بدنصیبی کی انتہا دیکھیں ڈکٹیٹر کے دور کے بعد اللہ اللہ کر کے جو سیاسی دور آیا اس میں بھی جو سیاسی قیادتیں سامنے آئیں انکا نصب العین بھی صرف اور صرف ناجائز دولت کے انبار اکھٹا کرنا ٹھہرا بقول اقبال انھے اس بات سے کوئی سروکار ہی نہیں تھا کہ یہ مال و دولت، یہ رشتہ داریاں، یہ مکاں و زماں سب ایک دھوکہ ایک فریب سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس تناظر میں اگر غور سے دیکھا جائے تو قائداعظم کی تو بات ہی الگ ذوالفقار علی بھٹو بھی مالی طور پر کرپٹ نہیں تھا اسی لیئے اسکو میرے جیسے اور اسکے شدید ناقد بھی ادب کے ساتھ کن اچھے الفاظ سے یاد کرتے ہیں اور اسکے مقابل اسکی لیگیسی کے دعویداروں کو دنیا کن القابات سے نوازتی ہے تو پھر یہ حقیقت اشکار ہوتی ہے کہ قدرت کے اقوال اور نظام کو زوال نہیں۔ دنیا میں آپکا کردار اچھا ہے یا برا ایک دن ظاہر ہو کر رہتا ہے۔ اگر وقتی طور پر یہ ظاہر نہ بھی ہو تو تاریخ بڑی ظالم ہے یہ سات تہوں میں چھپے رازوں کو بھی اگل کر رہتی ہے اور یہی فکر کا مقام ہے انکے لیئے جنہوں نے پاکستان کی دولت کو لوٹ کر بیرون ملک رکھا ہوا ہے شائد وہ مارکوس، سوہارتو، شاہ ایران اور قذافی کے انجام سے بے خبر ہیں شائد وہ قرآن پاک کی سورہ لہب سے بھی واقفیت نہیں رکھتے۔ لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ فکر کی صفت تو ان میں پائی جاتی ہے جن میں کوئی ظرف ہوتا ہے۔ دولت کے پجاریوں میں ظرف ڈھونڈنا ایسے ہی ہے جیسے گِدھ کے آلنے سے ماس یعنی گوشت۔ اس لئے ان سے فکر کی توقع رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ احمقوں کا ذکر چل نکلا تو تاریخی شواہد کچھ اور حقیقتیں بھی بیان کرتے ہیں کہ نائن الیون کے بعد جب امریکن صدر بش جو عیاری میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا تھا اس نے جب پاکستان کے اس وقت کے فوجی ڈکٹیٹر اور آج کے عدالتی بھگوڑے پرویز مشرف کو فون کیا کہ کیا وہ افغانستان پر امریکی فوجی یلغار میں اسکا ساتھ دیگا تو کہنے والے کہتے ہیں کہ بش انتظامیہ اپنی تمام تر عیار اور مکار حربوں کے باوجود اس مخمصے کا شکار تھی کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو اپنا ہمنوا بنانے کیلیئے کیا کیا بڑے پاپڑ بیلنا پڑیں گے اور انکی مدد حاصل کرنے کیلیئے کن بڑی کڑی شرائط سے گزرنا پڑیگا۔ امریکن دستاویز بتاتی ہیں کہ اس وقت کے امریکن صدر اور اسکے مشیروں کی حیرت کی انتہا اس وقت دیکھنے والی تھی جب انہیں پتہ چلا کہ صرف ایک فون کال پر کاغذی شیر پرویز مشرف نے ایک لمحے کے تردد کے بغیر اپنے کسی کمانڈر سے مشاورت کے بغیر ہر قسم کی غیر مشروط مدد کی حامی بھر لی۔ تاریخ چیخ چیخ کر منادی کر رہی ہے کہ نامرادی کے اس دشت میں پھیلی اس اکاس بیل نے میری اس دھرتی کی حفاظت پر مامور کتنی کڑیل جوانیوں کا خون پی لیا ہے کتنے معصوم بے گناہ شہریوں کو دہشتگردی کا یہ اژدہا نگل چکا ہے اور اس ساری تباہی کا سبب بننے والا آستین کا وہ سانپ جو پوری ایک نسل کو ڈس گیا ہے کس ہٹ دھرمی اور بےشرمی کے ساتھ پاکستان سے باہر بیٹھے آج بھی اپنے فیصلے کا دفاع کر رہا ہے یہ بھی کسی سے چ±ھپا نہیں۔ جب اقبال یہ کہتا ہے کہ " اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں" تو جن بتوں کی طرف اس مردِ قلندر کا اشارہ تھا وہ اس ڈکٹیٹر پرویز مشرف جیسے لوگ ہی ہیں۔ قارئین جب اپ اتنے سنجیدہ اور اہم موضوع پر بات کر رہے ہیں تو پھر یہ لازم ہے کہ ہر شخص اور ہر ادارے پر بات کرتے وقت بغض کی عینک ایک طرف رکھ دینی چاہیئے۔ جب ڈکٹیٹر ضیاالحق اور پرویز مشرف کے کرداروں پر تنقید کے نشتر اور کچھ دوست تبرے بازی سے بھی گریز نہیں کرتے تو پھر اسی ادارے کی ایک اور شخصیت بھی ہے جسکا نام اشفاق پرویز کیانی ہے اس نے جس وقت فوج کی کمان سنبھالی تو پرویز مشرف کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے فوج کا جو مورال تھا وہ کسی سے چھپا نہیں لیکن اسکی کمانڈ نے وہ دن بھی دکھایا کہ سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد ا±سی پاکستان نے جو ایک فون کال پر دوسروں کی جنگ لڑنے پر تیار ہو گیا تھا اس نے سات ماہ تک نیٹو کی سپلائی لائن منقطع کر دی یہاں تک کہ دنیا کے فرعون امریکہ کو اپنے کیے پر معافی مانگنی پڑی اور پھر اسے شمسی ائیر بیئس بھی مہینوں نہیں دنوں میں خالی کرنا پڑا۔ یہ سب کیوں ہوا تو دوستو اس لیئے کہ اس کمانڈر کے کوئی سیاسی عزائم نہیں تھے حالانکہ میمو گیٹ سکینڈل کو اچھالنے میں اس وقت کے اپوزیشن لیڈر میاں نواز شریف نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اور وہ حالات کو اس نہج پر لا چکا تھا کہ کسی وقت کوئی بھی غیر آئینی قدم اٹھ سکتا تھا لیکن کریڈٹ جاتا ہے اشفاق پرویز کیانی کو اس نے جنرل پاشا اور نواز شریف کے گٹھ جوڑ کو کامیاب نہ ہونے دیا۔ کہتے ہیں قدرت کے اصول اٹل ہوتے ہیں اور مکافات عمل کے قانون کو قدرت کے اصولوں میں اوّل مقام حاصل ہے جو اپنے شکار کو ڈھونڈنے میں ایک منٹ کی دیر نہیں لگاتا۔ مکافات عمل دیکھیے اسی جنرل پاشا کا لگایا پودا نواز شریف کو آج کس مقام پر لے آیا یہ بھی تاریخ کا ایک سبق رہے گا۔ زرداری تو اپنے پانچ سال پورے کر گیا لیکن نواز شریف کو میمو گیٹ پر سازش میں شریک ہونے کی سزا مل گئی۔ ملکی مفادات کے حوالے سے اگر اشفاق پرویز کیانی کا اچھے الفاظ میں ذکر تاریخ کا حصہ بن رہا ہے تو پھر جنرل راحیل شریف کا کردار بھی قابلِ تحسین ہے 2014ءمیں شطرنج کی بساط لگانے والوں نے اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن آفرین راحیل شریف اور اس وقت کے سب سے اہم کمانڈر قمر باجوہ جنہوں نے اپنے ادارے کی لاج رکھ لی اور کوئی بھی ماورائے آئین قدم اٹھانے سے گریز کیا۔ جنرل قمر باجوہ اس وقت لگاتار تیسرا فوجی کمانڈر انچیف ہے جو بظاہر اپنے آپکو سیاست سے الگ تھلگ رکھ کر اپنے پیشہ وارانہ فرائض پر توجہ دے رہا ہے شائد اسی لیئے ستر سال بعد آج میرے وطن کو بھی وہ مبارک دن دیکھنے کو مل گیا ہے کہ اس نے امریکن کے منہ پر یہ کہہ کر کے اسکی نمائندہ برائے ایشیا اور افغان امور کے دورے کی میزبانی سے معذرت کر لی ہے کہ اس وقت پاکستان کا کوئی سرکاری عہدیدار امریکہ سے مذاکرات کیلیئے فارغ نہیں۔ یہی وہ کلمہ وہ حکمِ اذاں ہے جو اقبال نے اپنے کلام کے آخری مصرع میں کہا ہے۔ "مجھے ہے حکم آذاں لا الہٰ الا للہ"
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024