ایک حادثہ جس نے مجھے سسٹم سے مایوس کر دیا۔کسی بھی شخص کے ساتھ جب کوئی واقعہ پیش آتا ہے ۔ اْس کو فیس کرنا اور نقصان کے ہونے کا دکھ اپنی جگہ ہوتا ہے ۔ مگر اصل مصیبت وہ نہیں ہوتی بلکہ اصل مصیبت وہ ہوتی ہے ، جو آئی مصیبت سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہوتی ہے، اور یہ ہوا تھا میرے ساتھ بھی، میرے گھر میں مجھے اْس وقت چوری ہونے کی خبر ملی، جب میں حلقہ NA-122میں پروگرام کرنے گئی تھی، فطری بات ہے کہ ایسے حادثات واقعات دکھی کر دیتے ہیں۔ مگر میں نے حادثہ سمجھا،اور اْس کو رکور کرنے کے لیے پولیس سے مدد طلب کی ، میرے علاقے کے ایس ایچ او آئے اور واردات کا جائزہ لیا، اور باقی کی کاروائی کے لیے ہمیں پولیس سٹیشن آنے کو کہا،میں خود گئی رپورٹ لکھوائی،اگلے دن شبے میں ایک گرفتاری کروائی ، مگر اْس سے تمام دن میں تفتیش نہ کی جا سکی،جب میں پولیس سٹیشن تفتیش کی پیش رفت جاننے کے لیے پہنچی،تو ایک گھنٹے کے دوران وہ لڑکی جو پولیس کے پاس تھی، بیگ گرائونڈ یہ تھا کہ وہ ایک معمولی سی صفائی کرنے والی نوکرانی ہے اْ س کا وکیل بھی ایک گھنٹے کے اندر تھانے میں پہنچ گیا، اور دوسرا منظر یہ کہ کئی پولیس اہلکار جو اْس نوکرانی کے حمایتی بنے بیٹھے تھے،اور تو اور کچھ لوگ بھی اْس کی گواہی دینے پولیس سٹیشن پہنچ گئے،یہ منظر میرے لیے حیرت انگیز تھا کہ کیسے ایک معمولی سی نوکرانی کا وکیل اور پولیس ہمدرد ہو سکتے ہیں۔اور سول سوسائٹی کے آخر کون لوگ ہیں جو اس لڑکی کی حمایت کر رہے ہیں میرے لیے یہ حیرانگی کی بات اس لئے تھی کہ مجھے اپنے ساتھ ہونے والے اس واقعہ کی چھان بین کے لیے اپنی مصروفیت معطل کرنا پڑی بلکہ اپنے میڈیا کولیگز کی حمایت بھی حاصل تھی اس کے باوجود میری کہیں داد رسی نہیں ہورہی تھی۔تو کیسے اس عام سی ملازمہ لڑکی کے وکیل اور پولیس والے اس قدر حمایتی تھے کہ ایسے تو ڈاکٹر عاصم کو بھی سابق صدر زرداری کی حمایت حاصل نہیں ہو سکتی۔ اور تو اور اْس لڑکی کی حمایتوں میں پولیس کے لوگ بھی تھے ، اْنہوں نے ہمیں نہ صرف ہراساں کیا بلکہ موقع دیکھ کر سنگین نتائج بھگتنے کا بھی کہا، او ر کبھی غریب پر ظلم اور بددعاوں کا خوف بھی دلایا۔ اس سب ہراسمنٹ میں میں نے ان سب گواہوں کودو دن کی مہلت کے ساتھ اْس لڑکی کو جانے کے لیے کہا، اب میرا فیصلہ اور میرے حالات کا تقاضہ ہے کہ میں پولیس سٹیشن کے چکر نہیں لگا سکتی ، واردات کی تفتیش کا معاملہ پولیس پر چھوڑتی ہوں مگر اس سب واقع کے بعد مجھے اپنے سسٹم سے مایوسی ہوئی ، اگر مجھے انصاف نہیں مل سکتا تو پھر وہ ہر عام شہری جس کے ساتھ کوئی حادثہ ہواہو اْس کی شنوائی کیسے ہو سکتی ہے۔ یہ عام حادثہ تھایا واردات تھی یا پھر اس کے واقعے کے پیچھے گینگ شامل ہے۔ میری عقل اس کو حادثہ نہیں مان رہی۔اور ابھی تک معلومات اور حالات بھی چھوٹے حادثے سے بڑے کرائم کا اشارہ دے رہے ہیں۔
ہاں البتہ میرے گھر میں ہونے والی چوری کی خبر اخبار میں دیکھ کر مسلم لیگ ن کے ایم پی اے خواجہ عمران نذیر نے فون کر کے یقین دلایا ہے کہ وہ اس کیس کو انویسٹی گیٹ کروائیں گے۔اس سب واقعے کے دوران مجھے مختلف معلومات بھی ملی ہیں،جس میں یہ سامنے آیا ہے کہ پنجاب میں گینگ جرائم پیشہ سرگرم، ڈکیتی کی وارداتوں میں وہشت گرد اور بڑے بڑے مافیا کا ہاتھ،پولیس کی پشت پناہی کچھ لوگ سہولت کا ر کے طور پر کام کر رہے ہے۔مگر ان کرمنلز پر ہاتھ ڈالنے والا کوئی نہیں ہے۔نیشنل ایکشن پلان کے تحت فوج اور رینجرز کا پنجاب میں آنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ورنہ پنجاب میں کرمنلز کا گڑھ گہرا ہوتا چلا جائیگا۔اور عام شہری اس میں گرتے چلے جائیں گے۔
پنجاب میں کرائم کے 2015میں دو لاکھ پینسٹھ ہزار سات سو اکہتر 265771 کیسز میٹر ہوئے لاہور پولیس کی ویب سائٹ پر لاہو ر کے کرائم کاریکارڈ موجود نہیںنہ ہی پنجاب پولیس نے اپنی ویب سائٹ پر تمام ڈسٹرکٹ کے کرائم ریٹ کو الگ الگ کر کے لکھا ہے۔آئی جی پنجاب مشتاق سکھیراعزم رکھتے ہیںکہ سروس کے آخری حصے میںپولیس پر لگنے والے داغـ"کرپٹ پولیس" کو دھو کر صاف کر کے جائیں گے۔حالانکہ میرا ایک سیمینار سے خطاب میں اْنہوں نے خود فرمایا کہ اْن سے پہلے آئی جی نے کو شش کی مگر و ہ کامیاب نہ ہو سکے۔
البتہ ڈ ی آئی جی آپریشنز لاہور ڈاکٹر حیدر اشرف نے جو عوام کے لیے لاہو ر پولیس کی ویب سائٹ پر خوشخبری دی ہے۔کہ اب لاہور پولیس شہریوں کے لیے تھانوں میں تعینات ایڈمن افسران سے براہِ راست رابطہ کے لیے یو۔اے۔این نمبر متعارف کروارہی ہے۔مگر ڈی آئی جی صاحب شکایت درج کرانے سے شکایت حل نہیں ہو سکتی، اسکے لیے عملی او ر جامع اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38