اچھی ہمسائیگی ایک نعمت ہے۔ بری ہمسائیگی کیا ہے؟ اس کا جواب کوئی پاکستان سے پوچھے۔ پاکستان کے چار ہمسائے ہیں جن میں چین، ایران، بھارت اور افغانستان شامل ہیں۔ پاکستان کیلئے چین دوستی اور محبت کی وہ علامت ہے جسے فی الحال کوئی آنچ نہیں۔ ایران پاکستان کو تسلیم کرنیوالا پہلا ملک تھا لیکن اُسکے ساتھ پاکستان کے تعلقات شک و شبہ کی بھول بھلیوں میں ہی گھومتے رہتے ہیں۔ بھارت وہ ہمسایہ ہے جو پاکستان کے دوسرے ہمسایوں کو بھی پاکستان کیخلاف اکساتا رہتا ہے۔ بھارت کا یہ شیطانی مزاج صرف پاکستان کیلئے ہی نہیں بلکہ اُس نے دیگر ہمسایوں بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان، سری لنکا اور چین وغیرہ کو بھی کئی بارڈسا ہے۔ جیسے ایک گندی مچھلی سارے تالاب کو گندہ کرتی ہے ویسے ہی اِس خطے میں بھارت نے پورے جنوبی ایشیاء کو گندہ کیا ہوا ہے۔ پاکستان نے اس انڈین چہرے کو شروع سے ہی پہچان لیا تھا۔ اس لئے وہ بھارتی دشمنی کی کاروائیوں کے جواب کیلئے اپنے آپکو کسی حد تک تیار کرتا رہا مگر پاکستان نے ہمسائیگی کی صفوں میں سب سے زیادہ دھوکہ افغانستان سے کھایا ہے۔ شاید یہ بات بہت سے لوگ نہ جانتے ہوں کہ افغانستان وہ واحد ملک تھا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی شمولیت کی زبردست مخالفت کی تھی۔ وہ سیانے لوگ جو کہتے ہیں کہ پاکستان کی پالیسیوں کی وجہ سے افغانستان پاکستان کیخلاف ہوا ہے، اُن سے کوئی یہ پوچھے کہ جب 30ستمبر 1947 کو افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کیخلاف ووٹ دیا تھا تو اُس وقت پاکستان کی کس پالیسی نے افغانستان کو مخالف بنایا تھا۔اس وقت تک ڈیڑھ ماہ کی عمر والے کمزور نوزائیدہ ملک میں پالیسیوںکا بننا تو ایک طرف پاکستان کو اپنی آبادی کی صحیح تعداد بھی معلوم نہیں تھی کیونکہ لاکھوں زندہ اور مردہ لوگ ہندوستان سے پاکستان آرہے تھے۔ شاید اسی لیے بعض لوگ یہ تجزیہ کرتے ہیں کہ ’’ افغانستان اپنی فطرت سے مجبور تھا‘‘۔ پاکستان نے اس بدترین رویئے کے باوجودبھی افغانستان کوکبھی بھارت جیسا کھلا دشمن قرار نہیں دیا۔ اگر افغانستان کی طرف سے پاکستان پر غیرملکی ایجنٹ بننے کا الزام آتا رہا تو افغانستان بھی مسلسل غیرملکی ایجنٹ بنا رہا اور اب بھی کم پیسوں پر ایجنٹی ہی کررہا ہے جبکہ پاکستان نے ہسٹری سے سبق سیکھتے ہوئے اپنے آپ کو غیرملکی ایجنٹی سے دور کرنے کی کوشش کی ہے جس کا اعتراف دشمن کے تجزیہ کار بھی کرتے ہیں۔ مثلاً خطے میں چین، روس اور پاکستان کا ٹرائیکا اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ اِن دنوں افغانستان اوربھارت کا گٹھ جوڑ خوب زوروں پر ہے۔ افغانستان کے حکمران بھارت کو اپنا حقیقی دوست مانتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت افغانستان کی صرف اُن مخصوص شعبوں میں مدد کررہا ہے جن کے ذریعے خوب پیسا کمایا جا سکتا ہے یاپاکستان کو مختلف طریقے سے نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔دوسری طرف افغان عوام کی بیرونی ضروریات کا تمام بوجھ پاکستان پر ڈالا جاتا ہے۔ مثلاًافغانستان کی لیبر پاکستان آتی ہے،افغان مریض بھی علاج کیلئے پاکستان ہی آتے ہیںاورسب سے بڑھ کریہ کہ لاکھوں افغان مہاجرین چار دہائیوں سے پاکستان میں موجود ہیں۔ اگر بھارت افغانستان کا اتنا مخلص دوست ہے تو وہ افغان لیبر کو اپنے ہاں کیوں نہیں لے جاتا؟ بھارت افغانستان کے مریضوں کو اپنے ہاں علاج کی سہولتیں کیوں نہیں دیتایا افغانستان میںہی جگہ جگہ عوامی ہسپتال کیوں نہیں بناتا؟ بھارت اپنے ہاں افغان مہاجر کیمپ کیوں نہیں بساتا؟ بھارت ایسا اس لئے نہیں کرسکتا کیونکہ اُسے معلوم ہے کہ افغان لیبر بھارت کی معیشت پر ایک بوجھ ہوگی اور بھارتی لیبر بے روزگار ہو جائیگی۔ افغان مریضوں کے علاج میں بھارت کو کوئی سازشی اورجنگی فائدہ نہیں ہوگا۔ افغان مہاجروں کا کیمپ لگانے سے بھارت میں جہاں غیرملکیوں کی آمدو رفت بڑھے گی وہیں اسلحہ ، منشیات اور خودکش حملوں میں اضافہ ہوگا جبکہ پاکستان یہ سب مسائل ہمسایہ برادر اسلامی ملک کے بینر تلے وصول کررہا ہے۔ دنیا میں ممالک کی حدبندیاں نیا تصور نہیں ہے بلکہ قدیم زمانے میں بھی ملکوں کے اپنے بارڈر ہوا کرتے تھے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بھی ایک حدبندی یعنی بارڈر موجود ہے جو پاکستان کے قیام سے تقریباً پچاس سال پہلے قائم کی گئی تھی۔ اُس وقت کے افغان حکمرانوں نے اس بارڈر کو چپ چاپ مان لیا تھا۔ کیا اُسکی وجہ یہ تھی کہ افغان حکمران انگریزوں کے انگوٹھے کا دبائو برداشت نہیں کرسکے تھے؟ حدبندیوں کی بین الاقوامی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے افغانستان اور پاکستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن کو بھی مستقل بارڈر تسلیم کیا جانا چاہئے کیونکہ جب تک اس بارڈر کی مکمل نگرانی نہ ہوگی اور آنے جانیوالوں کا حساب کتاب نہ رکھا جائیگا، پاکستان میں امن وعامہ کا مسئلہ درپیش رہے گا۔ تاہم افغانستان میں امریکی فوجوں کی موجودگی کے باوجود افغانستان سے ایکسپورٹ ہونے والی دہشت گردی کے باعث روس کے کسی بھی اقدام سے افغانستان شام والی صورتحال سے دوچار ہوسکتا ہے۔ ان حالات میںپاک افغان بارڈر کامضبوط ہونا بہت ضروری ہے۔ اس مسئلے پر سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں کچھ نام نہاد سیانے افغانستان کے ساتھ بارڈر ایشو پر اصولی موقف کی حمایت کرنے کی بجائے افغانستان کے ساتھ ابھی بھی وہی پرانا خوشامدانہ رویہ رکھنے کی بات کرتے ہیں جسکے باعث پاکستان گزشتہ 70 برسوں سے دھوکے میں ہے۔ وہ افغانستان جو ابتداء سے ہی پاکستان کا مخالف تھا اب کیسے حامی ہوسکتا ہے؟ پاکستان میں اکثر سٹریٹ کرائمز سے لیکر المناک خودکش حملوں تک کے تانے بانے افغانستان سے جاملتے ہیں۔ دشمن کے خطرناک منصوبوں کی روک تھام کیلئے پاکستان نے پاک افغان بارڈر مینجمنٹ کا سلسلہ شروع کیا تو افغانستان اور بھارت کی تکلیف سمجھ میں آگئی لیکن یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ پاکستان کے اندر کچھ لوگوںکو کیوں تکلیف شروع ہوگئی؟ کیا اپنے شہریوں کی حفاظت اور سرحدوں کا تحفظ ریاست کی اولین ذمہ داری نہیں ہے ؟ایسے عناصر نے اداروں کے ان منصوبوں کو نقصان پہنچانے کیلئے ملک میں پختونوں کیخلاف تعصبانہ کارروائیوں کا جھوٹا پراپیگنڈہ شروع کردیااور انہوں نے دوسرے صوبوں میں نسل پرستی کو بھی ہوا دینی شروع کر دی ہے کیا یہ سب کچھ بھارت اور افغانستان کی بلاواسطہ حمایت نہیںہے؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کیخلاف اس پروپیگنڈے میں کچھ میڈیا پرسنزبھی شامل ہیں یعنی ’’دوستوں کے منہ میں دشمنوں کی زبان ہے ‘‘۔ کیا انہیں یہ نہیں پتا کہ بھارت کی افغانستان سے دوستی کی ایک بڑی وجہ کمزور پاک افغان سرحدہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38