پاکستان کی وفاقی کابینہ کے مشیروں وزیروں کی کل تعداد کتنی ہو گی؟ یقیناً اس سوال کا جواب خود ارکان کابینہ یا وزیراعظم بھی ’’اچانک‘‘ پوچھنے پر نہ دے پائیں گے اور یہ بات تو سو فیصد درست ہو گی کہ وہ اپنے ارکان کابینہ یعنی وزیروں مشیروں کے نام ایک ہی سانس میں اپنی زبان سے ادا نہ کر سکیں گے۔ کیونکہ یہ فہرست ہی ’’اللہ کے فضل و کرم‘‘ سے اس قدر طویل ہے کہ اسکے تمام نام ازبر کرنا ممکن نہیں ایسے میں لوگوں کو ان وزراء اور مشیروں کے نام کب یاد ہو سکتے ہیں۔ البتہ ان چار پانچ وزیروں مشیروں کے نام زبانِ زدِعام ہو سکتے ہیں جو اپنے اپنے مختلف محکموں کے مشیر و وزیر ہیں مگر اپنے زیرنگرانی محکموں کی کارکردگی بہتر بنانے یا اسکے اہلکاروں کی حالت زار پر توجہ دینے کی بجائے مختلف سیاسی رہنماؤں کیخلاف بیان بازی کیلئے اپنی توانائیاں صرف کرنے میں مصروف رہتے ہیں جو اپوزیشن سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ ایسے اپوزیشن رہنما تو حکومتی پالیسیوں پر تنقید کر کے اور انکی اصلاح کیلئے تجاویز سے عبارت بیان دے کر جمہوری تقاضوں کو پورا کرتے ہیں اور انکے ایسے بیانات پر گنے چنے ارکان کابینہ کی طرف سے جواب دینا صرف اور صرف خودنمائی کی خواہش پوری کرنا اور اپنی قیادت کو خوش کرنا ہوتا ہے مگر اپنے ایسے غیر ضروری فرائض کی انجام دہی کی خواہش پر وہ اپنے اپنے محکموں کے حقیقی فرائض کو فراموش کر جاتے ہیں اور انکے اپنے محکموں کو بے یارومددگار ہی گزارا کرنا ہوتا ہے قیادت اپنے ایسے مقربین کو بھی اس حوالے سے کوئی نہ کوئی ڈیوٹی تفویض کرتی رہتی ہے جس کا خمیازہ متعلقہ وزیر کے محکمہ کو بھگتنا پڑتا ہے مگر اپنے محکمہ کی ناقص کارکردگی کے باوجود ’’وزیر موصوف‘‘ کی قیادت کے نزدیک قدر و منزلت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس حوالے سے محکمہ ریلوے کی مثال دی جا سکتی ہے۔ چند یوم ہوئے کوئی دن ایسا نہیں جاتا تھا جب ریل گاڑی کو کسی حادثے سے خدا نے محفوظ نہ رکھا ہو حادثہ تو ہوا مگر خدا نے مسافروں کو محفوظ رکھا۔ اس محکمہ کی زبوں حالی کا عالم یہ ہے کہ محکمہ ریلوے کی 4 ہزار 3 سو 40 ایکڑ زمین پر بااثر لوگوں نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ برطانوی دور حکومت میں جو ریلوے ٹریک بچھایا گیا تھا۔ اب اس کا 67 فیصد حصہ بوسیدہ ہو چکا ہے۔ خیبر سے کراچی اور بولان تک ریلوے ٹریک جن ہزاروں پلوں پر سے گزرتا ہے‘ وہ پل بھی بوسیدہ ہو چکے ہیں۔
اس حوالے سے نوائے وقت میں شائع شدہ میاں علی افضل کی ایک رپورٹ کیمطابق محکمہ ریلوے میں 159 پل انتہائی خطرناک قرار دیئے گئے تھے۔ ماضی کی حکومت نے 2007ء میں ان انتہائی خطرناک پلوں کو محفوظ بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان خطرناک پلوں کی مرمت کا آغا ز بھی کیا گیا تھا اور 2007ء سے 2013ء تک اس کام پر صرف 25 کروڑ روپے اور اسکے بعد 2015ء کے وسط تک صرف ساڑھے پانچ کروڑ خرچ کئے جا سکے ملک بھر میں ریلوے ٹریک پر پلوں کی کل تعداد 13841 ہے جن میں 40 سال سے لیکر 160 سالہ پرانے پل بھی ہیں اور یہ پل ملک کے تمام صوبوں میں موجود ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ ریلوے کو ارباب اقتدار کی عاقبت نااندیش حکمت عملیوں کے نتیجے میں نفع یا نقصان ہو رہا ہے۔ اسکے تمام ٹریک اور پلوں کی تعمیر و مرمت حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے تھی جو ایسا نہیں۔
وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے 4 ستمبر 2015ء کو سینٹ کمیٹی برائے ریلوے کے اجلاس میں بتایا تھا کہ ریلوے کو 32 ارب کا خسارہ تھا جو کم ہو کر 27 ارب ہو گیا ہے۔ محکمہ ریلوے کی 3548 ایکڑ اراضی پر پرائیویٹ افراد قابض ہیں جبکہ 540 ایکڑ سے زائد اراضی پر سرکاری ادارے قابض ہیں صرف صوبہ خیبر پختونخواہ نے ریلوے اراضی کی 90 فیصد ملکیت ریلوے کے نام منتقل کر دی ہے۔ جہاں تک محکمہ ریلوے کی باقی ماندہ 3548 ایکڑ زمین کے ناجائز قابضین کا تعلق ہے۔ یقیناً ان میں ایسے ایسے بااثر اور متمول حضرات بھی ہونگے جن کی ایوان اقتدار کی غلام گردشوں تک رسائی ہو گی۔ ایسے میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ بوجوہ ان سے محکمہ ریلوے کی اراضی یا پلاٹ واگذار کرنا بڑا بھاری پتھر ہو گا۔ ریلوے کی زمین کا چپہ چپہ قومی اثاثہ ہے۔ جسے اس ادارے کے استحکام پر خرچ کیا جانا چاہئے۔ پھر اس ادارے کی کارکردگی سے ان کروڑوں عوام کی زندگیاں وابستہ ہیں جو محکمہ کی ٹرینوں پر سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں بلکہ ان کروڑوں غریبوں کیلئے تو آمدورفت کا یہی ذریعہ ہی سب سے زیادہ کم خرچ اور محفوظ ہے حقیقت یہ ہے کہ محکمہ ریلوے اس قابل ہے کہ اپنے وسائل سے اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہے۔ اس کے پلوں کی تعمیر‘ ٹریک کو ڈبل کرنے‘ نئے ٹریک بچھانے‘ مسافر بوگیوں کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے‘ سٹیشنوں پر مسافروں کو عصر جدید کی سہولتیں فراہم کرنے اور ریلوے کے محکمہ کو بحیثیت ادارہ منظم کرنے کا پوری طرح متحمل ہو سکتا ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ اسکے اثاثوں کو پوری دیانتداری سے واگذار کرایا جائے اور اس مقصد کیلئے رینجرز کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جائے رینجرز ہی بطور عسکری ادارہ تمام صوبوں سے ریلوے کی قیمتی اراضی ناجائز قابضین سے واگذار کرا سکے گی۔ اس محکمہ کے ارباب اختیار کو تو یہ حقیقت بھی مدنظر رکھنا ہو گی کہ ریلوے کا ہسپتال واقع علامہ اقبال روڈ لاہور چند برس پہلے پنجاب کے ہی نہیں ملک کے بہترین سرکاری شفاخانوں میں شمار ہوتا تھا جہاں محکمہ ریلوے کے ملازمین اور ان کے زیرکفالت خاندان کا علاج معالجہ ہوتا تھا۔ وقت کے بہترین ڈاکٹر جن میں فزیشن اور سرجن بھی ہوتے اس شفاخانے کی زینت ہوا کرتے تھے۔ مگر اب ہسپتال کی عمارت کھنڈر کا منظر پیش کرتی ہے۔ اس ہسپتال کو ازسرِنو اصل شکل میں بحال کرنا ہو گا تاکہ محکمہ ریلوے کے غریب ملازمین کو وہاں سے علاج معالجے کی سہولتیں عصرِ جدید کے تقاضوں کے مطابق مہیا ہونے لگیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38