ایک دن میں مسجد میں نماز پڑھنے گیا تو نماز کے بعد امام مسجد، مؤذن اور مسجد کمیٹی کے چند معزز اراکین اکٹھے بیٹھ گئے۔ امام صاحب نے کہا کہ ہماری مسجد کے سارے سپیکر خراب ہو چکے ہیں لہٰذا انہیں تبدیل کرنے کے لئے لوگوں سے چندے کی اپیل کرنی چاہیے۔ میں جب سپیکر کی فنی خرابی کی باتیں سن رہا تھا تو مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے یہ ن لیگ کے سپیکر کی بات ہو رہی ہے۔ کیونکہ ن لیگ کا سپیکر ٹیکنیکل خرابی کی وجہ سے عدالت نے بند کردیا تھا۔ شہر لاہور میں صورتحال یہ ہے کہ ن لیگ کے معزز رہنما اپنے سپیکر کی بحالی کے لئے تن من دھن کی بازی لگائے ہوئے ہیں اور تقریریں کرتے ہوئے معزز رہنمائوں کی آستینیں بھی چڑھی نظر آتی ہیں۔ آستینیں چڑھانا بھٹو صاحب کی اپنی ایجاد کردہ ادا تھی۔ اب جو لیڈر بھی تقریر کرتا نظر آتا ہے وہ بھٹو صاحب کی اس ادا کا چربہ اتارتا نظر آتا ہے۔ اگر بھٹو صاحب قدرتِ حق سے دوبارہ دنیا میں اپنی اس ادا کا چربہ اترتے دیکھیں تو شاید انہیں اپنی ادا سے نفرت ہو جائے۔
گزشتہ سال جب سانحہ ماڈل ٹائون کے بعد مولانا طاہر القادری اور سانحہ دھاندلی کے بعد عمران خان اپنے لائو لشکر کے ساتھ سرزمینِ اسلام آباد پر دھرنا دینے کے لئے اترے تو سارے پاکستان کی توجہ اس دھرنے کی طرف ہو گئی۔ عمران خان اور مولانا طاہر القادری قومی اسمبلی کو جعلی قرار دیتے رہے تو الیکشن کمیشن اور ہماری عدالتوں کی طرف سے کوئی نوٹس نہ لیا گیا۔ اسی دوران میں پاکستانی عوام پر شیلنگ بھی ہوئی، لاٹھی چارج بھی کیا گیا، جس کے نتیجے میں سیاسی حق مانگنے والے معصوم شہری اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ آج ہم غور کریں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر یہ دھرنے نہ ہوتے اور میڈیا کی طرف سے دبائو نہ پڑتا تو سردار ایاز صادق کا حلقہ کبھی نہ کُھلتا اور سردار ایاز صادق بطور سپیکر اپنی پوری مدت باعزت اور باوقار مکمل کرتے اور تاریخ میں حلقہ این اے 122 کے ضمنی انتخاب کا کبھی تذکرہ نہ ہوتا اور نہ یہ رونقیں دیکھنے میں آتیں جو آج کل اس حلقے کی وجہ سے پورے لاہور میں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔
کتنے دنوں سے یہ دیکھنے میں آ رہاہے کہ ن لیگ کے رہنما اپنے سپیکر کی خرابی کو ٹھیک کرنے کیلئے خود سپیکر بنے ہوئے ہیں۔ یہ ایک ایسا الیکشن ہے جس کا حلقہ بے حد وسیع ہے اور اس کے اثرات سمن آباد سے ہوتے ہوئے سبزہ زار تک دیکھے جا سکتے ہیں۔ پہلے بھی ضمنی الیکشن ہوتے رہے ہیں اور جن امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا کرتا تھا انہیں کے گلوں سے آوازیں برآمد ہوتی تھیں لیکن یہ الیکشن دو امیدواروں کے درمیان نہیں ہے یہ دو پارٹیوں کی زبردست جنگ ہے۔ بلکہ اس حلقے پر ظہیرالدین بابر اور ابراہیم لودھی کے مقابلے کا گمان ہو رہا ہے۔ حلقہ این اے 122 کیا پانی پت کا میدان ہے۔ کوئی پارٹی اپنی پت پر پانی پھرتا نہیں دیکھنا چاہتی۔ پی ٹی آئی رہنما عبدالعلیم خان نے اپنی تقریر میں پانی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے زرکثیر صرف کرکے عوام کے لئے صاف ستھرے پانی کے پلانٹ لگوائے ہیں لیکن ان پر میرے نام کی تختی نصب ہونے کی وجہ سے انہیں چالو نہیں کیا گیا۔
جہاں تک انصاف کا تعلق ہے تو ہمارے ہاں ایسے ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ کسی واقعے کے بعد بندہ سب سے پہلے یہ کہتا ہے کہ یہ ہمارے ملک میں کبھی نہیں ہو سکتا۔ پھر وہ دعا کے انداز میں کہتا ہے کہ اللہ کرے یہ واقعہ نہ ہوا ہو لیکن جب واقعہ میڈیا کے کندھوں پر سوار ہو کر گھر گھر پہنچتا ہے تو بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایسا تو انڈیا اور اسرائیل میں بھی نہیں ہوتا۔ لوگ یہ مثال آخری مثال سمجھ کر دیتے ہیں۔ لاہور جیسے شہر میں کروڑوں کی ڈکیتیاں روزانہ کا معمول ہے۔ اب تو لوگ موٹرسائیکلیں اور گاڑیاں چوری ہونے کی صورت میں تھانے رپورٹ کروانے بھی نہیں جاتے کہ مزید پیسے خرچ ہوں گے اور وقت الگ ضائع ہوگا۔
پیپلزپارٹی کا پچھلا دور اپنی مدت پوری کرنے اور اپنی اپنی نشستوں پر مکمل آرام کرنے کا دور تھا۔ عوام بجلی، پانی، قتل وغارت اور بھتہ خوری ، بے روزگاری اور مہنگائی کی چکی میں پستے رہے۔ پھر الیکشن ہوئے تو عوام نے انہیں مسائل کی خاطر پیپلزپارٹی کی بجائے ن لیگ کو ووٹ دیئے۔ اب جو چیزیں بنائی جا رہی ہیں جن میں اورنج ٹرین بھی شامل ہوگئی ہے۔ یہ تو لوگوں کی ڈیمانڈ ہی نہیں تھی۔ ایک شخص کہہ رہا تھا کہ اگر میں کسی چائے کے اسٹال پر جا کر ایک چائے تیار کرنے کا کہوں تو چائے والا ساتھ والی دکان سے لسی کا گلاس منگوا کر میرے سامنے رکھ دے تو میں سوائے حیرت کی تصویر بننے کے اور کیا کر سکوں گا۔ عوام الناس بجلی، پانی، امن وامان اور عدل وانصاف کے لیے بلک رہے ہیں۔ عدالتوں کا حال یہ ہے کہ برس ہا برس سے لوگ انصاف طلب کررہے ہیں، عمران خان کو چند حلقے کھلوانے کے لئے جتنا زور دھرنوں کی صورت میں لگانا پڑا ہے، کیا ہر شخص اتنا زور لگا کر انصاف طلب کر سکتا ہے۔ پچھلے دنوں اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات آتے رہے کہ عطائیوں کے خلاف کریک ڈائون ہونے والا ہے۔ اس کریک ڈائون کے نتیجے میں طبیہ کالج کے فارغ التحصیل حکیموں کے شٹر ڈائون بھی ہوئے، ہمارے ایک دوست نے چھاپوں کے ڈر سے اپنا چلتا ہوا میڈیکل سٹور بھی بند کردیا ہے اور ساتھ والی دکان میں سکول یونیفارم بیچتے نظر آتے ہیں، اب سکولوں کی بڑھتی ہوئی فیسوں کے خلاف بھی حکومت کے اسی طرح کے بیان سامنے آرہے ہیں جس طرح دہشت گرد تنظیموں کے خلاف بیانات جاری ہوتے ہیں، اصولاً تو یہاں بھٹو صاحب والا فارمولا ہی درست تھا کہ تعلیم حکومت کے ذمے ہونی چاہیے، جنرل ضیاء کے دور میں لوگوں کو ذاتی سکول کالج کھولنے کی اجازت ملی، کیا حکومت ایچی سن کالج اور اسی طرح کے بڑے بڑے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی فیسیں کم کرا سکتی ہے۔ اگر کسی شخص نے محلے میں کوئی سکول کھول رکھا ہے اور اس کی فیس بھی تین چار سو روپے ہے تو اب والدین ان چھوٹے سکولوں کی فیسیں بھی کم کرائیں گے اور محلے کے کسی بھی رہائشی کی درخواست پر سکول کے مالکان کو جرمانہ ہو جائے گا۔ بڑے بڑے سکولوں میں جو بچے پڑھتے ہیں ان کے والدین فیسوں کی گرانی پر کبھی سڑکوں پر نہیں آتے بلکہ ان سکولوں نے بھی امیر والدین کی شہ پر ہی ترقی کے زینے طے کیے ہیں، حکومت کو تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنی چاہئیں۔ ہمارے ہاں سیاست میں چہرے وہی ہوتے ہیں جو کبھی ایک پارٹی کی شاخ پر چہچہاتے ہیں اور کبھی دوسری پارٹی کی شاخ پر کشاں کشاں چمگادڑ کی مانند الٹے لٹکے نظر آتے ہیں لوگ اب نظام کی تبدیلی کی بات کرتے نظر آتے ہیں۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024