ایک سال بیت گیا، فروری کے دوسرے ہفتے کے دوران اسلام آباد کا موسم بہت زیادہ سرد نہیں تھا، لیکن جب مسافر ترکی کے شہر استنبول کیلئے عازم سفر ہوئے تو ہمراہ جانے والے ترک نیوز ایجنسی کے صحافی ’’فاتح چیپر‘‘خبر بریک کر چکے تھے کہ مسافروں کے استنبول میں قیام کا یہ ہفتہ اِس مرتبہ انتہائی سرد ترین ہفتہ ہو گا۔ ٹرکش ایئر لائن کا طیارہ بحیرہ ’’مرمرا‘‘ کی فضاؤں سے گزرتا ہوا استنبول کی حدود میں داخل ہوا تو باہر برفانی ہَوائیں چل رہی ہیں تھی۔ ٹرکش ایئر لائن کا طیارہ استنبول کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اترنے کے بعد ’’ٹیکسی‘‘ کرنے لگا تو عام ہوائی اڈوں کے مقابلے میں استنبول کا ٹیکسی وے کافی طویل ثابت ہوا۔ مسافر نے ٹیکسی وے کے ساتھ ساتھ بنے ایپرن پارکنگ پر کھڑے طیارے گننا شروع کر دیے۔ ایک ، دو، تین، چار، پانچ ۔۔۔ اڑتیس، انتالیس، چالیس! طیاروں کی تعداد بڑھتی چلی گئی تو مسافر نے طیارے گننے کا عمل بند کر دیا لیکن یہ دیکھ کر حیرت کا عنصر مسافر کے رگ و پے میں دوڑ گیا کہ (ایپرن پارکنگ میں) اگلی پروازوں کے انتظار میں کھڑے طیاروں میں سے چند ایک کے سوا تمام کے تمام طیارے ٹرکش ایئر لائنز کے اپنے طیارے تھے۔ حیرت اور شرمندگی کی اصل وجہ ٹرکش ایئر لائنز اور پاکستان ایئر لائنز کا تقابل تھا۔ کہاں ڈھائی تین درجن طیاروں پر محیط پاکستان کا فضائی بیڑا اور کہاں ترکی کے ایک ایئر پورٹ پر ہی پاکستان کے کل طیاروں سے بھی زیادہ ترک طیاروں کی موجودگی! حسن انتظام کے شاہکار استنبول کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پردنیا بھر سے آنے اور جانے والے مسافروں کیلئے فراہم کی جانے والی سہولیات کو دیکھ کر مسافروں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ مؤدب اور چوکس امیگریشن عملہ رہنمائی اور سہولت کیلئے مسافروں کو ہمہ وقت دستیاب تھا۔ اگر کوئی مسافر غلط کاؤنٹر پر چلا جاتا تو کاؤنٹر پر کھڑا معاون افسر مسافر کو خود دوسرے کاؤنٹر تک چھوڑنے جاتا۔ امیگریشن کی ضروری کارروائی کے بعد مسافر کسی مشکل، پریشانی یا تاخیر کے بغیر باہر آئے تو مسافروں کو اپنا سامان ڈھونڈنے میں بھی کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا، البتہ پاکستانی ’’کارگو بیلٹ‘‘ تک پہنچنے کیلئے کافی دور تک پیدل ضرور چل کر جانا پڑا۔ اسلام آباد ایئر پورٹ کی اکلوتی کارگو بیلٹ کے مقابلے میں استنبول پر مسلسل مصروف اٹھارہ کارگو بیلٹس کی موجودگی بھی میزبان کیلئے فخر لیکن مہمانوں کیلئے شرمندگی کا باعث تھی۔ استنبول پہنچنے کے اگلے روز مشہور نیلی مسجد کی جانب جاتے ہوئے پاکستانی دانشوروں کے میزبان ترگت پایان نے مسافر کو بتایا کہ ’’سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور حکومت میں جب ٹرکش ایئر لائن نے پی آئی اے سے استنبول ٹو اسلام آباد اور کراچی ٹو استنبول روٹس خریدے تو ٹرکش ایئر لائنز نے اندازہ لگایا تھا کہ وہ اِن روٹس کو تین برسوں میں خسارے سے نکالنے میں کامیاب ہوجائے گی۔‘‘ اب ترگت پایان کے لہجے میں فخر کا عنصر صاف محسوس کیا جا سکتا تھا، ترگت پایان نے اپنی بات جاری رکھی، ’’لیکن ٹرکش ایئر لائنز کو اس وقت خوشگوار حیرت ہوئی جب پی آئی اے سے خریدے ہوئے اِن روٹس پر تمام خسارہ پوراکرنے کے بعد ترک فضائی کمپنی کو پہلے ہی سال چار کروڑ ڈالر سے زیادہ کا منافع بھی ہوا تھا‘‘۔ترگت پایان کی یہ گفتگو مسافروں کیلئے حیرت کے مزید کئی در وا کر گئی کہ کس طرح ایک طرف دنیا کی بہترین ایئر لائنز تباہ ہوئی اور کس طرح یورپ کا ’’مردِ بیما‘‘ ترکی ناصرف خود تندرست ہوا بلکہ معیاری سروس فراہم کر کے ’’ٹرکش ایئر لائنز‘‘ کی صورت میں دنیا کی سب سے بڑی اور بہترین ’’فضائی ایمپائر‘‘ بھی کھڑی کر دی۔ سالانہ خسارے سے دوچار پی آئی اے اس وقت جس صورتحال سے دوچار ہے، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پی آئی اے کی نجکاری کے معاملے پر ملازمین نے ہڑتال کررکھی ہے اور اپوزیشن جماعتیں بھی ہڑتالی ملازمین کی ہم نوا بنی نظر آتی ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ حکومت کی نظر میں پی آئی اے کی موجودہ بیماری کا علاج ادارے کی نجکاری میں ہی کیوں مضمر ہے؟ قوم کیلئے بحیثیت مجموعی یہ امر بھی شرمندگی کا باعث ہے کہ دنیا کی بہترین فضائی سروس اور دنیا کی کئی فضائی سروسز کی ’’ماں‘‘ ہونے کے باوجود پی آئی اے آج خود ’’ممتا‘‘ سے کیونکر محروم ہو گئی؟ پی آئی اے ملازمین کی حالیہ ہڑتال کے سبب کوفت، پریشانی، ذہنی اذیت اور تکلیف کا سامنا کرنے والے مسافروں کا آخر کیا قصور تھا کہ اُن کے بارے ہڑتالی ملازمین نے تو کجا حکومت نے بھی کچھ نہ سوچا اور یوں دونوں اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور باہر مسافر خوار ہوتے رہے۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ پی آئی اے کو تباہ کرنے کے ذمہ داروں کا تعین کون کرے گا؟ حکومت کی ذمہ داری صرف یہی نہیں کہ پی آئی اے کو درست کرے بلکہ یہ بھی فرض ہے کہ پی آئی اے کو تباہ کرنے کے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے؟ اور ذمہ داروں کے تعین کیلئے ایک اعلیٰ سطح کا عدالتی کمیشن کیوں قائم نہیں کیا جاتا؟ یہ کمیشن یہ دیکھے کہ 80ء کی دہائی تک دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں شمار ہونے والی پی آئی اے ضیاء الحق کے دور کے بعد نئے جمہوری دور میں داخل ہونے پر اس حال تک کیونکر پہنچی کہ اپنے منافع بخش روٹس تک بیچنے کیلئے مجبور ہو گئی؟ کس نے پی آئی اے کو کراچی واٹر بورڈ سمجھے رکھا؟ کس نے پی آئی اے کو اپنی جاگیر سمجھتے ہوئے اپنے مزارعے اس میں بھرتی کردیے جو گھر بیٹھے لاکھوں روپے تنخواہ وصول کرتے رہے؟ کون برسوں سے طیاروں کا اربوں روپے ماہانہ کا ایندھن ’’پینے‘‘ میں ملوث رہا اور اور کس کس نے مسافروں کا کھانا ’’ڈکارنے‘‘ میں بھی شرمندگی محسوس نہ کی۔ اعلیٰ سطح کا عدالتی کمیشن بناکر اُسے ذمہ داری سونپی جائے کہ وہ اُن مجرموں کو ڈھونڈ کر قوم کے سامنے پیش کرے جنہوں نے تباہی کے رن رے وے پر سرپٹ دوڑتے پی آئی ے کو مکمل ’’گروؤنڈ‘‘ ہونے پر مجبور کردیا۔ کمیشن یہ بھی دیکھے کہ کس نے پی آئی اے کو بحیثیت ادارہ ’’ٹربولینس‘‘ کا شکار کیا؟
قارئین کرام! فضائی سفر کے دوران طیاروں کے بے قابو ہوکر تباہ ہونے کی ٹیکنیکل وجہ کو ’’ٹربولینس‘‘ کہا جاتا ہے۔ مادے کو توانائی میں تبدیل کرلینے کے باوجود 1940ء تک سائنسدان اس مسئلے کا حل نہ نکال سکے، لیکن اگلے برس یہ روسی ماہرِ ریاضیات و طبیعات ’’آندرے کلموگروف‘‘ تھا، جس نے ’’کلموگروف تھیوری‘‘پیش کرکے فضائی سفر کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ اس تھیوری کے مطابق سائنسی زبان میں آندرے کلمو گراف نے ایندھن کے بڑے اجزا کو چھوٹے چھوٹے اجزا میں تبدیل کرکے مسئلے کا حل نکال لیا اور سپیڈ بڑھنے پر حرکی توانائی کے ختم ہوکر ٹربولینس پیدا کرنے کا راستہ بھی روک دیا۔ کرپشن، اقربا پروری، ضرورت سے زیادہ ملازمین کے بوجھ اور دیگر بدانتظامیوں اور انتظامی نالائقیوں اور نااہلیوں کے سبب قومی ایئر لائن کا ایک طیارہ نہیں بلکہ پی آئی اے مجموعی طور پر اس وقت ’’ٹربولینس‘‘ کا شکار ہو چکی ہے۔ استنبول کے مسافر کے خیال میں قومی ایئر لائن کو اس ٹربولینس سے نکالنے کیلئے بھی آج پی آئی اے کو ایک آندرے کلموگروف کی ضرورت ہے!
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024