پاکستان کے طول و عرض میں یومِ یکجہتی کشمیر پانچ فروری کو منایا گیا ۔ اس موقع پر پوری قوم کی جانب سے اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں خونریزی بند کرے اور مقبوضہ کشمیر میں اقوامِ متحدہ کی زیر نگرانی شفاف اور منصفانہ استصوابِ رائے کرایا جائے ۔ دوسری جانب یہ امر خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ BJP نے اتر پردیش میں ایک بھی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا جس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بھارتی مسلمانوں کے حوالے سے BJP کس متشدد سوچ کی مالک ہے اور اس سے بھارتی سیکولر ازم کے دعووں کی قلعی پوری طرح کھل جاتی ہے ۔ سبھی جانتے ہیں کہ اتر پردیش آبادی کے لحاظ سے بھارت کا سب سے بڑا صوبہ ہے جس کی آبادی تقریباً 23 کروڑ افراد پر مشتمل ہے ۔ اتر پردیش ( یو پی ) میں 11 فروری، 15 فروری ، 19 فروری ، 23 فروری ، 27 فروری ، 4 مارچ اور 8 مارچ کو 7 مراحل میں ووٹنگ ہو گی ۔ اس صوبے کی صوبائی اسمبلی کی سیٹوں کی تعداد 403 ہے ۔ یو پی میں کانگرس اور سماج وادی پارٹی نے بالترتیب 105 اور 298 سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا سمجھوتہ کیاہے ۔ اس حوالے سے یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ دیگر چار صوبوں میں بھی صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات ہو رہے ہیں ۔ ان میں ’’ اتر کھنڈ ‘‘ ، بھارتی پنجاب ‘‘ ، گوا اور ’’ منی پور ‘‘ شامل ہیں ۔ اتر کھنڈ میں 15 فروری کو ایک ہی مرحلے میں کل 70 صوبائی اسمبلی سیٹو ں پر چنائو ہوں گے ۔اتر کھنڈ میں کانگرس اور BJP کی مقبولیت تقریباً یکساں ہے ۔علاوہ ازیں بھارتی پنجاب میں 4 فروری کو 117 رکنی صوبائی اسمبلی کے لئے ایک ہی مرحلے میں ووٹنگ ہو چکی ہے ۔ بظاہر بھارتی پنجاب میں سب سے زیادہ مقبولیت اس وقت ’’ عام آدمی پارٹی ‘‘ کو حاصل ہے ۔ اس کے بعد بالترتیب کانگرس اور بی جے پی اور اکالی دل اتحاد عوام میں مقبول ہیں ۔گوا میں بھی 4 فروری کو 40 رکنی صوبائی اسمبلی کے لئے ایک ہی مرحلے میں ووٹ ڈالے گئے ۔ منی پور میں الیکشن دو مراحل میں منعقد کیے جائیں گے ۔ کل ساٹھ اسمبلی سیٹوں پر 4 مارچ اور 8 مارچ کو ووٹنگ ہو گی ۔ان تمام انتخابات کے نتائج کا اعلان گیارہ مارچ کو ہو گا ۔ ماہرین کے مطابق اگر کانگریس پنجاب میں جیتتی ہے اور اتر پردیش میں اس کی کارکردگی پچھلے انتخابات سے بہتر ہوتی ہے اور اگر اسے بہار کے طرز پر نئی حکومت میں شامل ہونے کا بھی موقع مل گیا تو یہ کانگریس کے لئے انڈیا کی سیاست میں واپسی کا ایک بہت بڑا قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ دونوں جگہ اقتدار سے باہر رہی تو کانگریس بہت جلد انتشار کے دہانے پر کھڑی ہو گی۔اگر پنجاب میں اروند کیجریوال کی جماعت آپ پارٹی اقتدار میں آ گئی تو یہ انڈیا کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی کا آغاز ہو گا۔ بی جے پی ایک مذہبی مائل دائیں بازو کی جماعت ہے۔ عام آدمی پارٹی بھی ایک اقتصادی دائیں بازو کی پارٹی ہے۔ پنجاب کی جیت سے وہ پہلی بار ایک سیریس سیاسی چیلنج بن کر ابھرسکتی ہے۔ وہ نظریاتی طور پر بی جے پی کے لیے ہی نہیں آر ایس ایس کے لیے بھی ایک خطرہ ہے۔ بی جے سے بہتر اس حقیقت کو کوئی نہیں سمجھتا۔ اسی لیے اسے پنجاب میں اپنی جیت سے زیادہ آپ پارٹی کی شکست میں دلچسپی ہے۔یہاں اس امر کا تذکرہ بھی بے جا نہ ہو گا کہ دہلی کے حکمرانوں نے پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزام تراشیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہمیشہ سے جاری رکھا ہوا ہے ۔ تبھی تو 18 جنوری کو بھارت کے کئی اخباروں نے یہ لغو بیانی کی ہے کہ تقریباً ڈیڑھ ماہ پہلے ’’ کانپور ‘‘ میں ہونے والے خوفناک ٹرین حادثے میں پاکستان کا ہاتھ ہے ۔ اس قسم کی بے سر و پا افسانہ تراشیاں ہمیشہ سے بھارت کا وطیرہ رہا ہے ۔ اسی پس منظر میں دنیا کے تمام با ضمیر حلقوں نے مطالبہ کیا ہے کہ دہلی سرکار اپنی مذموم روش کو چھوڑ کر اعتدال کی راہ اپنائے اور کشمیری عوام کو ان کا پیدائشی حق یعنی حقِ خود ارادیت کا موقع فراہم کیاجائے وگرنہ اس خطے میں پائیدار امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا ۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024