موجودہ دور میں مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک دنیا بھر میں جو افراتفری‘ ہلاکت خیزی بے سکونی‘ عدم تحفظ‘ بے چینی‘ غیر یقینی‘ کم مائیگی‘ لاچاری‘ بلکہ لاوارثی جو احساس کمتری کی صورت میں ہر انسان میں نظر آتی ہے۔ وہ سابق صدر بش کی انتہا پسند سوچ اور حکمت عملی کا نتیجہ ہے‘ بش کے بقول اسے خواب نظر آتے ہیں کہ مسلمانوں کو مارنے میں ہی اللہ کی رضامندی شامل ہے ابلیسی الہام کے بعد اسے عراقی‘ افغانستان اور دوسرے اسلامی ممالک کی خود بھی اور اسلامی ممالک کو آپس میں لڑوا کر اینٹ سے اینٹ بجا دی‘ اب ہوش میں آنیکے بعد بش کے نائب ڈک چینی یہ کہتے ہیں‘ صدام حسین کے خاتمے کیلئے یہ جنگ بہت ضروری تھی مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جنگ عراق تک محدود تو نہ رہی افغانستان سے ہوتی ہوئی پاکستان میں خلفشار و انتشار اور لاکھوں انسانوں کا لہو اور زخمیوں‘ اپاہجوں کی آہ و بکا کے نالے مظلوموں کے بھالے بنکر بالآخر استعماری قوتوں کے فلک بوس محلات کو زمیں بوس کر دیں گے‘ معدنی ذخائر کی لالچ اور گرم پانیوں تک پہنچنے کی حرص کی وجہ سے ڈک چینی کہتا ہے کہ ’’ان تمام نقصصات پر انہیں کوئی دکھ نہیں ہوا کیونکہ ایک خود مختار ملک کا خاتمہ‘ عراقی تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنا اور عراق کی برادر اقوام (ملک) کے درمیان نفرت اور تعصب کو ابھارنا‘ انکا مقصد تھا جس میں وہ کامیاب رہے۔
افغانستان پہ جارحیت سے پہلے کابل سے قندھار تک امن و امان کا دور دورہ تھا‘ ایک نوجوان اور نہتی عورت ملک میں اکیلی رات کو بھی سفر کر سکتی تھی‘ اسلامی قوانین کی حقانیت‘ سچائی اور عالمگیری حقائق کی جنگ تو روز ازل سے باطل سے ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ غداران ملک کسی بھی ملک میں وافر مل جاتے ہیں‘ رقم کے بل بوتے پر مجرموں کو بھی صدارتی محلات میں لا بٹھانے پر ذرہ دیر نہیں لگتی‘ وہ دشمن ملک کیلئے جاسوس کا کردار ادا کرنے میں بھی نہیں ہچکچاتے‘ سنا ہے دل کے غنی ایک ملین ڈالر کے عوض ملک کا سودا کر بیٹھے ہیں۔
عالمی طاقت کا منصوبہ جس پر غور کرنے کی پوری امت مسلمہ کو ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ مستحکم و متحد اسلامی ممالک کو مختلف حصوں میں تقسیم کرکے انہیں بالکل کمزور اور لاچار کر دیا جائے جس کیلئے کبھی وہ مذہبی منافرت کا سہارا لیا ہے‘ کبھی رنگ و نسل اور ذات برادری اور زبانوں کو بنیاد بنا کر آپس میں تصادم کرا دیتا ہے‘ مثالیں آپکے سامنے موجود ہیں‘ افغانستان میں تو مخلوط حکومت کے قیام میں اسکی جھلک دیکھی جا سکتی ہے‘ اب کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ افغان حکومت کا برادر اقوام کیساتھ محبت‘ اخوت اور یگانگت کا رشتہ ختم کرکے لسانی تعصب کو ہوا دی جائے اور ملی و ملکی وحدت کو ختم کرکے‘ تاجک‘ پشتون‘ ازبک‘ ترکمان اور دوسری قوموں کے درمیان قومیت کے تنازعات کو ہوا دیکر افغانستان کے ٹکڑے کر دئیے جائیں عراق میں یہ خونی و شیطانی کھیل وہ کھیل چکا ہے‘ جس کی وجہ سے عراق ابھی تک لہو لہو ہے اور اسکا امن و سکون برباد ہو چکا ہے۔ اب جس طرح بغداد کے باسی‘ حزن و اداسی میں صدام حسین کو یاد کرتے ہیں‘ اسی طرح افغانی‘ ملا عمر کے دور کو دعائیں دیتے نہیں تھکتے۔
بلوچستان کے بارے میں خاکسار تحریک کے علامہ مشرقی نے پیشنگوئی کی تھی کہ پاکستان بننے کے ساٹھ سال بعد بلوچستان پہ کوئی دوسرا ملک قبضہ کرنے کی کوشش کریگا‘ بلوچستان میں ہزارہ قبائل کا قتل عام کا معمول اس بات کی واضح نشان دہی کرتا ہے کہ بلوچستان کو تقسیم کرنے کی ناپاک کوششوں کا استعمار آغاز کر چکا ہے جس کی بیخ کنی اور تدارک کیلئے ہماری عسکری اور قومی قیادت پہلی دفعہ متحد و متفق نظر آتی ہے۔ اس ضمن میں بیرونی قوتوں خصوصاً بھارت کے براہ راست ملوث ہونے کے جو ثبوت رحمن ملک کے پاس ہیں۔ رحمن ملک کے باس ان ثبوتوں کے ساتھ ہماری قابل فخر فوج کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی بجائے بھارتی عزائم اور منافقت کی اینٹ سے اینٹ کیوں نہیں بجاتے؟ آج کا کام کل پر مت چھوڑو میں جتنی حکمت اور دانائی ہے۔ اس کا اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا بلوچستان کی بدامنی اور قتل و غارت میں را‘ موساد اور سی آئی اے کے ملوث ہونے کے جو ناقابل تردد ثبوت ہماری حکومتوں کے پاس ہوتے ہیں وہ عالمی اداروں اور دوسرے موثر و فعال اداروں کو دکھانے اور بھارت کا اصل چہرہ بے نقاب کرنے کی بجائے روز محشر خدا کو دکھانے کیلئے محفوظ کر دئیے گئے ہیں۔ خدا تو خود کہتا ہے کہ حالات کو بدلنے کا انسان اور اقوام کو خود خیال کرنا چاہئے۔
افغان مفاہمتی عمل کے سیاسی حل کی سوچ میں غور و فکر کے پس پردہ بیرونی عزائم و عوامل کی مثبت و منفی سوچ اور خلوص نیت کتنی پختہ ہے۔ اسکو حالات کوئٹہ و قندور کیساتھ منطق کرکے دیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ ڈھاکہ میں دو لخت کرنے کا دھماکہ اچانک نہیں ہوا تھا۔ اس میں ہماری سیاسی قیادت کی تاخیر در تاخیر اسکی ذمہ دار تھی‘ اب خدارا بلوچستان کی سنگین صورتحال پہ تاخیر کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہمیں اعلانیہ دشمن کو بے نقاب کرنے میں کیا امر مانع ہے ہم نے چوروں‘ ڈاکوؤں‘ لٹیروں اور بھتہ خوروں کو بھی بے نقاب کرنے کی بجائے چہروں پہ چادریں چڑھا دیتے ہیں شاید اسی لئے!!!
ترا وجود سراپا تجلی افرنگ
کہ تو وہاں کے عمارت گروں کی ہے تعمیر
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024