نفرتیں بڑھنے کی وجوہ
کویت کے سابق امیر نے جب ہنگامی پریس کانفرنس میں الزام لگایا کہ ان کی حکومت کے خاتمے میں سعودی عرب کا براہ راست ہاتھ رہا ہے یہ سن کر اور جان کر کہ سعودی عرب اور کویت کے تعلقات اس نہج پر آگئے ہیں کہ اب سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا آپشن بھی استعمال کیا جارہا ہے خلیج کی اس بدلتی صورتحال نے ہر مسلمان کی طرح میرا دل بھی زخمی ہے یہ ٹرمپ کی وہ,, اسلام دوست ،،پالیسی ہے جس کا اظہار اورخدشہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے ساتھ ہی محسوس کیا گیا ہے۔ 34 ملکی اسلامی اتحاد کی رونمائی ہو چکی ہے ہندوستان افغانستان کے کندھے پر بندوق رکھ کر جنوب ایشیائی ممالک میں جو کھیل کھیل رہا ہے اس کا ہدف پاکستان میں مسلسل انتشار اور داخلی استحکام سے دو چار کرنا ہے اس کی ایک جھلک گزشتہ ماہ کے دوران‘ لاہور‘ کراچی‘ اسلام آباد ‘ ملتان اور پشاور کی شاہراؤں میں دیکھی گئی ہے۔ صوبائی‘ تعصب‘ لسانیت اور فرقہ واریت جیسے زہریلے کانٹے جو صرف کتابوں یا دور دراز جلسوں میں سنے اور دیکھے جاتے رہے اب ان کا اظہار جید علماء کرام اور سیاست کے ,, بڑوںِِ،، کی موجودگی میں دیکھا جارہا ہے جن شخصیات نے تہذیب روایت اور تمدن کے پھول تقسیم کرنا تھے وہی تلخیوں کو ہوا دے رہے ہیں میرا دل خون کے آنسو رورہا ہے ہم کیوں دلوں کو جوڑنے والوں میں شامل نہیں یہاں داتا علی ہجویریؒ کی کشف المجوب کی روشنی نظر آگئی۔ آپ کو ایک بھرے مجمے میں ایک خوبصورت قینچی پیش کی گئی آپ نے اسے لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اس کے بدلے اگر سوئی پیش کی جاتی تو شوق سے قبول کرلیتا پھر وضاحت کی گئی کہ قینچی کا کام کاٹنا اور علیحدہ کرنا ہے جبکہ سوئی جوڑنے اور اکٹھا کرنے کی علامت ہے ۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ اکثر علماء اکرام دلوں کو جوڑنے کی بجائے لوگوں میں فاصلے پیدا کرنے کی تگ ودو میں مصروف ہیں۔ دین اسلام میں تو واضع کر دیا گیا ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑھو لیکن یہاں معاملہ برعکس ہے ہر ایک اپنے آپ کو مسیحا ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے کوئی دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہر فرقہ دوسرے کو ناعوذ باللہ کافر قرار دے رہا ہے یوں وہ نفرتیں پھیلا کر مسلمانوں کو ایک دوسرے سے دور کررہا ہے جبکہ اسلام سلامتی امن بھائی چارے کا نام ہے ہر کوئی سزا کے قصے سناتا ہے جبکہ کسی کو انعامات یاد نہیں کہ جو خدا ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے وہ حضور کریمؐ کے امتی کو کیسے سزا کا مرتکب ٹھہرا سکتا ہے؟ فرقہ واریت کا زہر اب پورے پاکستان میں سرایت کر چکا ہے علماء اکرام کو چاہیے کہ کلیدی کردار ادا کرکے نہ صرف پاکستان بلکہ ساری اسلامی ریاستوں کو یکجا کریں تاکہ امن کے ذریعے دنیا کو باور کروایا جاسکے کہ اسلام سلامتی کا دین ہے اور دہشت گردی سے دور‘ دور تک کا واسطہ نہیں۔ اسی طرح وطن عزیز میں صوبائیت پرستی بھی بڑھتی جارہی ہے اس میں ننانوے فیصد کردار صوبائی لیڈران کا ہے جو سندھی کو پنجابی‘ پشتو کو بلوچی اور پنجابی کو پٹھان کے خلاف بھڑکا کر اقتدار تک رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔موجودہ حالات میں کوئی بھی ایسا رہنماء نظر نہیں آتا جو پورے ملک کی بات کرتا ہو میرے خیال میں اگر یہی رہنما ووٹوں کی بجائے عوام کو شعور دینے کی کاوش کریں تو نہ صرف یہ کامیابی سے ہمکنار ہو کر اقتدار کے مزے لوٹیں گے ساتھ ساتھ قوم بھی شعور کی منازل طے کرکے وطن کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کے قابل بھی جائے گی موجودہ تمام پولیٹیکل پارٹیز کو تمام پاکستانی شہریوں کو اک قوم بنانے کیلئے تگ ودو کی ضرورت ہے جب تک ہم ایک قوم نہیں بنیں گے اس وقت تک نہ ریاست ترقی کی جانب گامزن ہوگی اور نہ ہی ہم سرحد پار دشمن عناصر کی منافقانہ چالوں کا مقابلہ بہتر انداز میں کرنے کے قابل ہوں گے‘ ملک دشمن عناصر بری طرح ملک کا امن تباہ کررہے ہیں جبکہ ان کے بزدلانہ واروں کی زد میں ہزاروں شہری زندگی سے کوسوں دور جاچکے ہیں۔ سالوں سال اقتدار میں رہنے والی پارٹیاں آج بھی بنیادی حقوق کی بات جرأت مندانہ انداز میں کرتی دیکھائی دیتی ہیں ۔شرم کی بات ہے کہ سالوں حکومت کے باوجود وہ جمہور کو بنیادی حقوق فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ قوم میں شعور کا نہ ہونا بھی ہے اگر ہم بطور قوم اسلامی روایات کی پاسداری پر یقین رکھتے ہیں تو ہمیں موجودہ حالات میں سیرت پاک سے سب کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے ہمیں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی عادت ڈالنی ہوگی ،تنقید کی بجائے اصلاح کی کوشش کرنی ہوگئی صوبائی‘ لسانی‘ فرقہ واریت کو ختم کرکے ایک مسلمان اور ایک قوم کی بات کرنا ہوں گی جب ہم ایک دوسرے پر الزام تراشیوں سے چھٹکارا حاصل کریں گے خود بخود حالات بہتری کی جانب بڑھنے لگیں گے اور ایسا کرنے سے نہ صرف ہمارے حالات بہتر ہوں گے ساتھ ساتھ سرحد پار دشمن عناصر بھی ہمیں توڑنے میں ناکام ہوتے جائیں گے اگر ہم اپنی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں تو ضرور ایک دن ہم سب پر غلبہ پالیں گے ‘ حضرت اقبالؒ نے ٹھیک کہا تھا
خدا کے عاشق تو ہزاروں ہیں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا