وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی نیویارک میں ملاقات‘ کشمیر اور افغانستان پر بات‘ پاک بھارت کشیدگی کم کرانے کا امریکی وعدہ۔ گزشتہ جھوٹے وعدوں کا اعادہ‘ 1962 میں چین نے نیفا میں بھارت کی پٹائی کی۔ فیلڈ مارشل ایوب خان سے چین نے کشمیر میں فوجیں داخل کرنے کو کہا۔ امریکی صدر جانسن نے روکا۔ کشمیر آزاد کروانے کا عندیہ دیا‘ پھر وہی وعدہ خلافی‘ نہ معافی نہ تلافی۔ اقوام متحدہ میں نواز شریف نے بھارتی جارحیت کا پردہ چاک کیا اور بھارتی عزائم کو نذر خس و خاشاک کیا۔ افغان صدر اشرف غنی نے پھر سابق صدر حامد کرزئی کا روپ دھارا اور بھارت کو امداد کیلئے پکارا۔ برادرانہ اور دوستانہ مراسم سے انکاری اور ہر کتھا کاروباری‘ سو22 بازاری اور چانکیا کی عیاری‘ پاکستان پر دہشتگردی کا الزام‘ سیاست دشنام اور روشن نافرجام‘ افغانیوں پر پاکستان کے احسانات کی فراموشی اور حرف اعانت پر خاموشی۔ شیخ سعدی نے انہیں قوم بدذات کہا‘ جو کہا بصورت حالات کہا۔ امریکی صدر باراک حسین اوبامہ کا جنرل اسمبلی میں جنوبی ایشیا کی خطرناک صورت حالات پر بات کرنے سے گریز۔ کشمیر کا ذکر کرنے سے پرہیز‘ سیاست پرفتنہ و درد انگیز‘ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا فیس بک ہیڈ کوارٹر نیویارک کو ہندی زبان میں خطاب۔ ماں کی محبت باعث ثواب اور ماں کی بددعا باعث عذاب۔ انٹرویو میں باچشم نم فرمایا ’’میری غریب اور مزدور ماں نے ایسا بیٹا دنیا کو دیا جس نے جوڑنے کا کام کیا‘‘ سوئی جوڑتی ہے قینچی توڑتی ہے۔ اے کاش نریندر مودی سوئی بنتے نہ کہ قینچی۔ ہندو مسلمان کو لڑا دیا اور ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو مروا دیا۔ استاد کے رول اور ماں کے رول کو زندگی کا اثاثہ گردانا اور غربت کو تباہی کا شاخسانہ مانا۔ راقم عرض گزار ہے‘ کشمیر کو کشمیریوں کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرو‘ نہ مارو نہ مرو‘ غربت و جہالت دور کرو شب تاریک زندگی پرنور کرو۔ نیویارک میں عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں میں مذہبی رہنماؤں کے ملوث ہونے پر لعن طعن کی‘ افسوس کیا‘ احتجاج کیا۔ اخلاقیات کی اہمیت بتائی۔ مذہب کی غرض و غایت بتائی‘ شمع امن جلائی‘ بقول استاد فوق لدھیانوی :
فوق انسان فرشتہ تو نہیں ہو سکتا
لیکن انسان کو انساں تو بنایا جائے
گزشتہ ماہ مکہ میں مقام سعی پر کرین گرنے کے حادثے میں حجاج کرام شہید ہوئے۔ اب سانحۂ منیٰ ہوا۔ قیامت بپا ہوئی۔ حشر سے پہلے حشر ہوا۔ اعلامیہ نشر ہوا۔ کسی نے ایران اور کسی نے نائیجریا کے حاجیوں کو بھگدڑ کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ ہر کسی نے اپنا اپنا قصہ درد سنایا۔
بھگدڑ مچی‘ قیامت ٹوٹی ایران کے صدرحسن روحانی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے اس سانحہ عظیم کی عالمی سطح پر تحقیقات کا مطالبہ کر دیا۔ اس حادثہ جانکا پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ یہ مسئلہ سیاسی نہیں دینی اور انسانی ہے۔
بقول حبیب جالب
خاک میں مل گئے نگینے لوگ
حکمراں بن گئے کمینے لوگ
پاکستان کے وزیر مذہبی امور سردار یوسف میرے دیرینہ دوست ہیں۔ نہایت ہی شریف النفس اور ملنسار شخصیت ہیں۔ انکی سادگی کا یہ عالم ہے کہ وہ افسر شاہی جیسے عیاروں اور حاشیہ برداروں کی باتوں میں آ کر غلط بیان دے دیتے ہیں۔ پہلے فرمایا اس سانحہ میں کوئی پاکستانی شہید نہیں ہوا پھر فرمایا صرف سات پاکستان شہید ہوئے۔ اب تقریباً 89 پاکستانیوں کی شہادت کی تصدیق ہو چکی ہے۔ سعودی عرب کی حکومت نے اس وقت تک گیارہ سو شہدا کا اعتراف کیا جبکہ لندن کے گارڈین اخبارنے شہدا کی تعداد 3500 بتائی ہے۔ روزنامہ نوائے وقت کے سینئر کالم نگار ممتاز شاعر و دانشور جناب سعید آسی نے سانحہ منیٰ پر وزیر مذہبی امور سردار یوسف کی غلط بیانی کو قابل مذمت گردانا اور برطانوی اخبار گارڈین کی رپورٹ کو درست جانا۔ ممتاز کالم نگار طیبہ ضیاء چیمہ نے سعودی بادشاہ کو بوکھلاہٹ کا شکار اور سعودی رپورٹ کو بے کار لکھا۔ انہوں نے سعودی بادشاہ کے بیٹے کو سانحہ کا ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ سعودی حکومت اس سانحہ کی فوٹیج جاری کرے۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائیگا۔ حاجیوں کی لاشوں کو جس طرح کرینوں کے ساتھ گھسیٹا گیا یہ انتہائی دردناک اور شرمناک منظر تھا۔ لاشوں کی بے حرمتی گناہ اور کار روسیاہ ہے۔ میں ممتاز صحافی اور تجزیہ نگار خوشنود علی خان سے اتفاق کرتا ہوں۔ انہوں نے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے آل سعود کے مسلکی تعصب اور ملوکیت پر سخت سے سخت تنقید کی۔ زندہ ضمیری زندہ باد جہاں خزاں ہے وہاں بہار بھی ہے۔ جہاں دنیا میں بے ضمیر اور بے شعور لوگ آج بھی ہر کام کو مقدر سمجھ کر اپنی اصلاح نہیں کرتے وہاں سانحات ہوتے رہیں گے۔
چیئرمین پاکستان بیت المال بیرسٹر عابد وحید شیخ خدمت خلق کی زندہ تصویر ہیں۔ موصوف نہ تنخواہ لیتے ہیں اور نہ حکومتی مراعات رات دن خدمت خلق میں مشغول اور صاحب اصول ‘ غریبوں ‘ بیماروں ‘ ناداروں ‘ یتیموں ‘ مسکینوں اور بے کسوں کی امداد و اعانت بطرز دیانت کرتے ہیں تکبر و نخوت سے دور بادہ خدمت سے مخمور اور شہر میں مشہور یہ ہے بیرسٹر عابد وحید شیخ کا مختصر خاکہ ‘ حاکموں کی تعریف و توصیف شیوہ درویش نہیں لیکن سماجی رہنماؤں اور عوامی خدمت گاروں کا ذکر خیر نہ کرنا بخیلی ہے۔ چیئرمین گرین ٹاسک فورس ڈاکٹر جمال ناصر صاحب جمال بھی ہیں اور غریبوں کے ناصر بھی ہیں۔ ممتاز سیاستدان اور کالم نگار نثار احمد نثار کے نور نظر اور لخت جگر ہیں۔ شعلہ بیان خطیب اور ہر مظلوم کے حبیب ‘ بیماروں کے لبوں پر مثل حرف دعا اور ہر مریض نادار کیلئے پیغام شفا۔ سیاسی میدان کے شہسوار اور مرد باوقار اگر ایسے لوگ وزیر و مشیر ہوں تو حکومت کا بول بالا اور تیرگیٔ شب میں اجالا۔ بقول احمد فراز ۔
ستم کی آگ میں جلتے رہے عوام مگر
جہاں پناہ ہمیشہ جہاں پناہ رہے
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024