاکستان کے موجودہ چیف جنرل راحیل شریف نے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کیلئے تیز رفتاری سے اسی سکینڈل کا فیصلہ کرنے کی ہدایت کی۔ مختصراً یہ کہ احتساب میں بھی انصاف اور شفافیت کا اعلیٰ معیار عساکر پاکستان کی قیادت ہی کے حصے میں آیا ہے۔ جبکہ سیاستدانوں کی کسی بھی حکومت کی طرف سے نہ احتساب کا ایسا عمل دیکھنے میں آیا ہے نہ انکے کسی عمل میں شفافیت اور انصاف کی جھلک ہی فاقہ کشی عوام کو ملی ہے۔ برسہا برس سے اربوں کھربوں کی لوٹ کھسوٹ میں سیاستدانوں کے ملوث ہونے کے قصے زبان زد عام ہیں مگر کوئی سیاسی رہنما جو کرپشن کے خاتمے سے عبارت بیانات دیتے نہیں تھکتا ۔جہاں تک سول بیوروکریسی کا تعلق ہے سول بیوروکریسی نے ہر دور میں سیاستدانوں کی لونڈی کا کردار ادا کیا ہے۔ جب بھی ملک میں سول حکومتیں آئیں تو بیوروکریسی حکمران سیاستدانوں کے ماتحت ہی رہی۔ایسے حالات میں سیاستدان نندی پور پاور پراجیکٹ میں گھپلوں کا داغ، میٹروبس لاہور اور اسلام آباد کے اخراجات کے بارے میں چہ میگوئیاں، بنکوں کے واپس نہ کیے گئے قرضے یورو بانڈز کے ذریعے بلیک منی کے وائٹ ہونے کی باتیں، منی لانڈرنگ میں سہولت کاروں کا بھی کرپشن کرنیوالوں میں شمار، ایسے معاملات میں ممکنہ کرپشن کے ذمہ دار سیاستدان ہی تصور کئے جاتے ہیں۔ اسی حوالے سے اگر کسی کا احتساب ہوتا ہے تو معاملہ کسی سیاسی گوشے کی طرف سے ہونے والے واویلا میں نہ دب جانا چاہیے۔ احتساب کے مبنی پر انصاف نتائج بھی نظر آنے چاہئیں جیسا کہ عسکری قیادت نے نیشنل لاجسٹک سیل سکینڈل میں فوری احتساب کے مبنی پر انصاف نتائج کو منظر عام پر لانے میں کسی کی پرواہ نہ کی ۔ بہرحال سینٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے سیاست دانوں کی کرپشن کا کھلے لفظوں میں اعتراف کرکے بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان کے اس شعر کی تفسیر بیان کر دی ہے۔ مولانا نے فرمایا ہے:
نکل جاتی ہے سچی بات جس کے منہ سے مستی میں
فقیہہ مصلحت بیں سے وہ رندِ بادہ خوار اچھا
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024