لیاری گینگ وار کے مرکزی کردار، پیپلز پارٹی کے سینئر رہنمائوں کے آنکھ کے تارے، عزیر بلوچ نے اعترافی بیان میں کہا ہے کہ 10کروڑ بھتہ ہر ماہ وصول کیا، نیٹو کا اسلحہ پیپلز امن کمیٹی کو دیا گیا، بھتے کی رقم اعلیٰ پولیس افسران اور ’’سیاسی شخصیات‘‘ کو پہنچاتا تھا سیاسی طاقتوں سرکاری گاڑی میں اسلحہ دیتا رہا۔ بڑے کرپٹ ملک سے فرار کروائے چار سو افراد کو قتل کیا اور کرایا۔
عزیر بلوچ کن بڑی ’’سیاسی شخصیات‘‘ کو دس کروڑ بھتہ کی رقم پہنچاتا تھا؟ اعلیٰ کرپٹ پولیس افسران کون ملوث تھے سرکاری گاڑی میں ناجائز اسلحہ، نیٹو کے اسلحہ کنٹینر سے سامان غائب ہونے کے سنگین مسئلہ کے تناظر میں ’’نیٹو کنٹینرز سے اسلحہ غائب ہونے کی ابتدائی رپورٹ خفیہ ادارے نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو دے دی تھی پورٹ اور شپنگ ایم کیو ایم کے بابر غوری کی وزارت تھی ’’سیاسی مفادات‘‘ اور اقتدار کے دوام نے اس سنگین کیس کو دبایا تھا! اب دوسرا رخ نیا عزیر بلوچ نے دکھا دیا ہے کہ نیٹو کا اسلحہ پیپلز امن کمیٹی کو دیا گیا۔ قتل و غارت گری کے لیے بھی دیا گیا تھا نیٹو سے اسلحہ چوری ہونا 2008-09 میں بڑے خفیہ ادارے نے حکمرانوں کو بتا دیا تھا لیکن جنرل (ر) شجاع پاشا اور جنرل کیانی سخت قانونی کارروائی کرانے میں ناکام رہے! یہ سچ ہے کہ قصور زرداری، گیلانی کا بھی تھا اور رحمن ملک کا بھی! اس نازک مسئلے کو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا چاہیے تھا تاکہ کوئی بھی بدنام نہ ہو اور ملزمان کو سخت سزا بھی ملے۔ عزیر بلوچ نے جن بڑے کرپٹ لوگوں کو بیرون ملک فرار کرانے کا اعتراف کیا یا اوپر ذکر کیے گئے ’’سرکاری طاقتور‘‘ ان سب کی تفتیش، چالان (جو ثابت ہو ان کا) ، متعلقہ دہشت گردی یا نیب یا ملٹری کورٹ میں بھیجا جائے قومی سلامتی کے معاملات پر اقتدار کی مجبوریوں کو فوقیت نہیں دی جا سکتی نہ دی جائے جیسا ماضی میں ہوا، اب بھی ہو رہا ہے جس کی مثال کراچی آپریشن میں ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی کے ’’مرکزی سیاسی طاقتوروں‘‘ کے جرائم، بھتہ خوری، قتل و غارت گردی، اربوں روپے کی بدعنوانی کے معاملات اور ’’را‘‘ سے ایمرجنسی، رینجرز کے وسیع اختیارات کو محدود کرنا وغیرہ کے معاملات سرخ لائن عبور کر گئے تو پیپلز پارٹی قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلیوں سے استعفیٰ دے کر بڑا سیاسی بحران پیدا کرکے عمران خان اور دیگر جماعتوں سے بھی استعفیٰ دینے کی ’’جوابی کارروائی‘‘ کرے گی اس طرح وزیر اعظم کا اقتدار ختم ہو سکتا ہے کیونکہ اگر کبھی ایسی صورتحال پیدا کر دی گئی تو ملک بھر میں 200 یا 300 قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے ضمنی انتخابات کرانا ناممکن ہے بات عام انتخابات تک جائے گی اس جانب تین ماہ قبل ایمرجنسی کے نفاذ پر سندھی لیڈروں نے بیان دیا تھا کہ سند ھ میں ایمرجنسی کی صورت میں ’بات بہت دور تک جائے گی‘‘ ایم کیو ایم کے 24 اراکین کے استعفیٰ موجود تھے مولانا فضل الرحمن اور کئی بڑوں نے جتن کرکے نواز حکومت کو بحران سے نکالا… اس سیاسی ’’بلیک میلنگ‘‘ میں بڑے کرپٹ، اربوں کی کرپشن کرنیوالے، سنگین جرائم پیشہ کے سرپرست (کراچی آپریشن آج تک قانونی گرفت سے آزاد ہیں کئی بیرون ملک چلے گئے لاتعداد ہائیکورٹ سے ضمانتوں پر ہیں، کراچی آپریشن کے کامیاب نتائج کو سیاسی اشرافیہ نے ناکام بنا دیا ہے۔ اگر فوج، رینجرز، آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی پی اور دیگر اداروں نے جانیں دے کر اور جانوں پر کھیل کر اٹھارہ ماہ میں ’’سیاسی مرکزی ملزمان‘‘ کی ثبوتوں سے نشاندہی کر دی ہوئی ہے تو مرکزی اور صوبائی حکومتیں ایک سال میں ’’آگے بڑھو، بلاامتیاز کارروائی کرو‘‘ کا حکم دینے میں کیوں ناکام ہیں۔ جنرل نوید مختار اور جنرل بلال اکبر اور خفیہ سیکٹر کمانڈوز اور ٹیم کے کیے کرائے پر پانی پھیرا جا رہا ہے دوسری طرف شاندار کامیابیوں کے باوجود سیکورٹی اور رینجرز اداروں کے بعض کمزور پہلو، انصاف و قانون سے تجاوز کے نازک معاملات بھی توجہ طلب ہیں اگر سیاسی حکومتوں نے لاپروائی کی ہے تو کراچی میں امن و امان تباہ کرنے کے واقعات میں دوبارہ اضافہ ہونا کراچی آپریشن کی ٹیم کی کمزوری اور لائحہ عمل میں نئی حکمت عملی کی نشانی اور نشاندہی ہے۔
عزیر بلوچ کا ٹیسٹ کیس وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کا امتحان بھی لیا جائے گا اور مقدمے یا دیگر مرکزی سرپرستوں اور ملزمان کے متعدد مقدمات ایک ’’طوفان‘‘ سمیٹے ہوئے ہیں بلا امتیاز سرکوبی کے دعوے کریں یا حکمران اس کی قیمت تو ادا کرنا پڑے گی اصل آزمائش اینٹ سے اینٹ بجانے والے بھگوڑے سیاسی لیڈر کی اور کئی نام نہاد شرفاء کی ہو گی یا نہیں یہ وقت بتائے گا البتہ نہ عزیر بلوچ کے سنگین جرائم قابل معافی ہیں نہ ملکی قانون آئین عدلیہ عزیر بلوچ کو وعدہ معاف گواہ بنا کر چھوڑ سکتی ہے۔ ان پر تو ایک قتل کا الزام تھا یہاں تو سینکڑوں قتل کا اعتراف!!!
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024