1952ء کا واقعہ ہے، مصر کے آرمی چیف جنرل نجیب ایک ملٹری تقریب میں مصر کے شاہ فارروق کو شرکت کیلئے ڈرائیو کرکے پہنچا رہے تھے۔ شاہ فاروق انکے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے تھے جبکہ پچھلی سیٹ پر کرنل جمال عبدالناصر بیٹھے تھے۔ دو روز بعد جنرل نجیب نے شاہ فاروق کو معزول کرکے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اسکے ٹھیک دو سال بعد 1954ء جنرل نجیب کو ان کے بااعتماد دوست جمال عبدالناصر نے اقتدار سے علیحدہ کر دیا۔ جمال عبدالناصر جنرل نجیب کو روزانہ فٹنس جم میں ڈرائیو کرکے لے جایا کرتے تھے۔ پھر 6 فروری 1963ء کے دن عراق کے جنرل حسن البقر ملٹری پریڈ کا معائنہ کر رہے تھے اور وہ جیپ چلا رہے تھے جسکی فرنٹ سیٹ پر عراق کے وزیراعظم عبدالکریم قا سم بیٹھے تھے لیکن ٹھیک دو دن بعد 8فروری 1963ء کو جنرل حسن البقر نے وزیراعظم عبدالکریم قاسم کو ملٹری ایکشن کرکے نہ صرف اقتدار سے علیحدہ کیا بلکہ گولی مار کر ہلاک کر دیا اور عبدالکریم قاسم کی جگہ نائب وزیراعظم عبدالسلام عارف کو اقتدار سونپ دیا اور پھر جنرل حسن البقروزیر اعظم عبدالسلام عارف کے بااعتماد ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے مگر 17جولائی 1968ء کو جنرل حسن البقر نے عبدالسلام عارف کو معزول کرکے اقتدار پر خود قبضہ کر لیا۔ پھر جنرل حسن البقر کو انکے فرسٹ کزن نے16جولائی 1979ء کو معزول کرکے عراق کی مسند اقتدار سنبھال لی۔ دنیا ششدر رہ گئی کہ صدام حسین اپنے ہی کزن کیساتھ اس طرح بھی کر سکتے ہیں؟
قارئین جنرل گُرسل ترکی کے طاقتور جرنیل تھے اور اس وقت ترکی کے وزیراعظم عدنان میندریس تھے جنہوں نے امریکی پالیسیوں سے بغاوت کرتے ہوئے سوویت یونین سے معاشی اور عسکری روابط بڑھائے اور وہ روس چند دن بعد جا رہے کچھ معاہدے طے کرنے کہ امریکی انتظامیہ اور امریکی ٹرومین نے جنرل گُرسل کی آشیرباد دی اور عدنان میندریس کو معزول کرکے قید کر دیا اور بعدازاں کرپشن چارجز لگا کر پھانسی پر لٹکا دیا۔ 17ستمبر1961ء کو تختہ الٹنے سے پہلے جنرل گُرسل عدنان میندریس کی گاڑی اکثر ڈرائیو کرتے دیکھے گئے تھے۔ایک قریبی عزیز جو ریٹائرڈ آرمی آفیسر ہیں نے مجھے بتایا یہ اس وقت کی بات ہے جب جنرل ضیاء الحق بہاولپور کی کور کمانڈ کر رہے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم تھے اور وہ بہاولپور کا دورہ کر رہے تھے۔ جنرل ضیاء الحق اپنے آفس کے سامنے دھوپ میں کھڑے سگریٹ کے کش لیتے لطف اندوز ہو رہے تھے اسی دوران پیچھے سے بھٹو صاحب یکدم نمودار ہوئے جنرل ضیاء الحق نے وہی سلگتا سگریٹ پتلون کی جیب میں ڈال لیا اور ہاتھ مصافحہ کیلئے آگے بڑھایا۔ بھٹو صاحب کی عقابی آنکھوں نے دیکھ لیا تھا وہ بولے جنرل صاحب کپڑا جلنے کی بو آ رہی ہے جس پر ضیاء الحق شرمندہ سا ہو کر رہ گیا۔ قارئین! اسی جنرل ضیاء الحق کو بے ضرر تصور کرتے ہوئے بھٹو نے چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا تو ضیاء الحق نے بھٹو کو معزول کرکے اقتدارپر قبضہ کیا بلکہ بھٹو کو عدالتوں میں رسوا کیا اور پھر ایک اذیت ناک ٹرائل کے بعد پھانسی دے دی۔ انسانی تاریخ ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے۔ دنیا کا سب سے پہلا واقعہ 876قبل مسیح میں اس وقت ہوا جب اس وقت کا اسرائیل کے ملٹری سپہ سالار جنرل ’’زمبری‘‘جو بادشاہ ’’اپلے‘‘ کا خصوصی دوست تھا۔ بادشاہ کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا اور آج بھی اسرائیل اور عربی زبان میں لفظ ’’زمبری‘‘ غداری کے زمرے میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ اگر ہم صرف پاکستان کی ہی 70سالہ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ 70سالوں میں 40سال فوجی مارشل لائوں کی نذر ہو گئے۔قارئین! گذشتہ روز بلوچستان میں ایک شاہراہ کے افتتاح کے موقع پر جاری کی گئی تصویر جس میں جنرل راحیل شریف فوجی جیپ ڈرائیو کر رہے ہیں اور وزیراعظم پاکستان محمد نوازشریف فرنٹ سیٹ پر براجمان ہیں۔ اس تصویر کے منظر عام پر آنے کے بعد ملکی الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں ایک بھونچال آ گیا ۔ یار لوگ اپنے اپنے آقائوں کو خوش کرنے کے چکر میں بڑے بے سُرے راگ آلاپنے لگے۔ میں اپنے آفس میں مشغول تھا کہ جھورا جہاز گنگناتا ہوا اندر داخل ہوا ’’مینوں رکھ لے کلینڈر نال لمیاں روٹاں تے‘‘ جھورا جہاز گنگنا رہا تھا خاموش ہوا تو میں نے پوچھا بھائی جھورے کیا ہوا تو وہ بولا آج جو آئی ایس پی آر نے تصویر اور ویڈیو جاری کی ہے وہ آپ نے دیکھی ہے ۔ میں نے جواب دیا ہاں تو بولا کہ دیکھ نہیں رہے کہ آئی ایس پی آر نے کیا پیغام دیا ہے؟میں نے کہا نہیں تو جھورا جہاز بولا چھڈ وجی وڑائچ صاحب صاف نظر آ رہا ہے کہ گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ کی طرح ملکی اقتدار کی ڈرائیونگ سیٹ پر بھی یہی صورت احوال ہے۔ بہرحال مقاصد اسکے کچھ بھی ہوں آئی ایس پی آر نے ثابت کر دکھایا ہے، دراصل وہی اصل میں ڈرائیونگ سیٹ پر ہیں اور بلوچستان، خیبرپختونخواہ، سندھ، کراچی، پنجاب میں فوج ترقیاتی امور بھی خوش اسلوبی سے چلا رہی ہے۔ کچھ یار لوگ تو یہ بھی کہہ رہے تھے کہ فرنٹ سیٹ کے سامنے ڈیش بورڈ پر پڑی چیف کی ’’ایسٹک‘‘ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی سواری کو مسلسل خوفزدہ کر رہی تھی کیونکہ کروڑوں روپوں کی بلٹ پروف لگژری گاڑیوں میں ایئرکنڈیشن لگا کر گھومنے والوں کو جب ملٹری کی سخت سیٹوں والی اوپن گاڑی میں بیٹھنے کیلئے کہا جائے تو دال میں کچھ نہیں سارا ہی کالا ہے کیونکہ میاں محمد نوازشریف جب نوجوان تھے تو لاہور کی سڑکوں پر 70کی دہائی میں مرسڈیز پر گھومتے نظر آتے تھے اور یہی کھلنڈرا نوجوان محمد نوازشریف اپنی لگژری گاڑی پر سرحد کے پار امرتسر میں گھومتے نظر آتے تھے۔ بہرحال جوں جوں مارچ کا مہینہ قریب آ رہا ہے کئی کونپلیں کھلنے کو تیار ہیں۔ سنا ہے وزیراعظم بضد ہیں کہ انکے سمدھی وزیرخزانہ کو احتساب سے استثنیٰ دیا جائے باقی پر کمپرومائز کیا جا سکتا ہے۔ مگر ملک بچانے والے ملک چلانے والوں کی سب باتیں ماننے سے مسلسل انکاری ہیں۔ ڈاکٹر عاصم کے را طوطے کی طرح بولنے کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ اسحاق ڈار بھی سیکھے ہوئے را طوطے کی طرح فر فر بولیں گے اور جس نے ماضی میں اقرار نامہ لکھ کر دینے میں ہرج نہ سمجھا وہ قبول نامے لکھنے میں کیا تردد کریگا۔قارئین شنید ہے دوبئی کے بعد امریکہ نے بھی سابق صدر آصف علی زرداری کو مایوس کیا ہے اور موصوف امریکہ میں پریشانی میں ہیں اور ادھر پاکستان میں سیاست کی ’’پھولن دیوی‘‘ بھی ہتھیار پھینکنے پر آمادہ ہو چکی ہے۔ معاشی دہشتگردوں کیلئے تمام راہیں مسدود ہو چکی ہیں او راب ضرب عضب کا آخری معرکہ شروع کر دیا گیا ہے۔میں کالم تقریباً لکھ ہی چکا کہ تھا میرے ایک دوست نے مجھے فون کرکے کہا کہ جنرل راحیل شریف نے نوازشریف کو لفٹ دی ہے، لفٹ کروائی نہیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024